۸ ھ یا ۹ھ میں اندرونِ ملک عرب انقلابِ اسلامی کی تکمیل ہو گئی. البتہ اس کے بعد کا مرحلہ سمجھ لیجیے .کسی بھی سچے انقلاب کے لیے آخری مرحلہ انقلاب کی توسیع اور تصدیر کا ہوتا ہے اور یہ اس کا لٹمس ٹیسٹ (litmus test) ہے. حقیقی انقلاب صرف وہ ہوتا ہے جو کسی جغرافیائی‘ قومی اور ملکی حدود کے اندر محدود نہ رہے‘ بلکہ پھیلتا جائے. اس لیے کہ انقلاب نظریے کی بنیاد پر برپا ہوتا ہے اور نظریہ کو پاسپورٹ درکار ہوتا ہے نہ ویزا. جیسے ہوا اور بادل بغیر کسی رکاوٹ کے ادھر سے ادھر جا رہے ہیں اسی طرح نظریہ بھی جائے گا. نظریہ پھیلے گا تو انقلاب کی توسیع ہو گی. جو انقلاب اپنے آپ کو انقلاب تو کہے لیکن کسی حدود کے اندر محدود رہ جائے وہ حقیقی انقلاب نہیں‘ بلکہ اسے صرف ظاہری طور پر انقلاب کہیں گے . اس کی سب سے بڑی مثال ایران کا انقلاب ہے. اگرچہ یہ ظاہری انقلاب ہے کہ بادشاہت ختم ہوئی اور علماء کی حکومت قائم ہو گئی‘ لیکن یہ حقیقی انقلاب نہیں‘کیونکہ اس کی توسیع نہیں ہو سکی. اس کو پاکستان برآمد کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور یہاں کے اہل تشیع نے ۱۹۷۹ء کے انقلابِ ایران کے بعد جارحانہ انداز اختیار کیا تھا‘ لیکن ان کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی. یا پھر یہ انقلاب سب سے زیادہ آسانی کے ساتھ عراق میں ایکسپورٹ ہو سکتا تھا‘ کیونکہ وہ ملحق بھی ہے اور وہاں کی پچپن فیصد آبادی شیعوں پر مشتمل ہے‘ لیکن وہاں بھی خمینی صاحب سے strategic غلطی ہوئی اور دونوں ملکوں میں تصادم ہو گیا اور صدام حسین نے بڑی ہوشیاری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے عرب اور عجم کی لڑائی کا رنگ دے دیا اور اس طرح گویا عرب نیشنلزم اور ایرانی نیشنلزم مدمقابل آ گئے. بہرحال کسی بھی انقلاب کا صحیح لٹمس ٹیسٹ یہ ہے کہ وہ علاقائی حدود سے باہر نکلتا ہے یا نہیں. انقلابِ فرانس صرف فرانس تک ہی محدود نہیں رہا‘ بلکہ پوری دنیا میں پھیلا اور پوری دنیا میں جمہوریت کا دور آیا. انقلابِ روس لاطینی امریکہ اور کیوبا تک پہنچا ہے. یہی وجہ ہے کہ محمد عربی کے انقلاب کا بین الاقوامی اور عالمی مرحلہ بھی فوراً شروع ہو گیا ‘جس کا آغاز حضور نے خود فرمایا. چنانچہ نہ صرف جزیرہ نمائے عرب تک انقلاب کی تکمیل آپؐنے بنفس نفیس خود فرمائی‘ بلکہ اگلے مرحلے میں انقلابِ محمدی کی توسیع و تصدیر کے بین الاقوامی اور عالمی مرحلے کا آغاز بھی آپؐ نے فرما دیا.

اس ضمن میں تین باتیں نوٹ کیجیے کہ جب تک صلح حدیبیہ نہیں ہو گئی‘ جسے قرآن نے 
اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱﴾ (الفتح) قرار دیا‘ حضور نے بیرونِ عرب نہ کوئی داعی اور مبلغ بھیجا اور نہ ہی کوئی نامہ مبارک روانہ فرمایا‘ بلکہ پوری توجہ عرب کے اندر ہی مرکوز رکھی تاکہ یہاں انقلاب آ جائے. دس برس تک آپؐ نے مکہ سے باہر قدم نہیں نکالا‘ سوائے اس کے کہ عکاظ کا جو میلہ لگتا تھا جس میں آس پاس کے قبائل چلے آتے تھے‘ کبھی کبھار آپؐ وہاں تشریف لے جاتے. آپؐنے پورے دس برس صرف مکہ میں اپنی دعوت پیش کی. اس کے بعد مزید آٹھ برس تک صرف جزیرہ نمائے عرب تک محدود رہے. صلح حدیبیہ کے بعد آپؐ نے صرف نامہ ہائے مبارک بھیجنے شروع کیے. آپؐ نے ہرقل شاہِ روم‘ خسرو پرویز شہنشاہ ایران‘ مقوقس شاہِ مصر اور نجاشی شاہِ حبشہ کو نامہ ہائے مبارک بھیجے. وہ نجاشی اب فوت ہو چکے تھے جو حضور پر ایمان لے آئے تھے. ان کا شمار تابعین میں ہوتا ہے‘ کیونکہ ان کی ملاقات حضور سے نہیں ہو سکی. جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہجرت کر کے حبشہ گئے تھے ان کی صحبت نجاشی رحمہ اللہ علیہ کو حاصل ہوئی تھی.

رسول اللہ کے نامہ ہائے مبارک لے کر جانے والے ایلچیوں میں سے ایک ایلچی کو سلطنت روما کے باج گزاروں نے قتل کر دیا‘ لہٰذا روما سے ٹکراؤ شروع ہوگیا. چنانچہ پہلے غزوۂ موتہ اور پھر غزوۂ تبوک ہوا. آپؐ ‘تیس ہزار کی نفری لے کر تبوک میں بیس دن تک مقیم رہے. شہنشاہِ روم ہرقل چونکہ یہ پہچانتا تھا کہ آپؐ اللہ کے نبی ہیں اس لیے وہ مقابلے میں نہیں آیا‘ حالانکہ وہ لاکھوں کی فوج کے ساتھ شام میں پڑائو کیے ہوئے تھا. بہرحال آپ نے عرب کے باہر انقلاب کی توسیع کا آغاز اپنی حیاتِ طیبہ میں فرما دیا تھا.

پھر خلفاء راشدین کے دور میں اسلامی افواج نے تین اطراف میں پیش قدمی کی ہے. ایک لشکر سیدھا شمال کی سمت بڑھتا ہوا ایشیائے کوچک کی طرف گیا. دوسرا لشکر مشرق کی سمت بڑھا اور عراق سے ہوتے ہوئے ایران‘ ترکستان جو کہ اس زمانے میں بہت بڑا ملک تھا‘ اور خراسان کی طرف پیش قدمی کرتا گیا. جبکہ تیسرا لشکر ذرا سا مغرب کی طرف مڑتے ہوئے شام اور فلسطین سے ہوتا ہوا صحرائے سینا سے گزر کر مصر اور پھر لیبیا 
وغیرہ کو اسلام کا سایۂ رحمت عطا کرتا ہوا بحر اوقیانوس تک پہنچا. اس طرح پہلے تین خلفائے راشدین کے دور میں صرف ربع صدی کے دوران دریائے جیحوں سے بحراوقیانوس تک (From Oxus to Atlantic) اور ادھر شمال میں کوہِ قاف تک‘ اس پورے علاقے میں انقلابِ محمدیؐ برپا ہو گیا اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام قائم ہوگیا. یہ ہے عظمت مصطفی  کے سفر کی داستان جس کے چند خدوخال میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیں.