سب سے اعلیٰ کام اور سب سے عمدہ بات!

وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا کے الفاظ پر بھی غور فرما لیجیے!ان الفاظ میں اس حقیقت کی جانب اشارہ ہے کہ یوں تو دنیا میں ہر صاحب صلاحیت آدمی کسی نہ کسی بات کی دعوت دیتا ہی ہے‘ کوئی خاندان یا برادری کے مفادات کی پکار لگاتا ہے تو کوئی ملک و قوم کی عظمت کا راگ الاپتا ہے‘ کوئی جمہوریت کے قیام کی دعوت لے کر کھڑا ہوتا ہے تو کوئی اشتراکیت کے نفاذ کا داعی بنتا ہے. لیکن ان سب سے بہت بلند‘ اعلیٰ اور ارفع دعوت اس کی ہے جو اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف پکارتا اور اس کے دین کی دعوت دیتا ہے. حقیقت یہ ہے کہ اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے انسان کے لیے اس مرتبے سے بلند تر کوئی مرتبہ نہیں کہ وہ ’’دَاعِیًا (۱) ’’اور تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر فرمانبرداری کی حالت میں.‘‘ (آل عمران:۱۰۲اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ ‘‘ اور ’ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا ‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسب نور کر کے خود بھی ہدایت کا ایک چھوٹا سا چراغ بن جائے! ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ ﴿ؕ۲۶﴾ (المطففّین) ’’پس چاہیے کہ اسی کی حرص کریں حرص کرنے والے !‘‘ 

خلاصۂ کلام

اب تک جو کچھ عرض کیا گیا اس کا خلاصہ یہ ہے :

(۱) اُمت مسلمہ کی غرضِ تاسیس اور اس کا مقصد وجود ہی ’دعوت الی اللہ‘ ہے اور دنیا میں اس کی عزت وسربلندی ہی نہیں بلکہ اس کے وجود و بقا کا تمام تر انحصار بھی اس پر ہے کہ وہ اپنے اس فرض منصبی کو کماحقہ ٗادا کرے.

(۲) پھر دعوت الی اللہ ہی نبی اکرم (فداہ ابی واُمی) کی وہ سب سے زیادہ مؤکد سنت ہے جس پر آپؐ کا تواتر عمل ظاہر و باہر ہے. لہٰذا حضور کے اتباع کا اولین تقاضا بھی یہی ہے کہ آپ کی سنت ِدعوت کا اتباع کیا جائے.

(۳) مختلف مذہبی جماعتوں اور فرقوں نے اپنے اپنے مسلک و مشرب کی اشاعت و توسیع کے لیے ’مبلغین ‘کی جو’سول سروس‘ جاری کی ہوئی ہے وہ ’دعوت الی اللہ‘ کے نقطہ نظر سے نہ صرف یہ کہ مفید نہیں ہے بلکہ الٹی مضر ہے!

(۴) دعوت الی اللہ کے اصل لوازم ایمان اور عمل صالح ہیں نہ کہ فروعاتِ دین کا علم. اللہ تعالیٰ کی ربوبیت پر یقین واثق اور اعمالِ صالحہ و اخلاقِ حسنہ کے امتزاج جمیل کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ داعی میں تواضع و انکسار پایا جائے اور اس کی دعوت بھی محض اللہ اور اس کے دین کی طرف ہو‘ تاکہ نہ اس کی اپنی شخصیت ایک نیابت بن سکے اور نہ ہی اس کے حلقہ بگوش ایک نئے فرقے کی صورت اختیار کر سکیں.

(۵) ’دعوت الی اللہ‘ کے بہت سے پہلو اور بے شمار مدارج و مراتب ہیں .اور آج کی گفتگو کا اصل موضوع ’دعوت الی اللہ‘ کی وہ ابتدائی اور بنیادی منزلیں ہیں جن تک ہر باشعور مسلمان کی رسائی ممکن بھی ہے اور لازم بھی!

اُسوۂ حسنہ

اب میں آپ کی توجہ سیرتِ محمدی  کے ان واقعات کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں جو بعثت کے فوراً بعد پیش آئے‘ تاکہ ایک طرف ’دعوت الی اللہ‘ کے اصل مبادی و اصول اور اس کا صحیح نہج و اسلوب واضح ہو جائے اور دوسری طرف یہ بات بھی واضح ہوجائے کہ خود آنحضور کو دعوت کے ابتدائی دور میں وہ تمام مشکلات پیش آئیں اور ان تمام دل شکنیوں کا سامنا کرناپڑا جو کسی بھی دعوت کے ابتدائی ایام میں پیش آنی لازمی ہیں. اور آپ نے بعینہٖ انہی فطری طریقوں کو اختیار فرمایا جو کسی بھی شخص کو کسی دعوت کے پیش کرنے کے لیے لازماً اختیار کرنے پڑتے ہیں.

آپ کو معلوم ہے کہ آنحضور کی بعثت سے پہلے کی زندگی بھی اَخلاقِ حسنہ کا ایک کامل نمونہ تھی اور آپ کی سیرت و اخلاق پر کسی قسم کا کوئی داغ یا دھبہ موجود نہ تھا. آپ نے اپنے حسن اخلاق اور راست معاملگی کی بدولت اپنے معاشرے سے ’الصادق‘ اور ’الامین‘ کے خطابات حاصل کیے تھے. یہ واضح رہنا چاہیے کہ آپ نے یہ خطابات زندگی کی عین منجدھارمیں رہتے ہوئے حاصل فرمائے تھے نہ کہ اس سے دور کسی گوشہ ٔعافیت میں بیٹھ کر. آپ ہمیشہ اپنی سوسائٹی میں ایک فعال فرد کی حیثیت سے شریک رہے.حتیٰ کہ آپ نے اُس وقت کی اعلیٰ ترین سطح پر کاروبار بھی فرمایا اور حقیقت یہ ہے کہ دراصل اسی میدان میں آپ کی صداقت‘ اور ’امانت‘ کے اصل جوہر نمایاں ہوئے. بعد میں جب آپ ’دعوت الی اللہ‘ کے منصب پر فائزہوئے تو اس وقت آپ کی دعوت کی تاثیر میںجہاں اس بات کو دخل ہے کہ خود وہ دعوت فطرتِ انسانی کے نہایت قریب اور عقل صحیح و طبع سلیم کی جانی پہچانی تھی وہاں اس امر کو بھی فیصلہ کن حدتک دخل حاصل ہے کہ اس کا پیش کرنے والا ’الصادق‘ اور ’الامین‘ تھا‘ صلی اللہ علیہ وسلم 
(وفداہ ابی واُمی!) 

قربِ بعثت کے زمانے میں آپ پر تفکر کا غلبہ ہو گیا اور رفتہ رفتہ ’’حاضر و موجود‘‘ 
(۱سے (۱)ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے (اقبال) بیزاری اور حقیقت نفس الامری کی تلاش وجستجو کا جذبہ بڑھتا چلا گیا. چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ ’’ثم حُبِّبَ اِلَیْہِ الْخَلَائُ فَکَانَ یَخْلُو بِغَارِ حِرَاء فَیَتَحَنَّثُ فِیْہِ‘‘ کہ پھر آپ کوخلوت گزینی محبوب ہو گئی.چنانچہ آپؐ غارِ حرا میں خلوت گزیں ہوتے تھے اور وہاں عبادت فرماتے تھے. شروحِ حدیث میں اس عبادت کی نوعیت التفکر والاعتبار یعنی غور و فکر اور عبرت پذیری بیان ہوئی ہے. اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ سلسلہ کتنے عرصے چلا. بہرحال وہ وقت آ گیا کہ ’تلاشِ حقیقت میں سرگرداں‘ کو ہدایت نامہ حاصل ہوا (۱. وحی کا سلسلہ شروع ہوا‘ حقیقت پر سے پردے اٹھا دیے گئے. آپؐ کو منصب نبوت عطا ہوا اور آپ ؐ ’دعوت الی اللہ‘ کے علمبردار اور قرآن مجید کے الفاظ میں شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿ۙ۴۵﴾وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا ﴿۴۶﴾ (الاحزاب) بنا دیے گئے! فصلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وعلٰی آلِـہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِین. 

بعثت کے فوراً بعد دعوت کا سلسلہ شروع ہو گیا. چنانچہ فطری طور پر سب سے پہلے ان قریب ترین لوگوں کو دعوت دی گئی جن کے ساتھ آپ  کا اٹھنا بیٹھنا رہا تھا اور جو آپ ؐ کے اخلاق و عادات سے سب سے زیادہ واقف تھے ‘یعنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ‘ چچا زاد بھائی جنہوں نے آپؐ ہی کے سایہ ٔعاطفت میں تربیت پائی تھی یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ‘ آزاد کردہ غلام حضرت زید رضی اللہ عنہ اور جگری دوست حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ. چنانچہ یہ سب حضرات پہلے ہی دن ایمان لے آئے اور یہیں سے ’دعوت الی اللہ‘ کا پہلا سبق واضح ہوا ‘یعنی یہ کہ یہ گھر سے شروع ہوتی ہے اور اس کا اوّلین میدان انسان کے قریب ترین اعزہ و اقارب ہیں یا عزیز ترین اصدقاء واحباب!
پھر ان ’سابقون السابقین‘ نے اتباع سنت کا جو مفہوم سمجھا اور آنحضرت کی سنت دعوت کا جس طور سے اتباع کیا اس کی سب سے درخشاں مثال حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہنے قائم فرمائی کہ داعی اعظم کے اتباع میں خود بھی فوری طور پر 
(۱) وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾ (الضحی) ’’پایا تمہیں تلاشِ حق میں سرگرداں‘ تو ہدایت دی!‘‘ داعی بن گئے اور یہ ان ہی کی دعوت و تبلیغ کا اثر تھا کہ ’سابقون الاولون‘ کے سرکردہ اور گل سرسبد عثمان غنی‘ عبدالرحمن بن عوف‘ طلحہ‘ زبیر‘ سعد بن ابی وقاص‘ ابوعبیدہ بن الجراح‘ عثمان بن مظعون وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعیناللہ کے دین میں داخل اور اُمت محمدی میں شامل ہوئے‘ فجزاہ اللّٰہ عن جمیع المسلمین والمسلمات خیر الجزائ. یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ محبت رسول کا اصل تقاضا آپؐ کی سنت دعوت کا اتباع ہے.

واضح رہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہکوئی زاویہ نشین یا گوشہ گیر انسان نہ تھے بلکہ معاشرے کے ایک متمول اور بااثر شخص اور ایک نہایت کامیاب تاجر تھے. آنحضور نے فرمایا کہ میں نے ہر شخص کے احسانات کا حساب چکا دیا سوائے ابوبکرؓ کے. ان کے احسانات کا بدلہ میں نہیں دے سکتا‘ اللہ ہی دے گا. واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہنے اپنی بالکل ابتدائی دور کی دعوت و تبلیغ سے اُمت ِمحمدیہ cکو ان مایہ ناز ہستیوں کا تحفہ دے کر جو احسانِ عظیم کیا ہے‘ پوری امت اس کا بدلہ چکانے سے تاقیامت معذور رہے گی!! یہ ’دعوت الی اللہ‘ کے ’’شجرئہ طیبہ‘‘کی ایک شاخ کاذکر تھا جو تمام شاخوں میں سب سے بڑی تھی لیکن تنہا نہ تھی. حقیقت یہ ہے کہ جو شخص بھی اس دعوت پر ایمان لایا وہ فوری طور پر خود بھی اس کا داعی بن گیا.

’’اصل ثابت‘‘ کی طرف رجوع کیجیے.حضور کو حکم ملا: 
وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ﴿۲۱۴﴾ۙ (الشعرائ) ’’اپنے قریبی عزیزوں کو خبردار کرو!‘‘سوچیے! آج بھی کسی کو حکم ہو کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو کوئی پیغام پہنچا دو تو وہ اس کے لیے سب سے اچھاطریقہ کون سا اختیار کرے گا؟ آنحضور نے اپنے پورے گھرانے یعنی بنوہاشم کی دعوت کا اہتمام فرمایا. چالیس کے لگ بھگ آدمیوں کو کھانا کھلانے کے بعد ان کے سامنے اپنی دعوت پیش کرنی چاہی‘ لیکن ابولہب کی بکواس نے اس کا موقع ہی نہ دیا اور مجلس ویسے ہی برخاست ہو گئی. سوچئے کتنی دل شکنی اور کیسی مایوسی کا سامنا حضور کوہوا ہو گا .لیکن ’داعی الی اللہ‘ کے لیے مایوسی کا کیا سوال؟ پھر اہتمام فرمایا‘ دوبارہ دعوت فرمائی اور پھر کھانا کھلایا. روایت ہے کہ بھر ے مجمعے میں سے صرف ایک نوجوان جسے نوجوان کے بجائے بھی بچہ ہی کہنا زیادہ مناسب ہے ‘ ایسا نکلا جس نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا . چشم تصور سے دیکھئے کہ اللہ کا رسول اپنے خاندان کو اللہ کی طرف بلاتا ہے‘ لیکن کوئی ایک متنفس بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا. حضرت علی رضی اللہ عنہ تو پہلے ہی سے اپنے تھے‘ ان دونوں دعوتوں کا حاصل تو صفر ہی رہا. ایسے ہی تو مواقع تھے جن پر وحی الٰہی تسلی و تشفی کے لیے اترتی تھی کہ وَ اصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعۡیُنِنَا (۱اور وَ اصۡبِرۡ وَ مَا صَبۡرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ (۲ ) 

حکم ہوا : 
فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ (الحجر:۹۴جس بات کا آپ کو حکم ملا ہے اسے برملا اور علی الاعلان کہہ دیں! آپ نے وقت کے رواج اور دستور کے مطابق کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر نعرہ لگایا:’’واصَباحاہ‘‘ لوگو! خطرہ درپیش ہے‘ فوراً جمع ہو جاؤ!جب لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے ’پہاڑی کا وعظ‘ ارشاد فرمایا. ارشاد ہوا: ’’اے معشر قریش! اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑ کے عقب سے ایک لشکر آ رہا ہے تو تم کو یقین آئے گا؟‘‘ سب نے کہا’’کیوں نہیں؟ جبکہ ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے ہی دیکھا ہے!‘‘ تب آپ نے فرمایا: ’’تو میں یہ کہتا ہوں کہ اگر تم ایمان نہ لائو گے تو تم پر دردناک عذاب نازل ہو گا!‘‘ لوگ سخت برہم ہوئے اور کہتے ہیں کہ اسی موقع پر ابولہب نے کہا تھا : تَبًّا لَکَ‘ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا ’’تمہارے ہاتھ ٹوٹ جائیں‘ کیا بس اسی لیے تم نے ہمیں جمع کیا تھا؟‘‘

جس پر سورۃ اللہب نازل ہوئی کہ ہاتھ محمد ( ) کے نہیں بلکہ ابولہب کے ٹوٹ چکے!لیکن ابولہب کے ہاتھوں کا ٹوٹنا تو ابھی عالم امر میں تھا‘ عالم واقعہ میں اس کا ظہور تو بہت بعد میں ہوا. اُس وقت جو صورت بالفعل موجود تھی وہ تو یہی تھی کہ آنحضور گویا اندھوں اور بہروں کے سامنے اپنی دعوت پیش فرما رہے تھے جس کا قبول کرنے والا کوئی نہ تھا. ’پہاڑی کے اس وعظ‘ کا تجزیہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اصل دلیل داعی کی صداقت و امانت کا وہ عام اقرار ہے جو سوسائٹی میں موجود تھا اور مقامِ نبوت کی وضاحت کے لیے موقع اور محل کے اعتبار سے بہترین تمثیل پیش کی گئی ہے کہ جیسے بلندی پر کھڑا ایک شخص دونوں طرف دیکھ رہا ہوتا ہے جبکہ پستی میں کھڑے لوگ دوسری طرف (۱) ’’اپنے پروردگار کے فیصلے کا انتظار کرو‘ تم ہماری نگاہوں میں ہو!‘‘ (الطور:۴۸)

(۲) ’’اور صبر کرو اور تمہارا صبر اللہ ہی کے بھروسے پر ہے.‘‘ (النحل:۱۲۷
کے حالات سے واقف نہیں ہو سکتے‘ اسی طرح نبی کی نگاہ میں دنیا و آخرت دونوں ہوتے ہیں جبکہ عام انسانوں کی نگاہیں دنیا کے بھی صرف ظاہرتک محدود ہوتی ہیں. یَعۡلَمُوۡنَ ظَاہِرًا مِّنَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚۖ وَ ہُمۡ عَنِ الۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ غٰفِلُوۡنَ ﴿۷﴾ (الروم) (۱

اس طرح رفتہ رفتہ دعوت کا حلقہ وسیع ہوا. اللہ ہی جانتا ہے کہ ایسے کتنے اجتماعات کو نبی اکرم نے خطاب فرمایا. کتنے لوگوں سے ان کے گھروں میں جا کر ملاقات کی اور ان کے سامنے اپنی دعوت پیش کی. دُھن کا عالم یہ تھا کہ جب بھی معلوم ہوا کہ کوئی قافلہ باہر سے آیا ہوا ہے یا کوئی نووارد مکہ میں موجود ہے. آپ اس کے پاس پہنچ جاتے اور اپنی دعوت پیش فرماتے . اسی سے دعوت اور تعلیم و تدریس کا فرق واضح ہوتا ہے ‘معلّم و مدرّس یوں دردر کی ٹھوکریں نہیں کھاتے بلکہ وہ مطلوب و مرجع ہوتے ہیں اور طالبانِ علم ان کے پاس آتے اور ان کی نازبرداریاںکرتے ہیں ‘جبکہ داعی طالب ہوتا ہے اور لوگ مطلوب. وہ گھر گھر جاتا ہے ‘ ہر دروازے پر دستک دیتا ہے‘ ہر گوش تک اپنی آواز پہنچاتا ہے‘ لوگ تمسخر کرتے ہیں‘ تعذیب سے بھی نہیں چوکتے‘ جھٹلاتے اور دھتکارتے ہیں تو ’داعی الی اللہ‘ رات کے وقت اپنے رب کے حضور میں عاجزی و فروتنی کے ساتھ گڑگڑاگڑگڑا کر ان کی ہدایت کے لیے دعائیں کرتا ہے اور ایک ایک کا نام لے کر درخواست کرتا ہے کہ ’’باری تعالیٰ! عمر بن الخطاب یا عمرو بن ہشام میں سے کوئی ایک تو مجھے ضرور ہی عطا فرما دے!‘‘

ایک طرف یہ ‘اور دوسری طرف یہ بھی نگاہ میں رہے کہ ’’داعی الی اللہ‘‘ کے سینے میں پتھر کا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک انتہائی حساس قلب ہوتا ہے جو ابنائے نوع کے کفر و انکار پر بری طرح تڑپتا ہے‘ ان کے انجام بد کے تصور سے اس پر غم و اندوہ کی جو حالت طاری ہوتی ہے اس سے اس پر عین عالم شباب میں بڑھاپے کے آثار طاری ہو جاتے ہیں اور وحی الٰہی کو بار بار تسلی و تشفی ہی نہیں محبت آمیز تنبیہہ بھی کرنا پڑتی ہے کہ : لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ اَلَّا یَکُوۡنُوۡا مُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۳﴾ (۱) (۱) ’’یہ لوگ واقف ہیں حیاتِ دنیوی کے بھی بس ظاہر سے ہی‘ اور آخرت سے تو پورے غافل ہیں ہی!‘‘ اور: فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ اِنۡ لَّمۡ یُؤۡمِنُوۡا بِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَسَفًا ﴿۶﴾ (الکہف) ’’(اے رسول ) شاید تم اپنے آپ کو غم سے ہلاک کر لو گے ان کے پیچھے‘ اگر وہ اس قرآن پر ایمان نہ لائے!‘‘ اور طٰہٰ ۚ﴿۱﴾مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لِتَشۡقٰۤی ۙ﴿۲﴾ (طٰہٰ) ’’ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے تو نہیں اتارا کہ تم ایسی سخت مشقت میں پڑ جاؤ.‘‘