یہ آیہ ٔکریمہ دعوت کے مطلوبہ عمل کے ایک اور پہلو کو بھی واضح کر رہی ہے اور وہ یہ کہ دعوت اللہ اور اس کے دین کی طرف ہونی چاہیے نہ کہ کسی خاص فرد‘ یا گروہ‘ یا جماعت یا فرقے یا مسلک و مشرب کی طرف. دعوت کا اصل ہدف یہ ہونا چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اللہ کو پہچانیں‘ اس (۱) فَلَا اقۡتَحَمَ الۡعَقَبَۃَ ﴿۫ۖ۱۱﴾وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡعَقَبَۃُ ﴿ؕ۱۲﴾… ( البلد) کی ربوبیت کا اقرار کریں اور اس پر پورے اطمینانِ قلب کے ساتھ یقین رکھیں‘ اسی کی اطاعت و بندگی کو اپنے اوپر لازم کریں اوراسی کی رضاجوئی کو اپنی زندگیوں کا نصب العین بنائیںاور اس کے لیے حضور نبی کریم کے بتائے ہوئے طریقے کو اختیار کریں. اس بات کو اس آیہ ٔکریمہ میں دو طرح واضح فرمایاگیا: ایک مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ کے الفاظ سے اشارہ کر دیا گیا کہ دعوت اللہ کی طرف ہو‘ کسی خاص فرد یا جماعت کی طرف نہ ہو. اور دوسرے وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳﴾ میں مزید وضاحت کر دی گئی کہ داعی خود بھی صرف مسلمان ہونے کا مدعی ہو اور کسی خاص گروہ یا فرقے کی جانب اپنے آپ کو منسوب نہ کرے‘ اور اس کی دعوت بھی صرف ’اسلام‘ کی طرف ہو نہ کہ کسی خاص مسلک و مشرب کی طرف. اس لیے کہ اللہ کے نزدیک تو دین بس اسلام ہی ہے : اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟