عظمت ِ مصطفیﷺ کے قابل ِادراک پہلو

میں نے دو اعتبارات سے آنحضور کی عظمت اور آپؐ کے مقام و مرتبہ کو اپنے بیان کے دائرے سے بلند و بالا‘ برتر‘ اعلیٰ و ارفع اور اس اعتبار سے خارج قرار دیا ہے. البتہ ہماری سمجھ میں حضور کی عظمت کا جو پہلو آ سکتا ہے وہ ہے آپؐ کی عظمت بحیثیت ’’انسان‘‘. لیکن اگر اس کا بھی تجزیہ کریں گے تو بحیثیت انسان بھی آپؐ کی عظمت کے بے شمار پہلو ہیں. مثلاً حضور کی حیثیت اور آپؐ کا مرتبہ و مقام بحیثیت ایک سپہ سالار کیا تھا. بڑے بڑے فوجی جرنیلوں سے پوچھئے کہ محمد ٌرسول اللہ نے مختلف غزوات میں جو جنگی حکمت عملی اختیار فرمائی اس میں آپؐ نے کس مہارت کا ثبوت دیا‘ حالانکہ جنگ ِبدر سے پہلے آپؐ نے کسی جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا. جنگ بدر سے پہلے آپ نے صرف چند مہمات میں شرکت کی‘ باضابطہ جنگ کی نوبت ہی نہیں آئی‘ لیکن دنیا دنگ ہے کہ جنگ کی مہارت اور اس کی حکمت عملی کو مرتب و معین کرنے میں آپؐ نے کس درجے صلاحیت و قابلیت کا ثبوت دیا. پھر کسی سے صلح کرنی ہوتی تو صلح کی گفت و شنید (negotiation) میں آپؐ نے کس مہارت‘ کیسی واقفیت اور کیسی اہلیت کا مظاہرہ فرمایا. صلح حدیبیہ ہو‘ میثاقِ مدینہ ہو‘ یا اس سے بھی پہلے یثرب کے مختلف طبقات کو آپس میں جمع کرنے کے لیے آپؐ نے جو معاہدہ فرمایا‘ ان معاہدات کا مطالعہ کیجیے‘ عقلیں دنگ رہ جائیں گی. 

ایک قاضی القضاۃ کی حیثیت سے آپ کا مقام کیا ہے؟ آج بھی اس دنیا میں ’’قضا‘‘ ( Judiciary) کے سلسلے میں جس قدر اصول اختیار کیے گئے ہیں وہ سب کے سب محمد ٌرسول اللہ کے عطا کردہ ہیں‘ مثلاً کسی بھی مقدمے میں ایک فریق کی بات سن کر فیصلہ نہ کیا جائے جب تک کہ فریق ثانی کو بھی سن نہ لیا جائے. یہ اصول آپؐ کا بیان کردہ ہے. شک کا فائدہ ملزم کو دیا جائے گا‘ الزام لگانے والے کو نہیں. یہ فیصلہ محمد ٌ رسول اللہ کا ہے. اسی طرح یہ اصول آپ ہی نے بنایا ہے کہ سو مجرم چھوٹ جائیں تو کوئی حرج نہیں‘ لیکن کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے. عالمی سطح پر پورا عدالتی نظام انہی اصولوں پر قائم ہے. یہ دوسری بات ہے کہ ہمارے ہاں کرپشن نے بیڑہ غرق کر دیا ہے. ہماری خیانتیں‘ بدعنوانیاں‘ جانبداریاں‘ ہمارا بک جانا اور سیاسی لوگوں کا آلۂ کار بن جانا وغیرہ‘یہ چیزیں ہیں جنہوں نے عدلیہ کا بیڑہ غرق کیا ہوا ہے‘ لیکن جہاں تک اصولوں کا تعلق ہے یہ اصول تو محمد ِعربی کے عطا کردہ ہیں.

اس سے ذرا نیچے اتریئے. حضور کا بحیثیت باپ کردار کیا تھا؟ یہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھئے. حضور کا بحیثیت شوہر کردار کیا تھا اور آپؐ کی کیا عظمت تھی؟یہ حضرت عائشہ‘ حضرت حفصہ‘ حضرت اُمّ سلمہ lسے پوچھئے.پھر یہ کہ ایک داماد ہونے کے اعتبار سے آپؐ کا کیا کردار تھا؟ یہ حضرت عمر و ابوبکر رضی اللہ عنہماسے پوچھئے. گویا جتنے انسانی علائق ہو سکتے ہیں ان کے اعتبار سے آپؐ کی شخصیت کی عظمت اور کردار کی بلندی ہماری سمجھ میں آ سکتی ہے.