بات طویل ہو جائے گی. دعوت کے اس ابتدائی مرحلے کے بعد تعذیب و ابتلاء کا جو دور شروع ہوا اور جن صبر آزما اور جاں گسل حالات سے آنحضور اور آپؐ کے رفقائے کرام کو گزرنا پڑا وہ اپنی جگہ ایک مستقل موضوع ہے ‘اور جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا‘ میں اپنی آج کی گفتگو کو ’دعوت الی اللہ‘ کی صرف ابتدائی منزلوں تک محدود رکھنا چاہتا ہوں. البتہ اس گفتگو کو ختم کرنے سے قبل میں آنحضور کا ایک خطبہ آپ کو ضرور سنانا چاہتا ہوں جو یقینا اسی ابتدائی دور کا ہے . اس سے یہ معلوم ہوگا کہ ’دعوت الی اللہ‘ کے اساسی و بنیادی نکات کیا ہیں اور اس میں اوّل اوّل کن امور پر زور دیا جاتا ہے! خطباتِ نبویؐ کی کتابوں میں یہ خطبہ ان الفاظ میں نقل ہوا ہے : 

اِنَّ الرَّائِدَ لَا یَکْذِبُ اَھْلَہٗ، وَاللّٰہِ لَــوْ کَذَبْتُ النَّاسَ جَمِیْعًا مَّا کَذَبْتُـکُمْ، وَلَـوْ غَرَرْتُ النَّاسَ جَمِیْعًا مَا غَرَرْتُـکُمْ 

’’لوگو! تم جانتے ہو کہ رائد (راہ نما)اپنے قافلے والوں کو کبھی دھوکا نہیں دیتا. اللہکی قسم! اگر (بفرضِ محال) میں تمام انسانوں سے جھوٹ کہہ سکتاتب بھی تم سے کبھی نہ کہتا اور اگر تمام انسانوں کو فریب دے سکتا تب بھی تمہیں کبھی نہ دیتا.‘‘ 

وَاللّٰہِ الَّذِیْ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ ھُوَ، اِنِّیْ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ خَاصَّۃً وَّاِلَی النَّاسِ کَافَّۃً 

’’اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں! میں اللہ کا رسول ہوں تمہاری طرف خصوصاً اور 
پوری نوعِ انسانی کی طرف عموماً!‘‘ 

وَاللّٰہِ لَتَمُوْتُنَّ کَمَا تَنَامُوْنَ، ثُمَّ لَتُبْعَثُنَّ کَمَا تَسْتَیْقِظُوْنَ، ثُمَّ لَتُحَاسَبُنَّ بِمَا تَعْمَلُوْنَ، ثُمَّ لَتُجْزَوُنَّ بِالْاِحْسَانِ اِحْسَانًا وَبِالسُّوْئِ سُوْئً، وَاِنَّھَا لَجَنَّۃٌ اَبَدًا اَوْ لَنَارٌ اَبَدًا 

’’اللہ کی قسم! تم سب مر جاؤ گے جیسے (روزانہ) سو جاتے ہو! پھر یقینا اٹھائے جائو گے جیسے (ہر صبح) بیدار ہو جاتے ہو.پھر لازماً تمہارے اعمال کا حساب کتاب ہو گا ‘اور پھر لازماً تمہیں بدلہ ملے گااچھائی کا اچھااور برائی کا برا. اور وہ جنت ہے ہمیشہ کے لیے یا آگ ہے دائمی.‘‘

اپنے اس خطبے میں آنحضور نے نبی کے لیے انتہائی بلیغ مثال ’رائد‘ کی دی ہے. رائد کسی قافلے کا وہ معتمد ترین فرد ہوتا تھا جو سفر کی اگلی منزل کا تعین کرتا تھا اور قافلے سے آگے جا کر معلوم کرتا تھا کہ کس جگہ پڑائو مناسب رہے گا کہ پانی اور چارے کی سہولتیں فراہم ہوں. ظاہر ہے کہ ’رائد‘ کے صدق و امانت پر ہی پورے قافلے کی سلامتی کا دار و مدار تھا اور اس کی ذرا سی غلط بیانی پورے قافلے کی ہلاکت کا سبب بن سکتی تھی. یہی حال ’نبی‘ کا ہوتا ہے کہ وہ قافلہ ٔدنیا کو منزل آخرت کی خبر دیتاہے اور یہاں کی مدہوشی و غفلت پر وہاں کے دردناک انجام سے خبردار کرتا ہے. اس انتہائی بلیغ پیرائے میں ماتو‘جاگو‘ جیسے روزانہ شام ہوتی ہے ایسے ہی تمہاری پوری زندگی کے دن پر بھی ایک شام آئے گی ‘ اور جس طرح تم پر روز نیند طاری ہوجاتی ہے اسی طرح اس شام کو موت تمہیں اپنی آغوش میں لے لے گی. پھر جس طرح تم روزانہ صبح بیدار ہوجاتے ہو اسی طرح ایک دن تمہیں موت کی نیند سے اٹھالیا جائے گا. 
فَذٰلِکَ یَوۡمَئِذٍ یَّوۡمٌ عَسِیۡرٌ ۙ﴿۹﴾عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ غَیۡرُ یَسِیۡرٍ ﴿۱۰﴾ (المدثر)(۱پھر تمہارے زندگی بھر کے اعمال کا حساب ہو گا اور پھر بدلہ مل کر رہے گا‘ بھلائی کا بھلائی (۱) ’’یہ لوگ واقف ہیں حیاتِ دنیوی کے بھی بس ظاہر سے ہی‘ اور آخرت سے تو پورے غافل ہیں ہی!‘ ‘ سے‘ یعنی ہمیشہ کے لیے جنت‘ اور برائی کا برائی سے‘ یعنی ہمیشہ کی آگ. اس سے معلوم ہوا کہ دعوت الی اللہ کے بنیادی اور اساسی نکات تو تین ہی ہیں ‘یعنی توحید‘ رسالت اور معاد‘ لیکن ان میں بھی ابتداء ً اصل زور آخرت کے محاسبے اور جزا و سزا سے خبردار کرنے پر ہونا چاہیے. پورا قرآن مجید اور خصوصاً ابتدائی مکیات اس پر شاہد عادل ہیں. اور دعوت کا جو پہلا حکم آنحضور کو دیا گیا وہ تو اس پر آخری دلیل اور قطعی حجت ہے. ارشاد ہوا : یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾ (المُدَّثِّر) ’’اے کپڑے میں لپٹ کر لیٹنے والے! کھڑا ہو اور خبردارکر!‘‘ اور وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ﴿۲۱۴﴾ۙ (الشعرائ) ’’اورڈرا اپنے قریبی رشتہ داروں کو‘‘.دنیا میں نظامِ دین و شریعت کا نفاذو قیام ’دعوت الی اللہ‘کا ہدف تو یقینا ہے لیکن اسے ہدفِ بعید کہنا چاہیے. اس کا اوّلین ہدف ابنائے نوع کی اخروی فلاح و نجات ہے. چنانچہ ایک مقام پر آنحضور نے فرمایا کہ میری اور تمہاری مثال ایسے ہے جیسے آگ کا ایک بڑا الاؤ ہے اور تم اس میں گر پڑنے کو تیار ہو اور میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر اس میں گرنے سے روک رہا ہوں. پھر ظاہر ہے کہ جس سے جتنی زیادہ محبت ہو اتنا ہی وہ اس دعوت میںمقدم ہو گا. یہی وجہ ہے کہ حضور خاص اپنے گھرانے کے افراد کو لے کر بیٹھتے تھے اور فرماتے تھے: 

… یَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ لَا اُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا، وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا، وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِینِیْ مَا شِئْتِ مِنْ مَالِیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا 
(متفق علیہ) 
’’… اے (میرے چچا) عباس بن عبدالمطلب‘ میں اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں آپ کے کچھ کام نہ آ سکوں گا. اور اے اللہ کے رسول کی پھوپھی صفیہ! میں اللہ کے مقابلے میں آپ کے کچھ کام نہ آ سکوں گا اور اے محمد کی بیٹی فاطمہ! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے مانگ لو (لیکن) میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کام نہ آ سکوں گا.‘‘
ایک روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں: 

یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ فَاِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا 

’’اے فاطمہ ؓ ‘ محمد کی بیٹی‘ خود اپنے آپ کو آگ سے بچانے کی فکر کرو‘ اس لیے کہ اللہ کے یہاں مجھے تمہارے بارے میں کوئی اختیار نہ ہو گا!‘‘

حضرات! یہ ہیں ’دعوت الی اللہ‘ کے اصول و مبادی اور یہ ہے اس کا اسلوب و نہج. مبارک ہیں وہ لوگ جو آج کی اس مجلس سے یہ فیصلہ کر کے اٹھیں کہ ہم ان اصولوں اور اس اسلوب پر ’دعوت الی اللہ‘ کا کام کریں گے اور حضور نبی کریم کی ’سنت ِدعوت‘ کا اتباع کریں گے. میں نے اپنی اس گفتگو کو دعوت کے ابتدائی مراحل تک اس لیے محدود رکھا ہے کہ مجھے یقین ہے اور میں علیٰ وجہ البصیرت جانتا ہوں کہ اگر اس اسلوب پر ’دعوت اِلی اللہ‘ کے چھوٹے 
چھوٹے چراغ اور ننھے ننھے دیے ہمارے شہروں‘ بستیوں اور قصبوں میں روشن ہو گئے تو پھر اس دعوت کے اعلیٰ مقامات اور بلند تر منازل کا سامان بھی فراہم ہو جائے گا.اور نہ صرف یہ کہ ایک ایسی اجتماعی قوت بہم پہنچ جائے گی جو امت محمدی c کے جملہ اخلاقی و روحانی عوارض کا مداوا کرے اور وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾ (آل عمران) (۱کی مصداق بن جائے‘ بلکہ وہ دن بھی دور نہ رہے گا جب یہ امت بحیثیت مجموعی ’دعوت الی اللہ‘‘ کے فریضے کو ادا کرے گی اور کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ (آل عمران:۱۱۰کی صحیح معنیٰ میں مصداق ہوگی اور تمام نوع انسانی پر نبی اکرم کی نبوت و رسالت کی جانب سے اتمامِ حجت کرے گی: لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ (الحج:۷۸(۲. اس کے برعکس اگرترتیب یہ رہے کہ بلند بانگ دعاوی سے کام شروع کیا جائے اور پہلے ہی قدم پر ’عالمی انقلاب‘ کانعرہ لگایا جائے اور نجاتِ اخروی کا بس تبرکاً تذکرہ کر کے قیامِ حکومت الٰہیہ اور نفاذِ نظامِ اسلامی کو اوّلین ہدف بنا کر جدوجہد شروع کی جائے تو بسا اوقات چند ہی قدم چل کر انسان ہار جاتا ہے اور خود اپنی طے کردہ راہ کی کسی ادنیٰ سی چیز کو اپنا’’عبوری نصب العین ‘‘ قرار دے کر بس اُسی کا ہورہتا ہے. 

فنعوذ باللّٰہ من ذٰلک! اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات.وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العٰلمینoo 
(۱) ’’اور چاہیے کہ رہے تم میں ایک جماعت ایسی جو بلاتی رہے نیک کام کی طرف اور حکم دے اچھے کاموں کا اور منع کرے برائی سے . اور وہی پہنچے اپنی مراد کو.‘‘

(۲) ’’تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو.‘‘