عظمت ِمصطفیﷺ کا ظہور کامل کب اور کیسے؟

اب آخری نکتہ جو مجھے عرض کرنا ہے وہ یہ کہ حضور کی اس عظمت کا آخری اور کامل ظہور ابھی باقی ہے. قرآن مجید میں تین جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے: 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ٖۙ 
(التوبۃ:۳۳‘ الفتح:۲۸‘ الصف:۹
’’وہی (اللہ) ہے جس نے بھیجا اپنے رسول (محمد ) کو الہدیٰ (یعنی قرآن حکیم) اور دین حق دے کر تاکہ غالب کرے اس (دین حق) کو پورے کے پورے نظامِ زندگی پر.‘‘

اس موضوع پر میری کتاب ’’نبی اکرم کا مقصد ِبعثت‘‘ میں اس آیت مبارکہ پر ۲۴صفحات پر مشتمل مقالہ شامل ہے. مذکورہ بالا آیت کی رو سے بعثت ِمحمدیؐ کا مقصد غلبہ دین ہے‘ جبکہ بعثت ِمحمدیؐ تمام نوعِ انسانی کے لیے ہے. یہ مضمون قرآن مجید میں مختلف الفاظ میں پانچ مرتبہ آیا ہے‘ لیکن اس ضمن میں اہم ترین آیت یہ ہے کہ: 

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا … 
(سبا:۲۸
’’اورہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو (اے محمد ) مگر پوری نوعِ انسانی کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر…‘‘

اس ُصغریٰ کبریٰ کو جوڑ لیجیے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعثت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا مقصد بتمام و کمال صرف اس وقت پورا ہو گا جب کہ کل روئے ارضی پر اور پورے عالم ِ 

انسانیت پر اللہ کا دین غالب ہو گا. ورنہ ؎

وقت ِفرصت ہے کہاں کام ابھی باقی 
ہےنورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے!

احادیث ِنبویؐ میں قیامت سے قبل عالمی غلبہ اسلام کی صریح پیشین گوئی موجود ہے. محمدرسول اللہ نے خبر دی ہے کہ قیامت سے قبل کل روئے ارضی پر نظامِ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گا. ہمیں یقین ہے کہ وہ دور لازماً آئے گا اور اُس وقت اصل میں رسول اللہ کی بعثت کا مقصد بتمام و کمال پورا ہو گا.آج سے چودہ سو سال پہلے خلافت راشدہ کے دور میں اسلامی افواج نے جس طرح تین اطراف میں پیش قدمی کی تھی اس وقت اسلام کا عالمی غلبہ زیادہ دور نظر نہیں آ رہا تھا. شمال کی طرف جانے والی افواج نے ایشیائے کوچک میں جا کر دم لیا تھا اور مشرق و مغرب میں اس تیزی سے فتوحات ہو رہی تھیں کہ ع ’’رکتا نہ تھا کسی سے سیل ِرواں ہمارا!‘‘کوئی طاقت ایسی نہیں تھی جو اس سیل رواں کو روک سکے‘ لیکن اُس وقت اسلامی انقلاب کو اندرونی طور پر سبوتاژ کیا گیا. عبداللہ بن سباء نامی ایک یہودی نے اسلام کا لبادہ اوڑھا اور اندرونی طور پر انتشار و خلفشار پیدا کر کے مسلمان کو مسلمان سے لڑا دیا. اسی خلفشار کے نتیجے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سانحہ پیش آیا اور اس کے بعد چار برس تک مسلمانوں میں خانہ جنگی ہوتی رہی جس میں ایک لاکھ مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں اور نیزوں سے قتل ہوگئے. اسلامی فتوحات کا سلسلہ نہ صرف رک گیا بلکہ رجعت قہقری کا شکار ہو گیا. لیکن اسلام کے عالمی غلبے کا یہ کام ہونا ہے جس کی خبر محمد ٌرسول اللہ نے دی تھی. اور قرائن بتا رہے ہیں کہ وہ وقت اب دُور نہیں ہے. ہمارے شاعر مشرق حکیم الامت علامہ اقبال جو بڑے دور اندیش 
(visionary) تھے‘ جن کا اپنا دعویٰ ہے کہ ع ’’گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دلِ وجود‘‘ انہوں نے دلِ وجود کو چیر کر دیکھ لینے والی نگاہ سے مستقبل کے پردوں کو چیر کر دیکھا ہے کہ کیا کچھ ہونے والا ہے. کیا کیف ہو گا جبکہ جامع مسجد قرطبہ کے باہر بہنے والے دریا کے کنارے علامہ نے اپنا یہ وجدان پیش کیا ؎ 

آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالم ِنو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب!

علامہ اقبال مزید فرماتے ہیں ؎

آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی!
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی!
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو ِحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی!
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے!
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ ٔتوحید سے!!

پس یہ دور تو آ کر رہے گا‘ لیکن یاد رکھیے کہ یہ اب بھی اسی طرح آئے گا جیسے 
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ کی محنت اور قربانیوں سے آیا تھا. وہ لوگ سراسر محروم رہ گئے جو اُس دور میں موجود تھے اور پھر بھی انہوں نے اس جدوجہد میں حصہ نہ لیا. وہ کفر کے دامن سے وابستہ رہے یا انہوں نے نفاق کا لبادہ اوڑھ لیا. وہ لوگ انتہائی بدبخت اور محروم تھے جنہوں نے محمد ٌرسول اللہ کا دورِ سعادت پایا لیکن آپؐ کے دست و بازو نہ بنے. ان کے لیے روحانی ترفع‘ مقاماتِ بلند اور جنت کے اعلیٰ درجات حاصل کرنے کے کس قدر مواقع تھے‘ لیکن وہ لوگ محروم رہ گئے. اور جنہوں نے : مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ (الفتح:۲۹والی روش اختیار کی وہ کامیاب ہو گئے. (ترجمہ آیت :’’اللہ کے رسول محمد اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں کفار پر بہت سخت اور آپس میں رحیم ہیں‘‘. اور جنہوں نے کامیاب تجارت کا راستہ اختیار کیا وہ سرخرو ہو گئے‘ جس کے بارے میں قرآن حکیم میں فرمایا گیا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ (الصف:۱۰

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! میں تمہاری راہنمائی کروں ایسی تجارت کی طرف جو تمہیں دردناک عذاب سے بچا دے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول ( ) پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے.‘‘
یہ سورۂ مبارکہ ان الفاظ پر ختم ہوتی ہے: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ 

’’اے ایمان والو! اللہ کے مددگار بنو!‘‘

اس کے بعد الفاظ آتے ہیں: 

مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ 
(آیت۱۴
’’کون ہیں میرے مددگار اللہ کے راستے میں؟‘‘

تو جان لیجیے کہ اسلام کا عالمی انقلاب پکار رہا ہے اور 
’مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ‘‘ کی آواز ہم اپنے روحانی کانوں سے سن سکتے ہیں. علامہ اقبال نے حق و باطل کی آویزش کے بارے میں کہا تھا ؎

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی!

حق و باطل کی جنگ ختم نہیں ہوئی‘ بلکہ ایک نئی شان اور ایک نئی ہیبت کے ساتھ آنے والی ہے. بقول علامہ اقبال ؎

دنیا کو ہے پھر معرکہ ٔروح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا!
اللہ کو پامردیٔ مؤمن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا!

قرآن کے الفاظ میں 
’’بَاْسٌ شَدِیْدٌ‘‘ اور حدیث نبویؐ کے الفاظ میں ’’اَلْمَلْحَمَۃُ الْعُظْمٰی‘‘ عنقریب آنے والی ہے‘ یہ زیادہ دور نہیں ہے. اس معرکہ ٔ حق و باطل کے لیے ’’کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللّٰہِ‘‘ کی پکار سنائی دے رہی ہے. غزوۂ حنین میں رسول اللہ نے‘پکارا تھا: 

اِلَیَّ یَا عبادَ اللّٰہِ! اِلَیَّ یَا اَصْحَابَ البدر! اِلَیَّ یا اصحابَ الشَّجرۃ 
(۱
’’میری طرف آؤ اے اللہ کے بندو! کہاں جانے والے ہو؟ اے بدر میں ساتھ دینے والو اور حدیبیہ میں بیعت علی الموت کرنے والو! میری طرف آؤ!!‘‘ 

آج بھی یہ پکار بالفعل موجود ہے. کون ہے جو اس پکار پر لبیک کہے؟ جو اپنا تن من دھن اس کے لیے وقف کرنے کو تیار ہو؟ یہ ہے محمد ٌرسول اللہ کے ساتھ ہمارا عملی تعلق. یہ حب رسولؐ کا تقاضا ہے. عید میلاد کی محفلیں اور جلوس نکالنا ُحب ِرسولؐ کا تقاضا نہیں ہے. حب رسولؐ کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے مشن کی تکمیل کے لیے تن من دھن ایک کر دیا جائے. حب رسولؐ کے تقاضے کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سمجھا تھا جنہوں نے اپنا سب کچھ نثار کر دیا. ایک وقت میں گھر میں جھاڑو پھیر کر سارا مال حضور کی خدمت میں پیش کر دیا‘ اور جب ان سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا تھا کہ گھر میں اللہ اور اس کے رسولؐ کا نام چھوڑ آیا ہوں! اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرنے والے تو وہ تھے. محفلیں منعقد کر لینا‘ کھڑے ہو کر سلام پڑھ لینا یا جلوس نکال لینا حب رسول نہیں ہے! حب رسول تو یہ ہے کہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے قیام کی جدوجہد میں جان‘ مال اور وقت کھپا دیا جائے.اس ضمن میں آپ میرے دو کتابچے ’’حب رسولؐ اور اس کے تقاضے‘‘ اور ’’نبی اکرم سے ہمارے تعلق کی بنیادیں‘‘ کا مطالعہ کیجیے‘ ان میں ایک پورا پیغامِ عمل اور دعوتِ عمل موجود ہے. 

اسلام کا عالمی غلبہ اور نظامِ خلافت کا قیام ایک شدنی امر اور ایک اٹل حقیقت ہے‘ 
۱) مسند احمد‘ ح ۱۳۵۶۳ (الفاظ مختلف ہیں). اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں. ہاں فرق صرف اس میں واقع ہو گا کہ کون درجاتِ عالیہ کے حصول کے سنہری موقع سے فائدہ اٹھاتا ہے اور کون اپنے آپ کو محرومین کی فہرست میں رکھتا ہے. اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق دے کہ ہم اس کشاکش خیر و شر اور روح و بدن کے درمیان جو معرکہ درپیش ہے‘ اس کا پھر ایک climax جو آنے والا ہے‘ اس میں حق کے سپاہی اور اللہ کے دین کے خادم بن کر قرآن حکیم کے ان الفاظ کی عملی تصویر بن جائیں: 

اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ 
(الانعام) 
’’بے شک میری نماز‘ میری قربانی‘ میرا جینا اور میرا مرنا اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.‘‘

اس کے لیے عزمِ مصمم اور فیصلہ کریں کہ ہمیں اسی جدوجہد میں اپنے آپ کو ہمہ تن جھونک دینا ہے. 

اَقُوْلُ قَوْلِیْ ھٰذَا وَاَسْتَغْفِرُا اللّٰہَ لِیْ وَلَـکُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِoo