اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم . بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 
وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلًا مِّنۡ قَبۡلِکَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ قَصَصۡنَا عَلَیۡکَ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ لَّمۡ نَقۡصُصۡ عَلَیۡکَ ؕ 
(المُؤمن:۷۸

ازروئے قرآن حکیم صفحۂ ارضی پر قافلۂ انسانیت اور قافلۂ نبوت و رسالت نے ایک ساتھ سفر کا آغاز کیا. یعنی پہلے انسان حضرت آدمںاللہ کے پہلے نبی بھی تھے‘ اور آدمِ ثانی حضرت نوحں پہلے رسول تھے. اس کے بعد قافلۂ آدمیت اور قافلۂ نبوت و رسالت ساتھ ساتھ سفر جاری رکھتے رہے. ایک طرف مادّی ارتقاء کا عمل جاری رہا‘ وسائل و ذرائع میں ترقی ہوتی چلی گئی‘ انسان کے مادی علوم کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا تو ساتھ ساتھ ہدایت ِآسمانی ‘ ہدایت ِربانی بھی ارتقائی مراحل طے کرتی چلی گئی‘ تاآنکہ نبوت اپنے نقطہ عروج کو پہنچ گئی حضرت ابراہیمں کی ذاتِ مبارکہ میں اور بالآخر اختتام کو پہنچ گئی محمد ٌرسول اللہ کی شخصیت مقدس میں‘ اور رسالت اپنے نقطہ عروج کو پہنچی آنحضور کی ذاتِ مبارکہ میں اور پھر آپؐ ہی کی شخصیت میں وہ قیامت تک کے لیے قائم و دائم ہو گئی.

اگرچہ ہم یقین کے ساتھ یہ نہیں جان سکتے کہ اس دنیا میں کل کتنے رسول آئے‘ لیکن بطورِ اصول یہ بات قرآن مجید میں ایک سے زائد مرتبہ واضح کر دی گئی کہ انبیاء و رسل صرف وہی نہیں ہیں جن کا قرآن میں ذکر ہے .چنانچہ آغاز میں سورۃ المؤمن کی جس آیت مبارکہ کے ابتدائی حصے کی تلاوت کی گئی تھی‘ اس کا ترجمہ یہ ہے:

’’(اے محمد !) آپ سے پہلے ہم بہت سے رسول بھیج چکے ہیں‘ جن میں سے وہ بھی ہیں جن کے حالات ہم نے آپ کو بتا دیے اور ایسے بھی بہت سے رسول ہیں کہ جن کے حالات ہم نے آپ کو نہیں بتائے.‘‘

یہی مضمون سورۃ النساء میں بھی بیان ہوا ہے .بعض روایات سے یہ اندازہ ہوتا ہے 

کہ انبیاء کی تعداد سوا لاکھ ہے اور اُن میں سے جو رسول بھی تھے اُن کی تعداد ۳۱۳ ہے.

نبوت و رسالت میں کیا فرق ہے اور اُن کے مابہ الامتیاز امور کون کون سے ہیں ! ان میں محققین کے نزدیک کسی قدر اختلاف پایاجاتا ہے ‘لیکن ایک بات پر اجماع ہے کہ نبوت عام ہے اور رسالت خاص ‘یعنی ہر رسول تو لازماً نبی بھی ہے ‘لیکن ہر نبی لازماً رسول نہیں ہوتا. خالص فنی اصطلاحات اور اُن کے مباحث سے ہٹ کر سادہ الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت ایک ذاتی مرتبہ ہے اور رسالت ایک منصب ہے . جیسے کہ ہمارے ہاں ایک 
cadre ہے سی ایس پی‘ لیکن پھر کسی سی ایس پی کی تقرری (appointment) ہے .وہ کسی ضلع کا ڈپٹی کمشنر یا کسی وزارت میں سیکریٹری کے عہدے پر فائز ہوتا ہے .یہ اُس کا منصب ہے .اسی طرح نبوت ایک ذاتی مرتبہ و مقام ہے اور رسالت ایک منصب ہے. چنانچہ کسی رسول کو فائز کیا جاتا ہے متعین طور پر کسی شہر ‘یا ملک یا قوم کی طرف مبعوث فرما کر. 

قرآن مجید میں بہت سے انبیاء کابھی ذکر ہے اور بہت سے رسولوں کا بھی . ان میں سے چھ رسولوں کا ذکر قرآن مجید بار بار کرتاہے‘اس اعتبار سے کہ جن قوموں کی طرف وہ بھیجے گئے انہوں نے ان کی دعوت قبول کرنے سے انکار کیا اور اس کی پاداش میں اُن پر دنیا ہی میں عذابِ استیصال یعنی جڑکاٹ دینے والا عذاب نازل کیا گیا اور ان کو نیست و نابود کر دیاگیا. بفحوائے آیت قرآنی: 
فَقُطِعَ دَابِرُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ؕ (الانعام:۵۴’’پس جڑ کاٹ دی گئی اُس قوم کی جس نے ظلم کیا‘‘.یعنی رسول کا انکار کرنے والی قوم کی جڑ کاٹ دی گئی ‘اس کو نسیاً منسیاً کردیا گیا ‘جیسے کہ کوڑے کرکٹ کا ڈھیر ہو کہ اس کو آگ لگا کر ختم کر دیا جائے. 

یہ رسول جن کا ذکر سورۃ الاعراف ‘ سورۂ ہود‘ سورۃ الشعراء ‘ سورۃ المؤمنون اور دیگر متعدد سورتوں میں بار بار آیا ہے‘ یہ ہیں حضرت نوح‘ حضرت ہود‘ حضرت صالح‘ حضرت لوط‘ حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ علیہم السلام.اگر ذرا غور کیا جائے تو ان میں بڑی عجیب تقسیم یہ نظر آتی ہے کہ تین رسول حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ ماقبل سے تعلق رکھتے ہیں اور تین 
کو زمانہ مابعد حضرت ابراہیم علیہ السلام سے متعلق قرارد یا جا سکتا ہے . اگرچہ حضرت لوط علیہ السلام ‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہم عصر ہیں‘ لیکن چونکہ ان کے بھتیجے ہیں‘ اُن سے چھوٹے ہیں‘ لہٰذاا س تقسیم میں انہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کے بعد شمار کیا جا سکتا ہے. گویا کہ انبیاء اور رسل کی تاریخ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت ایک مرکزی شخصیت کی حیثیت سے سامنے آتی ہے. اُن کی تین نسبتیں ہیں اور تینوں نہایت بلند ہیں. ایک جانب وہ خلیل اللہ ہیں ‘دوسری طرف وہ ابوالانبیاء ہیں‘ اُن کی نسل سے سینکڑوں انبیاء اور رسول اٹھے یہاں تک کہ ہمارے رسولِ مقبول بھی انہی کی نسل سے ہیں‘ پھر قرآن مجید امامۃ الناس کا منصب بھی اُن کے لیے قرار دیتا ہے. فرمایا گیا: 

وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ؕ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ 
(البقرۃ:۱۲۴
’’اور جس وقت آزمایا ابراہیم کو اس کے رب نے کئی باتوں (آزمائشوں) کے ساتھ ‘پس اس نے ان سب کو پورا کیا. (اللہ نے )فرمایا (اے ابراہیم ؑ) تحقیق میں تم کو سب لوگوں کا امام بنانے والا ہوں.‘‘ 

لہٰذا حضرت ابراہیمں خلیل اللہ ہیں‘ ابوالانبیاء ہیں اور امام الناس ہیں. یہ تینوں نسبتیں نہایت عظیم ہیں. اور واقعہ یہ ہے کہ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ مرتبہ ٔنبوت کے اعتبار سے حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت بلند مقام پر فائز ہیں.
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے تشریف لانے والے جن تین رسولوں کا ذکر قرآن مجید میں بار بار آیا ہے ان کے حالات کو اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے ضمن میں صرف ایک ہی جرم کا ذکر ملتا ہے‘ ان کی قوموں کی ایک ہی گمراہی ہے جس پر انہوں نے نکیر کی ‘جس پرانہوں نے روک ٹوک کی ‘جس سے باز آنے کی انہوں نے دعوت دی اور وہ شرک کا جرم ہے. اس کے علاوہ کوئی اور تمدنی‘ سماجی یا کسی اور طرح کی بے راہ روی کا ذکر نہیں ملتا. معلوم ہوتا ہے کہ قومِ نوح‘ قومِ ہود اور قومِ صالح کے زمانے تک ابھی انسانی تمدن اپنے ابتدائی مراحل 
(stag ) میں تھا ‘جس میں گمراہی بس ایک شرک ہی کی صورت میں موجود تھی. اس کے علاوہ انسانی زندگی اور اس کے متعلقات اور دوسرے پہلو ابھی کسی نہ کسی حد تک فطرت کے قریب تر واقع ہوئے تھے. یہی وجہ ہے کہ حضرت نوح‘ حضرت ہود اور حضرت صالح علیہم السلام کی دعوت میں ایک ہی نکتہ نظر آتا ہے: 

یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ 
(ھود:۸۴
’’اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو (اس کی بندگی اور پرستش میں کسی اور کو شریک نہ ٹھہرائو ‘اس لیے کہ حقیقتاً )اُس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں.‘‘

لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد جن تین رسولوں کا ذکر آتا ہے ان کی قوموںمیں ہمیں نظر آتا ہے کہ تہذیب و تمدن اور انسان کی حیاتِ اجتماعی کے مختلف گوشوں میں گمراہی کی وہ صورتیں ظاہر ہوئیں جو اگرچہ اُسی شجرئہ خبیثہ کے برگ و بار ہیں ‘یعنی شرک ہی کے یہ نتائج اور لوازم ہیں ‘لیکن یہ کہ بالفعل ان کا ظہور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے کے بعدہو رہا ہے. چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں ہمیں جنسی بے راہ روی 
(sexual perversion) 
نظر آتی ہے جو سماج کی جڑوں کو کھوکھلاکر دینے والی چیز ہے.اس لیے کہ انسان کی معاشرت اور اُس کا معاشرتی نظام درحقیقت عورت اور مرد کے تعلقات کے صحیح بنیادوں پر استوارہونے سے ہی برقرار رہ سکتا ہے .

اس کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے بارے میں قرآن جو ذکر کرتا ہے تو اُس میں اُن کے ہاں معاشی بے راہ روی نظر آتی ہے. اس قوم میں ناپ تول میں کمی ہونے لگی‘ دھوکہ فریب شروع ہو گیا‘ لوگوں کے مال ناجائز طور پر ہڑپ کیے جانے لگے‘ راہ زنی ہونے لگی. چنانچہ حضرت شعیب علیہ السلام کی دعوت قرآن مجید میں بیان ہوتی ہے تو اُس میں نہایت نمایاں پہلو یہ ہے کہ لوگو! ایک اللہ کی بندگی اور اُس کی پرستش کرو اور لوگوں کے اموال پر ڈاکہ زنی نہ کرو‘ اُن کے حقوق نہ مارو‘ ناپنے اور تولنے میں کمی نہ کرو. 
وَ یٰقَوۡمِ اَوۡفُوا الۡمِکۡیَالَ وَ الۡمِیۡزَانَ بِالۡقِسۡطِ وَ لَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَہُمۡ …(ھود : ۸۵
’’اور میری قوم کے لوگو! پورا کرو ماپ کو اور تول کو انصاف کے ساتھ ‘اور کمی نہ کرو لوگوں کی چیزوں میں…‘‘ 

اس سے آگے بڑھ کر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰںکو بھیجا جا رہا ہے آلِ فرعون کی طرف. اور یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی جبر واستبداد کی ایک بہت نمایاں مثال سامنے آتی ہے .ایک قوم دوسری قوم پر اس طرح مسلط ہو گئی ہے کہ اُس نے اس کو بالفعل اپنا غلام بنا کر رکھ لیا ہے .اُن سے بالجبر کام لیا جا رہا ہے ‘اُن پر اس درجہ ظلم روا رکھا جا رہا ہے کہ اُن کی اولادِ نرینہ ہلاک کر دی جاتی ہیں اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھ لیا جاتا ہے. یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام سامنے آتے ہیں اور اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں: اَرۡسِلۡ مَعَنَا بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۬ۙ ’’بنی اسرائیل کو ( جسے تم نے جبر اور ظلم کے شکنجے میں کسا ہوا ہے )ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دے دو.‘‘

یہ تین رسول جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد دنیا میں‘ خاص طو رپر دنیا کے اس خطے میں آئے جوکہ عرب کے آس پاس تھا ‘جس کی تاریخ سے اہل عرب واقف تھے جن میں نبی اکرم کی بعثت ہو رہی ہے‘اُن کے حالات میں گویا انسانی اجتماعیت جس جس پہلو سے فساد کا شکا رہو سکتی ہے ان کی نشاندہی کر دی گئی. اس کے بعد ایک اُمت کی تاریخ شروع ہوتی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے . بنی اسرائیل کی حیثیت ایک اُمت مسلمہ کی ہے جو کتابِ الٰہی کی حامل اور شریعت خداوندی کی امین تھی ‘جس نے اللہ کے ساتھ ایک عہد و میثاق کیا تھا. اُس کی تاریخ قرآن مجید بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے.

حضرت موسیٰ ںکے بعد بنی اسرائیل میں پے بہ پے انبیاء آتے رہے اور ایک مصلح کی حیثیت سے اُن میں ایک تجدیدی کارنامہ سرانجام دیتے رہے. جب کبھی اُن کے اندر ایمانی جذبات سرد پڑنے شروع ہوئے یا اُن کے اعمال و اخلاق کے اندر کجی راہ پانے لگی‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت و رسالت نے انہیں سہارا دیا. اس سلسلۂ انبیائِ بنی اسرائیل کے خاتم ہیں حضرت مسیحں‘ اس سلسلے کے آخری رسول‘ جو بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری حجت بن کر سامنے آئے. اور اُن کے بعد چھ سو برس کا عرصہ فترتِ اولیٰ کا زمانہ کہلاتا ہے جو تمہید ہے دراصل ختم ِنبوت اور اتمامِ رسالت کی. یہ چھ سو سال تاریخ ِانسانی میں اس اعتبار سے پہلی مرتبہ ایک وقفہ ہے کہ جس کے دوران پورے کرئہ ارضی پر کوئی رسول اور نبی نہیں تھا. 

حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد اب نبوت ِمحمدی  کا خورشید ہدایت طلوع ہوا‘ جن پر نبوت ختم اور رسالت کی تکمیل ہوئی. اس فترتِ اولیٰ کا عرصہ لگ بھگ ۵۷۱ برس ہے‘ اس لیے کہ آنحضورکی ولادت باسعادت سن عیسوی کے حساب سے ۵۷۱ء میں ہوئی اور آپؐ پر آغازِ وحی ۶۱۰ء میں ہوا. اس طرح یہ چھ سو سال ہیں جن کے دوران یہ فترتِ اولیٰ ہمیں نظرآتی ہے ‘جو تمہید ہے مستقل فترت کی جس میں نبی اکرم پر نبوت اور رسالت کا خاتمہ ہوگیا .یہاں یہ بات جان لینی چاہیے کہ آنحضور پر نبوت صرف ختم ہی نہیں ہوئی بلکہ مکمل بھی ہوئی ہے . واقعہ یہ ہے کہ ختم نبوت پر تو ہمارے ہاں کافی زور ہے‘ اپنی جگہ یہ ایک واقعہ ہے‘ حقیقت ہے اور اس کی ایک قانونی اہمیت بھی ہے‘ جس کی وجہ سے یہ مسئلہ زیادہ نمایاں ہوا ہے ‘لیکن اگر غور کیا جائے تو آنحضور کی فضیلت کی بنیاد ختم ِنبوت نہیں ‘بلکہ تکمیل نبوت و رسالت ہے . ذراوہ آیہ ٔمبارکہ ملاحظہ کیجیے جو سورۃ المائدۃ میں وارد ہوئی ہے: 

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ 
(آیت ۳
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے ‘اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے ‘اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے.‘‘

اس پر یہودیوں نے بجا طو رپر بصد حسرت مسلمانوں سے کہا تھا کہ اے مسلمانو! یہ عظیم آیت جو تمہیں عطا ہوئی ہے اگر کہیں ہم پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے یومِ نزول کو اپنی سالانہ عید بنا لیتے.

یہ ہے وہ مقام کہ جہاں نبی اکرم رسولِ کامل کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں ‘ جن پر رسالت صرف ختم ہی نہیں ہوئی بلکہ مکمل ہو گئی ہے‘ جن پر نبوت کا صرف اختتام ہی نہیں ہوا بلکہ اِتمام ہوا ہے. اس اِتمام نبوت اور اکمالِ رسالت کے مظہر کیا ہیں! ان پر ان شاء اللہ بعد میں گفتگو ہو گی.

فَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ 
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ