اسی طرح اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ سے بیک وقت ایسے دو فتنوں کا سدباب کردیا گیا جن میں عموماً اصحابِ دعوت و عزیمت کے مبتلا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے‘ یعنی ایک یہ کہ ان کی دعوت امت میں ایک نئے فرقے کی پیدائش کا سبب بن سکتی ہے جس سے افتراق و انتشار میں اضافہ ہوتا ہے. اس کا سدباب اس سے ہو جاتا ہے کہ داعی اور اس کے ساتھی یہ بات ہر وقت پیش نظر رکھیں کہ ہم بھی مسلمانوں ہی میں سے ہیں اور امت مسلمہ ہی کا ایک جزو ہیں ‘ کوئی علیحدہ چیز نہیں! اور دوسرے یہ کہ داعی کی اپنی شخصیت ایک نیابت بن جائے جس کی پرستش شروع ہوجائے. اس فتنے کی ابتدا اصل میں داعی کی اپنی ذات سے ہوتی ہے‘ یعنی پہلے خود اس کے اپنے دل و دماغ میں یہ خناس پیدا ہوتا ہے کہ میں ’’چیزے دگر‘‘ہوں. داعی کے قلب کا یہ احساس اس کے قریبی ساتھیوں پر منعکس ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ ’’پیراں نمے پرند و مریداں مے پرانند‘‘ کے مصداق داعی کی شخصیت لات و منات اور عزیٰ و ہبل کی فہرست میں اضافے کا سبب بن جاتی ہے. اس کا سدباب صرف اس طرح ہوسکتا ہے کہ داعی کے سامنے ہمیشہ یہ حقیقت عیاں رہے کہ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ میں بھی بس ایک عام مسلمان ہوں‘ اور اگر اللہ تعالیٰ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾ (۱کے مصداق حالت اسلام ہی میں اٹھا لے تو بس یہی میری سب سے بڑی کامیابی ہے.