(۱۰) انقلابِ نبویؐ کی توسیع خلافت ِفاروقی و عثمانی رضی اللہ عنہما

اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم . بسم اللہ الرحمن الرحیم 
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ… 
(النور:۵۵

’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے ‘اور ان کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے…‘‘

امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ نے بجا طور پر اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ خلافت راشدہ درحقیقت نبوت ِمحمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا تتمہ ّہے‘ اور یہ بات اس لیے بالکل قرین قیاس ہے کہ نبی اکرم کی جو بعثت ِعامہ ہے ‘یعنی آپؐ کی بعثت پوری دنیا کی طرف‘ تمام عالم انسانی کی طرف‘ اُس کے فرائض کی تکمیل خلافت ِراشدہ کے ذریعے ہوئی. چنانچہ نبی اکرم نے جس عمل کا آغاز بنفس نفیس فرما دیا تھا ‘اسے خلفائے راشدینؓ نے پایۂ تکمیل تک پہنچایا. آنحضور نے اپنے دعوتی نامہ ہائے مبارک ارسال فرمائے‘ پھر غزوئہ موتہ‘ پھر سفر تبوک کے مراحل درپیش ہوئے‘ اور پھر جیش ِ اُسامہ کی تیاری اور اس کی روانگی کے انتظام سے جس عمل کا آغاز ہوا اسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہنے اپنے عہد ِخلافت میں آگے بڑھایا. چنانچہ ملک شام میں مسلمانوں کی پیش قدمی آپ ؓ کے دورانِ خلافت بھی کافی حد تک ہو چکی تھی. لیکن واقعہ یہ ہے کہ اسلامی 
فتوحات کا سیلاب جس کو بجا طور پر تعبیر کیا علامہ اقبال نے اس طرح کہ : ؏ 

رکتا نہ تھا کسی سے سیل ِرواں ہمارا!

یہ نقشہ عہد ِخلافت فاروقی اور عہد خلافت عثمانی میں ہمارے سامنے آتا ہے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد ِخلافت کی مدت ُکل دس سال ہے. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارہ سال میں پہلے دس سال کی شان بالکل وہی ہے جو خلافت فاروقی کی تھی. وہی اتحاد‘ وہی یک جہتی‘ وہی ذوقِ جہاد‘ وہی جوشِ عمل‘ وہی شوقِ شہادت جو ہمیں دورِ نبویؐ میں اور عہد صدیقیؓ میں نظر آتا ہے‘ ان بیس سالوں کے دوران یعنی خلافت فاروقی و عثمانی میں بھی بتمام و کمال نظر آرہا ہے. البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے آخری دو سال میں افتراق و انتشار بھی ہوا اور فتنہ و فساد کی شکل بھی سامنے آئی ‘جس کے اسباب پر گفتگو کا یہ موقع و محل نہیں.

بہرحال یہ عمل جو تقریباً ایک رُبع صدی تک نہایت آب و تاب کے ساتھ جاری رہا ہے‘ اس کے بارے میں ایک بات تو یہ جان لینی چاہیے کہ اس کی اصل غرض و غایت کشور کشائی نہ تھی. بقول علامہ اقبال مرحوم ؎

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی!

یہ عام دُنیوی فتوحات‘ یا دوسرے فاتحین کی دنیا میں پیش قدمی سے بالکل ایک مختلف معاملہ ہے. چنانچہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے‘ جو فاتح ایران ہیں‘ ایرانیوں کی جانب سے یہ سوال کیا گیاکہ آپ ہم پر کیوں چڑھ آئے ہیں؟ یہ جنگ کس لیے ہے؟ ہمارے مابین تو کوئی تنازعات بھی نہ تھے. تو حضرت سعدؓ نے وہ جواب دیا جو تاریخ میں آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے اور جوتاقیامِ قیامت روشن و تاباں رہے گا. آپ ؓ نے ایرانیوں کے سوال کے جواب میں کہا: 
اِنَّا قَدْ اُرْسِلْنَا لِنُخْرِجَ النَّاسَ مِنْ ظُلُمَاتِ الْجَھَالَۃِ اِلٰی نُوْرِ الْاِیْمَانِ وَمِنْ جَوْرِ الْمُلُوْکِ اِلٰی عَدْلِ الْاِسْلَامِ ک ہم بھیجے گئے ہیں‘ہم خود نہیں آئے ‘ہم ایک مشن پر ہیں اور وہ مشن یہ ہے کہ ہم نوعِ انسانی کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ایما ن کی روشنی میں لائیں اور بادشاہوں کے ظلم و ستم سے نجات دلا کر اسلام کے عدل سے روشناس کریں. چنانچہ یہ وہی بات ہے کہ اصل مقصد شہادتِ حق تھا. شہادت کے ایک معنی اللہ کی راہ میں گردن کٹوا دینے کے بھی ہیں‘ اور اس طرح گویا یہ ہر مجاہد فی سبیل اللہ کا ایک انفرادی نصب العین ہے. یہ وہ تمنا ہے کہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ خود محمد رسول اللہ کی زبان پر آ رہی ہے. چنانچہ احادیث میں یہ دعائیں منقول ہیں: 

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ شَھَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ 
(۱
’’اے اللہ۱ میں تجھ سے تیرے راستہ میں شہادت کا طلب گار ہوں.‘‘

ا ور 

اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ شَھَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ 
(۲
’’اے اللہ! مجھے اپنے راستہ میں شہادت عطا فرما.‘‘

جبکہ رسول اللہ کی یہ آرزو تو متعدد احادیث میں الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ وارد ہوئی ہے : 

وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ، لَـوَدِدْتُّ اَنِّیْ اُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ اُحْیَا‘ ثُمَّ اُقْتَلُ‘ ثُمَّ اُحْیَا‘ ثُمَّ اُقْتَلُ‘ ثُمَّ اُحْیَا‘ ثُمَّ اُقْتَلُ 
(صحیح البخاری‘ کتاب الجھاد والسیر) 

’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ٔقدرت میں میری جان ہے ! میری آرزو ہے کہ میں اللہ کی راہ میں (جہاد کروں اور) قتل کر دیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر (اللہ کی راہ میں) قتل ہونے کی سعادت سے شاد کام ہوں. اور پھر زندہ کیا جاؤں‘ پھر قتل کیا جاؤں‘ پھر زندہ کیا جاؤں‘ پھر قتل کیا جاؤں!‘‘ 
(۱) دستیاب کتب حدیث میں یہ دعائیہ الفاظ رسول اللہ سے کسی مرفوع روایت میں نہیں مل سکے. تاہم موطا امام مالک میں یہ الفاظ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دعا کے ضمن میں روایت ہوئے ہیں. ملاحظہ ہو موطا امام مالک‘ کتاب الجھاد‘ باب ما تکون فیہ الشھادۃ‘ ح ۱۰۰۶. (مرتب) 
(۲) یہ بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی دعا کے الفاظ ہیں. ملاحظہ ہو 
صحیح البخاری‘ کتاب الحج‘ باب کراھیۃ النبی ان تعری المدینۃ‘ ح ۱۷۹۱. (مرتب) 

یہ بات دوسری ہے کہ اپنے رسولوں کے بارے میں اللہ کی یہ سنت ہے ‘ اس کا یہ اٹل قانون ہے کہ وہ مغلوب نہیں ہو سکتے. ارشادِ الٰہی ہے : کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ ؕ (المجادلۃ:۲۱’’اللہ نے یہ لکھ دیا ہے کہ لازماً میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے.‘‘ اور جو مغلوب نہیں ہو سکتا ظاہر ہے کہ وہ مقتول کیسے ہو سکتا ہے! چونکہ قتل مغلوبیت کی علامت ہے لہٰذا حضور کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی .لیکن لفظ شہید کے ایک دوسرے معنی بھی ہیں جس کی رو سے ہر رسول شہید ہے اور اس شہید کے معنی ہیں گواہ. اسی بات کو سورۃ النساء کی آیت ۴۱ میں واضح کیا گیا کہ عدالت ِاُخروی میں تمام رسول شہید یعنی گواہ بنا کر پیش کیے جائیں گے. فرمایا: 

فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۴۱﴾ 

’’پس سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریں گے جب ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر (اے محمد !) آپ کو گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے.‘‘

یہ شہادت علی الناس کا فریضہ اپنے قول اور اپنے عمل سے دنیا میں حق کی گواہی دیناہے. اور یہی وہ فریضہ ہے جو حضرت محمدرسول اللہ اُمت کے حوالے فرما کر اس دنیا سے تشریف لے گئے تھے. چنانچہ یہ بات سورۃ البقرۃ میں بایں الفاظ وارد ہوئی : 

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ 
(آیت ۱۴۳
’’(اے مسلمانو!) ہم نے اسی طرح تمہیں ایک بہترین اُمت بنایا ہے‘ تاکہ تم گواہی دو پوری نوعِ انسانی پر اور اللہ کے رسول گواہ ہو جائیں تم پر.‘‘

یہ بات سورۃ الحج (آیت ۷۸) میں بھی آتی ہے .وہاں مسلمانوں کو للکارا جا رہا ہے اور ان کو حکم دیا جا رہا ہے کہ: 
وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ… 
’’اور اللہ کی راہ میں محنت اورجدوجہد کرو جیسا کہ اُس کے لیے محنت اور سعی و کوشش کرنے کا حق ہے . اللہ نے تمہیں چن لیا ہے…‘‘

یہ چنائو‘ یہ انتخاب اور یہ ’’اجتباء‘‘ کس مقصد اور کس غایت کے لیے کیا گیا ہے! 

اس کو اسی آیت میں آگے ان الفاظ میں واضح کیا گیا: 

لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ 
’’تاکہ رسول گواہی دے تم پر اور تم گواہی دو پوری نوعِ انسانی پر.‘‘

چنانچہ خلافت راشدہ کے دوران ہمیں وہ نظامِ دین حق‘ وہ نظامِ عدل اجتما
عی انصاف و قسط کے اصول پر بالفعل قائم و نافذ نظر آتا ہے جس کی آج کے انسان کو اصل ضرورت ہے. یہ بات پہلے واضح کی جا چکی ہے کہ جہاں تک انفرادی اخلاقیات کا تعلق ہے سابقہ انبیاء و رسل علیہم السلام کے ہاں بھی وہ اپنے پورے نقطہ عروج پرہیں‘ اگرچہ اس اعتبار سے بھی ایک امتیازی شان ہے سیرتِ محمدی (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کی کہ ہم اُس میں تمام اخلاقی اقدار کو ایک بڑے توازن اور جامعیت کے ساتھ سمویا ہوا پاتے ہیں ‘لیکن نبی اکرم کا اصل احسان‘ آپؐ کی اصل contribution وہ نظام اجتماعی ہے جس میں عدل و قسط ہے‘ انصاف ہے. ظلم سے پاک معاشرہ اور وہ نظام جو حضور نے دیا‘ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی پوری exfoliation ‘اس کی برکات کا بتمام و کمال ظہور‘ گویاlily in bloom نظر آتا ہے دورانِ خلافت راشدہ میں‘ اس لیے کہ حضور کے عہد میں تو ابھی انقلاب کا عمل جاری تھا ‘ابھی انقلاب تکمیل کو پہنچا ہی تھا کہ حضور نے ’’رفیق اعلیٰ‘‘ کی طرف مراجعت فرمائی.

اس نظام کی برکات ظاہر ہوئیں بالخصوص دورِ فاروقی اور دورِ عثمانی میں. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف حریت ہے تو اس کا عالم یہ ہے کہ ایک خاتون بھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے فرماں روا کو ٹوک سکتی ہے. اور ایک خاتون کی تنقید پر حضرت عمرؓ اپنا ایک آرڈیننس واپس لے لیتے ہیں‘ جاری شدہ حکم منسوخ فرما دیتے ہیں. اسی طرح ایک گدڑی پوش ‘ایک درویش بے نوا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ برسر عام عمر رضی اللہ عنہ کوٹوک دیتا ہے اور دورانِ خطبہ کہتا ہے: لَا سَمْعَ وَلَا طَاعَۃَ یعنی نہ سنیں گے اور نہ اطاعت کریں گے.اور جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ دریافت کرتے ہیں کہ معاملہ کیا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک خالص نجی تنقید ہے کہ یہ کرتا جو آپؓ نے پہنا ہوا ہے ‘ ان چادروں سے بنا ہے جو مالِ غنیمت میں آئی تھیں اور ہر مسلمان کو جتنا حصہ ملا تھا اُس سے کرتا نہیں بنتا. اور آپؓ تو ہم میں سے ہیںبھی طویل القامت انسان ‘تو یہ کرتا کیسے بن گیا؟ وقت کے عظیم ترین فرماں روا پر عین مجمع عام میں یہ بالکل ذاتی تنقید ہو رہی ہے. آزادی اور حریت کا یہ عالم ہے ‘اظہارِ رائے کی یہ کیفیت ہے. اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ وضاحت کے لیے اپنے بیٹے کو حکم دیتے ہیں کہ عبداللہ! لوگوں کو اصل صورت حال بتلاؤ .اور جب وہ صراحت فرما دیتے ہیں کہ میں نے اپنے حصے کا کپڑا بھی ابا جان کو دے دیا تھا تاکہ ان کی قمیص مکمل ہو جائے تو اب وہی درویش بے نوا علی الاعلان کہتا ہے: اَلْآنَ نَسْمَعُ وَنُطِیْعُ ’’ہاں اب ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے!‘‘ 

مساوات اگر کوئی قدر ہے ‘اور یقینا ایک اعلیٰ قدر ہے ‘تو اس کا بھی ہمیں یہ منظر نظر آتا ہے کہ وقت کی عظیم ترین مملکت کا فرماں روا عمر فاروق رضی اللہ عنہجس کے نام سے قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہے ‘وہ بیت المقدس کا سفر کر رہا ہے اور کس شان سے! یہ ذاتی سفر نہیں ہے‘ سرکاری فرائض کی ادائیگی کے لیے جا رہے ہیں‘ لیکن ایک اونٹ اور ایک خادم کے ساتھ. اور حال یہ ہے کہ ایک منزل خلیفۃ المسلمین اونٹ کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں اور غلام یا خادم نکیل تھامے آگے چل رہا ہے ‘اور اگلی منزل میں معاملہ بالکل برعکس ہے کہ خادم اونٹ کی سواری کر رہا ہے اور خلیفۃ المسلمین نکیل تھامے ہوئے آگے آگے پیدل چل رہے ہیں اسی طرح عدل اگر حقیقتاً کسی شے کا نام ہے تو یہ بتمام و کمال نظر آئے گا اسی عہد خلافت راشدہ میں کہ مصر کے گورنر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیٹا مصر میں ایک قبطی کو ناحق مارتا ہے ‘اور وہ قبطی حج کے موقع پر فریاد لے کر آتا ہے تو حضرت عمرؓ اس قبطی کے ہاتھ سے گورنر کے بیٹے کو قصاص میں کوڑے لگواتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ذرا ایک دو ضربیں اس کے والد کو بھی لگاؤ‘ اس لیے کہ درحقیقت اس نے اپنے باپ کی گورنری کے زعم ہی میں تم پر یہ ظلم کیا تھا .اوروہ شخص پکار اٹھتا ہے کہ نہیں ‘مجھے میرا بدلہ مل گیا ہے.

حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے زمانے میں قاضی کی عدالت میں پیش ہوتے ہیں 
اور اُن کا دعویٰ صرف اس لیے خارج ہوجاتا ہے کہ ان کے پاس گواہیاں صرف دو تھیں‘ ایک اپنے بیٹے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اور ایک غلام کی‘ اور عدالت فیصلہ کرتی ہے کہ کسی شخص کے حق میں اُس کے بیٹے اور اُس کے ذاتی غلام کی گواہی قبول نہیں ہو سکتی‘ لہٰذا آپ کا دعویٰ خارج ہے.

حریت ہو‘ مساوات ہو‘ عدل و انصاف ہو‘ یہ تمام اقدار کہ جن کی یوں سمجھئے کہ نوعِ انسانی کو شدید ضرورت ہے‘ ان سب کو ایک معتدل نظام کے اندر سموکر اس عدلِ اجتماعی کو بالفعل خلافت راشدہ نے قائم کر کے اور عملاً چلا کردکھا دیا ‘جس کے لیے آج نوعِ انسانی تڑپ رہی ہے. یہ ہے وہ حجت جو خلافت راشدہ کے ذریعے تاقیامِ قیامت نوعِ انسانی کے لیے قائم ہو چکی ہے. 

فَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَo
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَoo