اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم . بسم اللہ الرحمن الرحیم 
وَ قُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا ﴿۸۰﴾ 
(بنی اسرائیل) 

’’اور (اے نبی !) دعا کرو کہ اے میرے پروردگار! مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال‘ اور اپنی طرف سے مجھے غلبہ عطا فرما اور اس کو میرا مددگار بنا دے.‘‘

نبوت کے دسویں سال حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہااور ابوطالب کے انتقال کے بعد سردارانِ قریش کے حوصلے بہت بڑھ گئے اور دار الندوہ میں نبی اکرم کے قتل کے مشورے شروع ہو گئے. چنانچہ آنحضور نے فطری طور پر ادھر ادھر دیکھا کہ مکہ کے سوا کوئی اور جگہ کون سی ہو سکتی ہے جسے آپؐ اپنی دعوت کے لیے مرکز اور 
base کی حیثیت سے استعمال کر سکیں.مکہ سے قریب ترین طائف ہے. چنانچہ ایک اُمید لے کر نبی اکرم نے طائف کا سفر اختیار کیا. یہ سفر انتہائی کسمپرسی کے عالم میں ہوا ہے .اس میں حضور کے ساتھ وہ بھی موجود نہیں جو پوری زندگی سائے کی طرح ساتھ رہے‘ یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ. آپ کی رفاقت میں صرف آپؐ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ہیں. پھر عام راستہ چھوڑ کر انتہائی دشوار گزار راستہ اختیار کیا گیا‘ اس لیے کہ اندیشہ تھا کہ کہیں مشرکین ِمکہ سے مڈھ بھیڑ نہ ہو. 

آپ طائف پہنچے اور وہاں کے تین سرداروں سے ملاقات کی‘ اس خیال سے کہ اللہ تعالیٰ اگر ان میں سے کسی کو ایمان لانے کی توفیق عطا فرما دے توکیا عجب کہ طائف کا یہ شہر اس انقلابی دعوت کا مرکز اور 
base بن جائے.لیکن جو صورت ِحال سامنے آتی ہے وہ واقعہ یہ ہے کہ بیان کرتے ہوئے بھی دل شق ہوتا ہے اور سننے کے لیے بھی بڑے جگر کی ضرورت ہے. تینوں نے اس قدر تمسخر آمیز اور تحقیر آمیز انداز اختیار کیا کہ پچھلے پورے دس سال کے دوران محمد ٌرسول اللہ کے ساتھ ایسا معاملہ کبھی پیش نہیں آیا تھا. نقل کفر کفر نہ باشد‘ کسی کہنے والے نے یہ کہا کہ اگر اللہ نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے تو وہ گویا خود کعبے کے پردے چاک کر رہا ہے . کسی نے کہا کہ مَیں تم سے بات بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ‘اس لیے کہ اگر تم سچے ہو اور واقعتا رسول ہو تو ہو سکتا ہے کہ میں کہیں توہین کا مرتکب ہو جائوں اور میں عذابِ خداوندی کا نوالہ بن جاؤں‘ اور اگر تم جھوٹے ہو تو جھوٹے اس قابل نہیں ہوتے کہ انہیں مُنہ لگایا جائے. کسی نے بڑے ہی تمسخر اور تحقیر کے ساتھ کہا کہ کیا اللہ کو تمہارے سوا کوئی اور شخص نبوت و رسالت کے لیے نہیں ملتا تھا؟ اور صرف اسی پر اکتفا نہیں ‘جب حضور بظاہر احوال مایوس ہو کر لوٹنے لگے تو انہوں نے کچھ ’’غنڈوں‘‘ کو اشارہ کر دیا. چنانچہ اوباش لڑکے حضور کے گرد ہو گئے. پھر وہ نقشہ جما ہے اس کرئہ ارضی پر کہ اللہ کے رسول ہیں‘ محبوبِ رب العالمین‘ سید الاولین والآخرین ‘اور آپ کے گرد کچھ اوباش لوگ ہیں جو پتھرائو کر رہے ہیں. تاک تاک کر ٹخنے کی ہڈیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ تالیاں پیٹی جا رہی ہیں‘ حضور کا جسم مبارک لہولہان ہو گیا ہے‘ نعلین مبارک خون سے بھر گئی ہیں. ایک موقع پر حضور ضعف کی وجہ سے ذرا بیٹھ گئے تو دو غنڈے آگے بڑھتے ہیں ‘ایک ایک بغل میں ہاتھ ڈالتا ہے‘ دوسرا دوسری میں اور اٹھا کر کھڑا کر دیتے ہیں کہ چلو. یہ محمد رسول اللہ پر ذاتی اعتبار سے ابتلا اور امتحان کا نقطہ عروج(climax) ہے. چنانچہ حضور جب واپس آئے تو وہ دعا آپؐ کی زبان مبارک سے نکلی ہے جس کو پڑھتے ہوئے کلیجہ شق ہوتا ہے: 

اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْا ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ 
’’اے اللہ!( کہاں جاؤں‘ کہاں فریاد کروں؟ تیری ہی جناب میں فریاد لے کر آیا ہوں.) تجھی سے شکوہ کرتا ہوں اپنی قوت کی کمزوری کا‘ اپنے ذرائع و وسائل 
کی کمی کا اور لوگوں میں جو یہ رسوائی ہو رہی ہے اس کا .‘‘ 

اِلٰی مَنْ تَـکِلُنِیْ؟ اِلٰی بَعِیْدٍ یَجْھَمُنِیْ اَوْ اِلٰی عَدُوٍّ مَلَّـکْتَ اَمْرِیْ؟ 

’’اے اللہ! تو مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کیا تو نے میرا معاملہ دشمنوں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ جو چاہیں میرے ساتھ کر گزریں؟‘‘

لیکن اس کے ساتھ ہی بارگاہِ خداوندی میں وہ عبد کامل عرض کرتا ہے: 

اِنْ لَمْ یَـکُنْ عَلَیَّ غَضَبُکَ فَلَا اُبَالِیْ 

’’(پروردگار! اگر تیری رضا یہی ہے) اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے تو پھر مجھے کوئی پروا نہیں.‘‘

ع سرِتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے! 

اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمٰتُ 

’’پروردگار! میں تو تیرے ہی روئے انور کی ضیاء کی پناہ میں آتا ہوں.‘‘
یہ ہے وہ دعا جس کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ 
ع اجابت از در حق بہر استقبال می آید!

چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ فوراً ملک الجبال حاضر ہوتا ہے‘ وہ فرشتہ کہ جو پہاڑوں پر مامور ہے‘ اور عرض کرتا ہے کہ حضورؐ !‘ اللہ نے مجھے آپؐ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپؐ حکم دیں تو مَیں ان پہاڑوں کو ٹکرا دوں جن کے مابین وادی میں یہ طائف کا شہر واقع ہے‘ تاکہ اس کے رہنے والے پس کر سرمہ بن جائیں. اس پر رحمۃٌ للعالمین ارشاد فرماتے ہیں کہ:’’میں لوگوں کے عذاب کے لیے نہیں بھیجا گیا.اگرچہ یہ لوگ مجھ پر ایمان نہیں لا رہے ‘لیکن کیا عجب کہ ان کی آئندہ نسلوںکو اللہ تعالیٰ ایمان کی توفیق عطا فرمائے‘‘.اور ہمارے لیے یہ بات بڑی قابل توجہ ہے کہ سرزمین پاک و ہند پر اسلام کی ہدایت کا سورج جو پہلی مرتبہ طلوع ہوا تو اس کے لانے والے محمد بن قاسم رحمہ اللہ علیہ تھے جو ثقفی تھے ‘بنو ثقیف کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے‘ جو طائف ہی کا ایک قبیلہ تھا.

بہرحال نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ میں یومِ طائف ایک 
turning point ہے ‘ایک اعتبار سے شدید ترین دن ہے. حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے ایک مرتبہ حضور سے سوال کیا کہ کیا آپؐ پر یومِ اُحد سے زیادہ سخت دن بھی کوئی گزرا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں ‘طائف کا دن مجھ پر اس سے کہیں زیادہ سخت تھا‘‘. لیکن جیسے کہ مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ نے بہت ہی عمدہ نکتہ ارشا د فرمایا ہے کہ یہ دن turning point یحضور کی زندگی میں.آج کے دن تک گویا اللہ نے نبی اکرم کو دشمنوں کے حوالے کیا ہوا تھا کہ جس طرح چاہو آپؐکے صبر کا امتحان لے لو‘ جس طرح چاہو آپؐ کی استقامت کو جانچ لو ‘ہمارے اس نبیؐ کی سیرت و کردار کا لوہا خوب ٹھونک بجاکر دیکھ لو کہ اس میں کہیں کھوٹ تو نہیں‘ تمہیں پوری چھوٹ ہے.

لیکن اس دن کے بعد اب نصرتِ خداوندی کا ظہور شروع ہوتا ہے. فوری طور پر توملک الجبال کی حاضری ہے‘ لیکن اصل ظہور مکہ واپسی کے بعد ہوتا ہے. اب ٹھنڈی ہوائیں آنے لگیں اور ایک راستہ خود بخود رحمت خداوندی سے کھلتا ہے .۱۰ نبوی ہی کے ماہِ رجب میں نبی اکرم کی ملاقات چھ افراد سے ہوتی ہے جو مدینہ سے آئے ہوئے تھے اور یہ چھ اشخاص حضور پر ایمان لے آتے ہیں. منیٰ کی وادیوں میں سے ایک وادی میں یہ ملاقات ہوئی. اگلے سال ۱۱نبوی میں یہ لوگ پھر آتے ہیں اور بارہ افراد حضور کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں. یہ بیعت عقبہ اولیٰ کہلاتی ہے. اور پھر وہ درخواست کرتے ہیں کہ حضورؐ !ہمارے ساتھ کوئی ایسا شخص بھیجئے جو ہمیں قرآن کی تعلیم دے. اس لیے کہ آپ کی دعوت اور آپؐ کی تربیت و تزکیہ کا مرکز و محور قرآن حکیم ہی تھا . چنانچہ :؏ 

قرعہ ٔفال بنام من دیوانہ زدند!
قرعہ ٔفال نکلا حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے نام.حضور انہیں مدینہ منورہ بھیجتے ہیں. وہ حضرت سعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے گھرپر جا کر قیام کرتے ہیں اور مدینہ منورہ میں شب و روز دعوتِ قرآنی کو پھیلا رہے ہیں .
حضرت مصعب بن عمیرؓ اپنی ایک سال کی محنت کا حاصل ۱۲ نبوی میں ۷۵ افراد کو لاکر محمد ٌرسول اللہ کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں‘ جن میں ۷۲ مرد ہیں اور تین عورتیں. 

بیعت عقبہ ثانیہ ہوتی ہے ‘جو تمہید ہے ہجرت کی .اس موقع پر کچھ تقاریر بھی ہوئی ہیں. حضور کے چچا حضرت عباس جو اُس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے‘ انہوں نے انصارِ مدینہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ لوگو! اس بات کو جان لو کہ محمد( ) ہمیں بہت عزیز ہیں‘ہمارے لیے انتہائی محترم ہیں‘ ہماری آنکھوں کا تارا ہیں‘ اب تک ہم نے ان کی پوری حفاظت کی ہے.( چونکہ بنی ہاشم نے نبی اکرم کی حمایت جاری رکھی تھی.) اب اگر تم انہیں اپنے ہاں لے کر جانا چاہتے ہو تو جان لو کہ تمہیں ان کی حفاظت اپنے اہل و عیال سے بڑھ کر کرنی ہو گی. اور اگر اس کی ہمت نہیں پاتے تو ابھی جواب دے دو. لیکن انصارِ مدینہ یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اپنا تن من دھن نچھاور کرنے کے لیے آمادہ ہیں. اگر حضور ہمارے ساتھ مدینہ تشریف لے جائیں تو ہم اُن کی اسی طرح حفاظت کریں گے جیسے کہ اپنے اہل و عیال کی کیا کرتے ہیں. اس وقت وہی حضرت سعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوتے ہیں اور وہ بھی انصارِ مدینہ کو متنبہ کرتے ہیں کہ لوگو! اچھی طرح سمجھ لو‘ ایک بہت بڑی ذمہ داری قبول کررہے ہو. محمد( ) کو دعوت دینا اور ساتھ لے کر جانا سرخ و سیاہ آندھیوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے. معلوم ہوا کہ جو کچھ ہوا وہ اندھیرے میں نہیں ہوا‘ پوری طرح سمجھ کر ہوا‘ پوری حقیقت کو جاننے کے ساتھ ہوا‘ جو ذمہ داری انصارِ مدینہ نے سنبھالی اور اٹھائی اس کو پورے طو رپر سمجھ کر ‘اُس کے نتائج و عواقب پر نگاہ رکھ کر اٹھائی. بہرحال ۱۲ نبوی میں جو بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی یہ ہجرت کی تمہید بن گئی . 
نبی اکرم نے مسلمانوں کو عام اجازت دے دی کہ مدینہ کی طرف ہجرت کرجائیں چنانچہ بہت سے لوگ ہجرت کر گئے . لیکن یہ قاعدہ ہے کہ رسول اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا ‘وہ اپنے مستقر کو نہیں چھوڑ سکتا جب تک کہ اللہ کی طرف سے واضح اجازت نہ آجائے. بالآخر وہ وقت آیا کہ اجازت آ گئی اور نبی اکرم اپنے اُسی انتہائی گہرے دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو یارِ غار اور رفیق راہ ہیں‘ کی معیت میں مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ کی طرف روانہ ہو ئے. زبانِ مبارک پر وہ دعا تھی جو سورۂ بنی اسرائیل 
میں گویا اسی ہجرت کی تمہید کے طور پر آپؐ کو تلقین فرما دی گئی تھی: 
رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا ﴿۸۰﴾ 

’’پروردگار! ُتو مجھے جہاں داخل فرما رہا ہے وہ صدق و صداقت اور راستی کا داخلہ ہو‘اورجہاں سے تو مجھے نکال رہا ہے وہاں سے میرا یہ نکلنا بھی راست بازی اورصدق پر مبنی ہو. اور اے ربّ! مجھے اپنے خاص خزانۂ فضل سے وہ غلبہ اور قوت واقتدار عطا فرما جو اس مشن میں میرا ممد و معاون ہو جو تو نے میرے حوالے کیاہے.‘‘

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہاور آنحضور تین روز تک غارِ ثور میں چھپے رہے . اس دوران وہ مرحلہ بھی آیا کہ کھوجی بالکل غار کے دہانے تک پہنچ گئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہاپنے لیے نہیں نبی اکرم کی طرف سے اندیشہ ناک ہو کر گھبرائے ہوئے یہ عرض کرتے ہیں کہ حضور! اگر ان میں سے کسی نے غیر ارادی طو رپر بھی اپنے قدموں کی طرف بھی نگاہ ڈال لی تو ہم دیکھ لیے جائیں گے‘ ہم پکڑے جائیں گے‘ لیکن وہؐ کوہِ صبر و ثبات و استقامت ( )جس کو اللہ کی ذات پر یقین کامل حاصل تھا‘ معیت خداوندی جس کی قوت کا اصل راز تھی ‘وہ فرماتا ہے : 

لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۚ 
(التوبۃ:۴۰

’’گھبرائو نہیں( کسی رنج و غم کا کوئی موقع نہیں ہے )اللہ ہمارے ساتھ ہے (وہ ہمارا رفیق اور ہمارا مددگار ہے).‘‘
بہرحال یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ ہجرتِ مدینہ کے نتیجے میں محمد رسول اللہ کی انقلابی جدوجہد ایک بالکل نئے دور میں داخل ہو گئی. اگر جدید انقلابی اصطلاحات کو استعمال کیا جائے تو 
passive resistance کا دور ختم ہوا ‘اب ایک active resistance کا دور شروع ہو رہا ہے. اب تک حکم تھا کہ ہاتھ بندھے رکھو‘ ماریں کھاؤ‘لیکن جھیلو‘ صبر کرو اور برداشت کرو ‘ reteliate کرنے کی اجازت نہیں ہے. ان کو حکم دیا گیا تھا: کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْاپنے ہاتھ بندھے رکھو .تمہیں دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیا جائے تو پھر بھی تمہیں اجازت نہیں کہ مدافعت میں بھی اپنے ہاتھ اٹھا سکو. خواہ تمہیں ہلاک کر دیا جائے‘ شہید کر دیا جائے ‘تمہیں اجازت نہیں کہ اپنی مدافعت میں ہاتھ اٹھا سکو. لیکن اب وہ ہاتھ کھول دیے گئے. سورۃ الحج کی یہ آیت مبارکہ اس مرحلہ پر نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے: 

اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُۨ ﴿ۙ۳۹﴾ 

’’اجازت دے دی گئی اُن کو جن پر جنگ ٹھونس دی گئی ہے ‘ اس لیے کہ ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ہیں. (ان کے لیے آج سے اجازت ہے کہ وہ بھی اب اینٹ کا جواب پتھر سے دیں.اُن کے لیے اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید کا وعدہ ہے) اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قادر ہے.‘‘ 

الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ؕ 

’’وہ لوگ جو اپنے گھروں سے ناجائز نکالے گئے صرف اس وجہ سے کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے.‘‘

ان کا جرم اس کے سوا کچھ نہیں کہ انہوں نے خدائے واحد پر ایمان لانے کا اعلان کیا. آج اُن کو اجازت دی جا رہی ہے کہ وہ بھی نہ صرف مدافعت میں ہاتھ اٹھائیں بلکہ کفر کے استیصال کے لیے اقدام کریں. 

بَارَکَ اللّٰہُ لِیْ وَلَکُمْ فِی الْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ
فَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّآلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَoo