(۱۲) نبی اکرمﷺ سے ہمارے تعلق کی بنیادیں اور نبویؐ مشن کی تکمیل اور ہمارا فرض

اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم . بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 
فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾٪ 
(الاعراف) 
’’پس جو لوگ ایمان لائے اُن (نبی کریم  ) پر اور جنہوں نے ان کی توقیر و تعظیم کی اور جذبہ احترام کے ساتھ انؐ کی مدد و حمایت کی( اُن کے کام اور ان کے مشن میں اُنؐ کے دست و بازو بنے اور انؐ کے فرضِ منصبی کی تکمیل میں اپنی قوتوں‘ صلاحیتوں اور تو انائیوں کو کھپایا )اور جنہوں نے اس نور کا اتباع کیا جو اُنؐ کے ساتھ نازل کیا گیا ہے (یعنی قرآن مجید) تو یہی لوگ ہیں جو (اللہ کے ہاں) فلاح پانے والے (کامیاب و کامران اور شاد کام ہونے والے) قرار پائیں گے.‘‘

اُمت ِمسلمہ اس وقت جس صورت حال سے دوچار ہے اُس کی تفصیل میں جانے کی چنداں احتیاج نہیں ہے. ہر صاحب ِ نظر آگاہ ہے کہ عزت و وقا ر اور سربلندی گویا ہم سے چھین لی گئی ہے .اور اللہ تعالیٰ معاف فرمائے ‘واقعہ یہ ہے کہ جو مغضوب علیہم قوموں کا نقشہ قرآن مجید میں کھینچا گیا ہے ‘ مختلف اعتبارات سے وہی نقشہ آج ہمیں اپنے اوپر منطبق ہوتا نظر آ رہا ہے. افتراق ہے‘ باہمی خانہ جنگیاں ہیں‘ اختلافات ہیں. وحدتِ اُمت جو مطلوب ہے تو اس کا شیرازہ پارہ پارہ ہو چکا ہے. سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کا حل کیا ہے؟ اس کے لیے ہم کس طرف رجوع کریں؟ اس کا جواب اگر 

ایک جملے میں جاننا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ خلوص اور اخلاص کا رشتہ اور وفاداری کا تعلق ازسر نو اللہ سے‘ اس کی کتاب سے ‘اس کے رسول سے استوار کیا جائے اور صحیح بنیادوں پر قائم کیا جائے. حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا: 

اِنَّ الدِّیْنَ النَّصِیْحَۃُ قُلْنَا لِمَنْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ : لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہٖ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِاَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِھِمْ 
(مسلم)
’’دین تو بس خیر خواہی ‘ خلوص و اخلاص اور وفاداری کا نام ہے‘‘ .ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ !کس کی وفاداری ‘کس سے خلوص و اخلاص؟ ارشاد فرمایا: ’’اللہ سے ‘اس کی کتاب سے‘ اس کے رسولؐ سے ‘ مسلمانوں کے رہنماؤں اور قائدین سے اور عامۃ المسلمین سے.‘‘

جہاں تک اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلوص و اخلاص کا تعلق ہے تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے ‘وہ ایک لفظ میں ادا کیا جا سکتا ہے: التزامِ توحید اور شرک سے اجتناب‘ شرک کی ہر نوعیت سے‘ ہر شائبہ سے اپنے آپ کو پاک کر لیا جائے تو یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری ہے. اگرچہ کام آسان نہیں ‘بقول علامہ اقبال مرحوم ؎

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں

جہاں تک قرآن مجید اور نبی اکرم کے ساتھ خلوص و اخلاص کا معاملہ ہے تو یہ درحقیقت دو چیزیں نہیں ‘ایک ہی ہیں. اس لیے کہ قرآن حکیم مصحف ہے‘ قرآن متلو ہے اور آنحضورقرآنِ مجسم ہیں. جیسے کہ فرمایااُمّ المو منین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جب اُن سے فرمائش کی گئی کہ ہمیں حضور کی سیرت بتایئے. آپؓ نے سوال کیا :کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ اور جب جواب اثبات میں آیا تو آپؓ نے فرمایا : 
کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنُ ’’حضور کی سیرت قرآن ہی تو ہے!‘‘

اب ہمیں یہ سوچناچاہیے کہ نبی اکرم کے ساتھ خلوص اور اخلاص کے تقاضے کیا ہیں. آنحضور کے ساتھ ہماری وہ نسبت کیسے قائم ہو سکتی ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے سادہ ترین الفاظ میں تو یوں کہا ہے کہ : ؎

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں!

اور بڑے ُپرشکوہ انداز میں کہا ؎

بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اُوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است

سورۃ الاعراف کی آیت ۱۵۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم سے ہمارے تعلق کی بنیادیں چار ہیں. آیت زیر مطالعہ کا پس منظر بڑا عجیب ہے. حضرت موسٰی علیہ السلام نے جب اپنے اور اپنی قوم کے لیے بارگاہِ خداوندی میں رحمت کا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے جواباً ارشاد فرمایا:میری ایک رحمت تو عام ہے جو تمام مخلوقات کے لیے کھلی ہوئی ہے‘ اور جو میری رحمت خصوصی ہے تو اُسے میں نے مخصوص کر دیا ہے اُن لوگوں کے لیے جو میرے نبی اُمی سے اپنا صحیح تعلق قائم کریں گے. وہ تعلق کیا ہے؟ اس کو ان الفاظِ مبارکہ میں بیان کر دیاگیا: 

فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾٪ 
(الاعراف) 
’’پس جو لوگ اُن پر ایمان لائیں گے ‘ان کی تعظیم کریں گے ‘ان کی نصرت و حمایت کریں گے اور جو نور اُن کے ساتھ نازل کیا گیا ہے (یعنی قرآن) اس کی پیروی کریں 
گے وہ ہوں گے اصل معنی میں کامیاب (اور میری رحمت خصوصی انہی لوگوں کے حصے میں آ ئے گی).‘‘

اس آیۂ مبارکہ کی روشنی میں غور کیا جائے تو حضور کے ساتھ ہمارے تعلق کی چار بنیادیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں.

سب سے پہلی بنیاد ہے تصدیق و ایمان. یہ تصدیق کرنا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں. آپؐ نے جو کچھ فرمایا اپنی طرف سے نہیں ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو وحی فرمایا اُسی کو نوعِ انسانی کے سامنے پیش فرمایا:

وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾ (النجم) 
’’اور ہمارا نبیؐ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا‘ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر کی جاتی ہے.‘‘ 

اب اس ضمن میں یہ جاننا چاہیے کہ اس ایمان اور تصدیق کے دو درجے ہیں‘ ایک اقرارٌ باللسان یعنی زبانی اقرار کا درجہ ہے . اس سے انسان اسلام کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے. وہ قانونی ضرورت پوری ہو جاتی ہے جو اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں شامل ہونے کے لیے لازمی اور ضروری ہے‘ لیکن اصلی ایمان ’’تصدیق ٌبالقلب‘‘ کا نام ہے . جب آنحضور کی رسالت پر ‘آپؐ کی نبوت پر دل میں یقین کی کیفیت پیدا ہو جائے تو یہ ہے ایمانِ مطلوب.اس کے بغیر ہم نبی اکرم کے جو دوسرے حقوق ہیں وہ ادا نہیں کر سکتے. پھر زبانی کلامی تعلق رہے گا ‘جیسے کہ اللہ معاف فرمائے‘ ہماری عظیم اکثریت کا فی الواقع ہے.

دوسرا تعلق ہے تعظیم و محبت. یہ لازمی تقاضا ہے یقین قلبی کا. اگر یہ یقین ہو کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو آپؐ کی عظمت کا ایک نقش قلب پر قائم ہو گا اور آپ کی محبت دل میں جاگزیں ہو گی. جیسے کہ نبی اکرم نے فرمایا: 

لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ 
(صحیح البخاری‘ کتا ب الایمان)
’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا ‘ جب تک کہ میں اُسے محبوب تر نہ ہو جائوں اُس کے اپنے باپ سے ‘اپنے بیٹے سے اور تمام انسانوں سے.‘‘

یعنی اگر ایک مؤمن کے دل میں آنحضور کی محبت اپنے تمام اعزہ و اقارب اور تمام انسانوں سے بڑھ کر جاگزیں ہوئی ہے تو وہ حقیقتاً مؤمن ہے. اس حدیث میں باپ اور بیٹے کے ذکر نے تمام عزیزوں‘ رشتہ داروں‘ قبیلوں اور قوموں کا احاطہ کر لیا ہے. ان الفاظ میں کوئی ابہام نہیں ہے. ایسا نہیں کہ بات واضح نہ ہو‘ بلکہ صاف صاف اور دو ٹوک انداز سے ارشاد ہوا کہ حقیقی ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ حضور ایک بندۂ مؤمن کو دنیا کی تمام چیزوں سے محبوب تر ہو جائیں ؎

ادب گاہیست زیر آسمان از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا

تعظیم ظاہری بھی مطلوب ہے اور قلبی بھی .اسی طرح محبت کا زبانی بھی اظہار ہو اور 
یہ دل میں بھی جاگزیں ہو. اور اس کا سب سے بڑا مظہر ہے حضور پر درود بھیجنا. جس کے بارے میں یہ بھی فرمایا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنی دعا ُکل کی کل حضور پر درود بھیجنے پر مشتمل کر دے تو اس کا مقام اور مرتبہ کہیں زیادہ ہوگا اس سے کہ وہ اللہ سے خود اپنے لیے کوئی سوالات کرتا رہے.

ان پہلی دوبنیادوں کالازمی نتیجہ آنحضور کی اطاعت اور آپؐ کا اتباع ہے. ظاہر بات ہے جب آپ ؐ کو اللہ کا رسول مانا تو اب آپؐ کے حکم سے سرتابی چہ معنی دارد؟ آپؐ کا ہر حکم سر آنکھوں پر ہو گا. اس میں تو البتہ انسان تحقیق کا حق رکھتا ہے کہ واقعتا محمد ٌ رسول اللہ نے یہ حکم دیا ہے یا نہیں‘ لیکن جب طے ہو جائے کہ یہ آپؐ کا فرمان ہے ‘ یہ آپؐ کا حکم ہے تو اب چون و چرا کا کوئی سوال نہیں .اب تو اطاعت کرنی ہو گی. اور اطاعت بھی کیسی! وہ اطاعت جس کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا گیا: 

فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَ یُسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا ﴿۶۵﴾ (النسائ) 
’’پس نہیں ‘آپ کے ربّ کی قسم! یہ لوگ ہرگز مؤمن نہیں ہیں جب تک اپنے نزاعات میں آپ ہی کو حکم نہ مانیں اور جو کچھ آپ فیصلہ فرمائیں اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں ‘بلکہ آپؐکے فیصلے کے آگے دل کی پوری آمادگی اور خوشی کے ساتھ سرتسلیم خم کر دیں.‘‘

یہی بات آنحضور نے فرمائی: 

لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَـکُوْنَ ھَوَاہُ تَـبَعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ 
(رواہ فی شرح السنہ)
’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اس کی خواہش ِنفس اس ہدایت کے تابع نہ ہو جائے جو میں لے کر آیا ہوں.‘‘

جب اطاعت کے ساتھ محبت کی شیرینی شامل ہو جائے تو اس طرزِعمل کا نام ہے’’اتباع‘‘. اس کا دائرہ بہت وسیع ہے. ظاہر ہے کہ اطاعت تو ان احکام کی ہو گی جو حضور نے دیے ہوں. لیکن اتباع ان تمام اعمال و افعال کا ہو گا جن کا صدور و ظہور ہوا نبی اکرم سے چاہے اس کو کرنے کا حکم حضور نے بالفعل نہ دیا ہو. اس 

اتباع کا قرآن مجید میں جو مقام ہے وہ بھی سن لیجیے. سورۂ آل عمران(آیت ۳۱) میں فرمایا: 

قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ 

’’(اے نبی !) ان سے کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میرا اتباع کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطائوں کو ڈھانپ لے گا.‘‘

اس آیت ِکریمہ سے اتباعِ رسول کی یہ اہمیت سامنے آتی ہے کہ اللہ سے محبت کا دعویٰ ہے تو جناب محمد رسول اللہ کا اتباع لازمی و لابد ی ہے. اس اتباع کا ایک نتیجہ تو یہ نکلے گا کہ اللہ ہم سے محبت فرمائے گا اور دوسرا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم اس کی مغفرت و عفو کے مستحق قرار پائیں گے. اس سے زیادہ ایک بندۂ مؤمن کی خوش بختی کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اللہ کا محبوب اور اس کی مغفرت کا سزاوار بن جائے.

آنحضور کے ساتھ ہمارا تیسرا تعلق جسے یوں کہیے کہ یہ عروج ہے حضور کے ساتھ ہمارے تعلق کا ‘وہ ہے آپؐ کی تائید و نصرت. حضور ایک مشن لے کر تشریف لائے تھے‘ آپؐ کا مقصد ِبعثت عالمی سطح پر ہنوز شرمندۂ تکمیل ہے ؎

وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے!

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دورانِ خلافت ِراشدہ اس عمل کو جہاں تک پہنچایا تھا ہم اپنی بے عملیوں کے طفیل وہ اثرات بھی ختم کر چکے ہیں. اب تو از سر نو پیغامِ محمدیؐ کی نشر و اشاعت کرنی ہے. پیغامِ محمدیؐ کو پہنچانا ہے تمام اقوام و ملل ِعالم تک اور از سر نو اللہ کے دین کو فی الواقع قائم ‘نافذ اور غالب کرنا ہے پورے کرئہ ارضی پر. اور اس کے لیے پہلے جہاں بھی اللہ توفیق دے‘ جس خطہ ارضی کی قسمت جاگے کہ وہ اس عہد حاضر میں انقلابِ محمدیؐ کا سب سے پہلا 
base قرار پائے تو اس ملک کی خوش بختی اور خوش نصیبی پر تو واقعتا رشک کیا جانا چاہیے.

یہ ہے وہ فریضہ منصبی جو اُمت کے حوالے کیا گیا ہے. آنحضور کا مشن زندہ و تابندہ ہے. حضور گویا اب بھی پکار رہے ہیں: 

مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ (الصف:۱۴
’’کون ہے میرا مددگار اللہ کی راہ میں؟‘‘

یعنی کون ہے جو میرے پیغام کی نشر و اشاعت کا کام کرے‘ میرے دین کا علمبردار بن کر کھڑا ہو اور پورے کرۂ ارضی پر اس کا جھنڈا سربلند کرنے کے لیے تن من دھن لگانے کے لیے آمادہ ہو جائے!

اسی ضمن میں آخری بات آتی ہے اس آیۂ مبارکہ میں کہ اس عمل کا ذریعہ کیا ہے؟ محمد ٌرسول اللہ نے جو انقلاب برپا کیا تو آلۂ انقلاب تھا قرآن حکیم ؎

اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اِک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

فرمایا: 
ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ (الجمعۃ:۲
’’وہی (اللہ) ہے جس نے اُمیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایاجو انہیں اس کی آیات سناتا ہے‘ ان کی زندگی سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے.‘‘

پس معلوم ہوا کہ آپؐ کی دعوت کا مرکز و محور قرآن حکیم تھا. آپؐ نے لوگوں کی ذہنیتیں بدلیں تو اسی قرآن حکیم سے‘ لوگوں کی سوچ میں انقلاب برپا کیا تو اسی قرآن حکیم سے‘ ذہن کی تطہیر فرمائی تو اسی قرآن کی آیاتِ بینات سے‘تزکیۂ نفس فرمایا تو اسی قرآن کی آیاتِ بینات اُس کا ذریعہ بنیں‘ خارج و باطن سب منور ہوئے تو اسی قرآن حکیم کے نور سے.
وہ کتاب موجود ہے اور آیت زیر مطالعہ میں اسی کے اتباع کا ان الفاظِ مبارکہ میں ذکر ہوا: 

وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ 

’’اور انہوں نے اس نور کا اتباع کیا جو ان (نبی) کے ساتھ اتارا گیا ہے.‘‘

وہ نور جو آپ کے ساتھ نازل کیا گیا وہ نور حضور اُمت کے حوالے کر کے گئے‘ وہ اُمت کے پاس محفوظ ہے. اس کے ساتھ اپنے تعلق کو درست کرنا ہے. یہ 
آنحضور کے ساتھ ہمارے صحیح تعلق کی آخری اور اہم ترین بنیاد ہے. یہ وراثت ِ محمدیؐ ہے .اُس کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم ہے اور اسی کو حبل اللہ قرار دیا گیا ہے: 
وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ 
(آل عمران:۱۰۳

یہی کتاب اللہ امت کے اندر از سر ِنو اتحاد اور یک جہتی پیدا کرے گی‘اسی سے وحدت ِفکر پیدا ہو گی‘ اسی سے وحدتِ عمل پیدا ہو گی‘ اس سے ہماری جدوجہد‘ یک جہتی کے ساتھ اپنے اصل ہدف کی طرف آگے بڑھے گی. اس کتاب کے حقوق کو پہچاننا بھی ہمارے ایمان اور وقت کی ایک عظیم ضرورت ہے‘ جیسے نبی اکرم کے ساتھ اپنے تعلق کی بنیادوں کو پہچاننا ہمارے حقیقی و قلبی ایمان کے لیے ضروری و لابدی ہے. یہی درحقیقت میلاد النبی کا اصل پیغام ہے. یہی اصل لمحہ فکریہ ہے. اس کو از سر نو سمجھیں اور محمد ٌ رسول اللہ اور آپؐ کی لائی ہوئی کتاب مبارک کے ساتھ اپنی نسبت کو پوری درستگی کے ساتھ بتمام و کمال از سر نو استوار کریں . اس کتاب کو مانیں جیسا کہ اس کے ماننے کا حق ہے.اسے پڑھیں جیسا کہ اس کے پڑھنے کا حق ہے. اس کو سمجھیں جیسا کہ اس کو سمجھنے کا حق ہے. اس پر عمل کریں جیسا کہ اس پر عمل کا حق ہے اور پھر اس کے مبلغ‘ داعی اور معلم ّبن جائیں جیسے کہ اس کی تبلیغ‘ دعوت ‘ تعلیم اور تبیین کا حق ہے. 
وَفَّقَنَا اللّٰہُ لِھٰذَا! 

اللہ تعالیٰ ہمیں ان جملہ امور پر عمل کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم نبی اکرم کے مشن کی عالمی سطح پر تکمیل کے لیے راست سمت میں پیش قدمی کر سکیں. اور وہ وقت آئے جس کے بارے میں شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ جب پورے کرئہ ارضی پر اللہ کا دین غالب اور قائم ہو جائے گا جیسے محمد عربی نے اپنے عہد مبارک میں جزیرہ نمائے عرب پر غالب کر دیا تھا ‘تو وہ وقت ہو گا جب یہ آیۂ مبارکہ اپنی پوری شان کے ساتھ ظاہر ہو گی: 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾ 

فَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَسَلَّمَ تَسْلِیْمًا 
وَآخِ رُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ