رسول اللہﷺ کی طرف سے چھاپہ مار مہموں کا آغاز

حضور نے مدینہ میں ابتدائی چھ مہینے مذکورہ بالا تین کاموں کے لیے صرف کیے اور ساتویں مہینے آپؐ نے چھوٹے چھوٹے چھاپہ مار دستے مکہ کی طرف بھیجنے شروع کر دیے. اب یہ باطل کو چیلنج دینے کا انداز ہے. غزوئہ بدر سے پہلے پہلے آپؐ نے ایسی آٹھ مہمات روانہ کیں. بدقسمتی سے سیرت کی وہ کتابیں جو انگریزی دور میں لکھی گئیں ان کے مؤلفین نے ان واقعات کو اہمیت نہیں دی اور انہیں چھپایا ہے. یہاں تک کہ علامہ شبلی نعمانی نے بھی ان کو نقل نہیں کیا. اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ کہ رسول اللہ کے ان اقدامات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہجرت کے بعد جنگ کا آغاز محمد ٌرسول اللہ کی طرف سے ہوا‘ قریش ِمکہ کی طرف سے نہیں. جبکہ یورپی استعمار کے دور میں ہمارے اوپر یہ تنقید ہوتی تھی کہ اسلام تو تلوار سے پھیلا ہے ؏ 

’’بوئے خون آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے!‘‘

اور یہ تو خونی اور جنونی لوگ ہیں‘ یہ دلیل سے بات نہیں کرتے‘ طاقت سے بات کرتے ہیں. مغرب کی طرف سے چونکہ مسلسل یہ پروپیگنڈا ہو رہا تھا لہٰذا ہمارا انداز معذرت خواہانہ سا ہو گیا تھا کہ ’’نہیں! حضور نے تو جنگ نہیں کی‘ آپؐ نے تو دفاع کیا ہے‘ آغاز تو کفار کی طرف سے ہوا تھا‘‘. یہ بات صد فیصد غلط ہے.اس لیے کہ حضور کو اللہ نے دین کو غالب کرنے کے لیے بھیجا تھا.آپؐ مکہ سے مدینہ وہاں کے نخلستانوں کی 
ٹھنڈی چھاؤں میں آرام کرنے تو نہیں آئے تھے‘ وہ تو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس جدوجہد کے اگلے مرحلے یعنی اقدام کی تیاری کے لیے Base فراہم کیا تھا. آپؐ اگلے مرحلے کا آغاز زیادہ سے زیادہ چھ مہینے مؤخر کر سکتے تھے تاکہ وہاں اپنی پوزیشن کو مستحکم کریں‘ اس سے زیادہ آپ کے لیے ممکن ہی نہیں تھا. لہٰذا آپؐ نے اپنی پوزیشن مستحکم ہوتے ہی اقدام کا آغاز فرما دیا‘ اور یہ سلسلہ آپؐ کی جانب سے شروع ہوا. آپؐ کی آٹھ مہمات غزوۂ بدر سے پہلے ہیں. ان میں چار غزوات ہیں جن میں حضور خود بھی شریک ہوئے اور چار سرایا ہیں جن میں حضور خود شریک نہیں ہوئے.

ان مہمات کا مقصد ایک تو قریش کو چیلنج کرنا اور دوسرے مکہ کی معاشی ناکہ بندی 
(Economic Blockade) تھا ‘کیونکہ اہل مکہ کی معاش کا دار و مدار کلیتاً تجارت پر تھا.ان کے تجارتی قافلے شمالاً جنوباً سفر کرتے تھے. شمال میں شام کی طرف جانے والا قافلہ بدر سے ہو کر گزرتا تھا. بدر مدینہ سے اسّی (۸۰) میل کے فاصلے پر ہے اور مکہ سے دو سو میل کے فاصلے پر. لہٰذا یہ مسلمانوں کی زد میں تھا. ادھر جنوب کی سمت میں جو قافلہ یمن کی طرف جاتا تھا وہ وادی ٔ نخلہ سے ہو کر گزرتا تھا جو مکہ کے جنوب مشرق میں واقع ہے اور مدینہ سے اس کا فاصلہ کم از کم تین سو میل کا ہے. لیکن آپؐ نے وادی ٔ نخلہ میں بھی ایک مہم روانہ فرمائی. ان مہموں کا مقصد قریش کو یہ بتا دینا تھا کہ اب تمہاری لائف لائن ہمارے ہاتھ میں ہے. اس کو جدید اصطلاح میں مکہ کی معاشی ناکہ بندی کہیں گے. ان مہمات سے آپؐ نے جو دوسرا مقصد حاصل فرمایا وہ قریش کو سیاسی طور پر الگ تھلگ کرنا (Political Isolation) تھا. حضور ان چار مہموں کے دوران جن میں آپؐ بنفس نفیس شریک تھے‘ جہاں بھی گئے آپؐ نے علاقائی قبائل سے معاہدے کیے. چنانچہ وہ قبائل جو پہلے قریش کے اتحادی تھے اب یا تو حضور کے اتحادی ہو گئے‘ یا انہوں نے غیر جانبداری کا معاملہ کیا کہ ہم نہ قریش کے خلاف آپؐ کا ساتھ دیں گے اور نہ آپؐ کے خلاف قریش کی مدد کریں گے. لیکن ان دونوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ قریش کے سیاسی اثر و رسوخ کا دائرہ سکڑنے لگا اور محمد کے سیاسی اثر و رسوخ کا دائرہ بتدریج پھیلنے لگا. قرآن مجید میں جو درمیانی دور کی مکی سورتیں ہیں ان میں سے سورۃ الانبیاء میں یہ آیت آئی ہے: 

اَفَلَا یَرَوۡنَ اَنَّا نَاۡتِی الۡاَرۡضَ نَنۡقُصُہَا مِنۡ اَطۡرَافِہَا ؕ 
(آیت ۴۴
’’کیا ان کو نظر نہیں آتا کہ ہم زمین کو مختلف سمتوں سے گھٹاتے چلے آ رہے ہیں؟‘‘

یعنی ہم زمین کو چاروں اطراف سے گھیرتے ہوئے مکہ کی طرف لا رہے ہیں. مکی دور ہی میں ان قبائل میں بھی اسلام پھیلنا شروع ہو گیا تھا. اب گویا اسلام مکہ کی طرف دوسرے قبائل سے پیش رفت کر رہا تھا. اب اس کی صورت یہ بنی کہ حضور نے ان قبائل کے ساتھ معاہدے کر لیے تو حضور کا سیاسی اثر و رسوخ بڑھتا چلا گیا اور قریش کا گھٹتا چلا گیا.