ایمانیات ِثلاثہ
یہ تو سب جانتے ہیں کہ اسلام کے اساسی معتقدات تین ہیں. یعنی‘ توحید‘ معاد اور‘رسالت یا ایمان باللہ‘ ایمان بالآخرت اور ایمان بالرسالت لیکن عام طورپر اس پہلو پر توجہ نہیں دی جاتی کہ ان تینوں میں گہرا منطقی ربط موجود ہے اور یہ تینوں مل کر ایک ناقابل تقسیم وحدت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں. آیئے ذرا اختصار کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ان تینوں کا اصل حاصل کیا ہے اور ان کے مابین ربط و تعلق کی نوعیت کیا ہے؟
ایمان باللہ
فلسفیانہ موشگافیوں اور متکلمانہ نکتہ طرازیوں سے قطع نظر ایمان باللہ کا اصل حاصل یہ ہے کہ یہ عالم ِوجود اور سلسلہ کون و مکاں جو تاحد ِنظر ہماری نگاہوں کے سامنے پھیلا ہوا ہے‘ نہ ہمیشہ سے ہے نہ ہمیشہ رہے گا ‘بلکہ حادث بھی ہے اور ہالک (۱) و فانی (۲) بھی. البتہ ایک ذات ایسی ہے جس کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا‘ اُسے اللہ کہہ لیا جائے یا الرحمن کوئی فرق واقع نہیں ہوتا (۳) .وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا‘ اور تمام صفاتِ کمال سے بتمام و کمال متصف ہے اور ہر اعتبار سے تنہا اور یکتا ہے ‘نہ کوئی اُس کی ذات میں شریک ہے نہ صفات میں‘ نہ حقوق میں نہ اختیارات میں!(۴)
(۱) کُلُّ شَیۡءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجۡہَہٗ ؕ لَہُ الۡحُکۡمُ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿٪۸۸﴾ (القصص)
(۲) کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ ﴿ۚۖ۲۶﴾وَّ یَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ ﴿ۚ۲۷﴾ (الرحمٰن)
(۳) قُلِ ادۡعُوا اللّٰہَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ ؕ اَیًّامَّا تَدۡعُوۡا فَلَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ۚ (بنی اسراء یل:۱۱۰)
(۴) قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۚ﴿۲﴾لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ۙ﴿۳﴾وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ٪﴿۴﴾ (الاخلاص)(ii)وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا ﴿۱۱۱﴾٪ (بنی اسراء یل) (iii)‘وَّ لَا یُشۡرِکُ فِیۡ حُکۡمِہٖۤ اَحَدًا ﴿۲۶﴾ (الکہف)
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ’’بِالْحَقِّ‘‘ اور ’’اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی‘‘ تخلیق فرمایا ہے اور اس سلسلہ ٔتخلیق کا مرتبہ ٔکمال ہے انسان‘ جسے اس نے اپنی صورت پر تخلیق فرمایا (۱) ‘ پھر اس میں اپنی روح میں سے پھونکا اور اسے اپنی خلافت و نیابت سے سرفراز فرمادیا. گویا اسے ایک اعتبار سے جملہ مراتب ِتنزل ّکا حاصل بھی قرار دیا جا سکتا ہے‘ بقول حضرت بیدلؔ ؒ ؎
ہر دو عالم خاک ُشد تا بست نقش آدمی
اے بہارِ نیستی از قدرِ خود ہشیار باش!
اور ایک دوسرے پہلو سے پورے سلسلہ ارتقاء کا نقطہ ٔعروج بھی!
لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾ثُمَّ رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ۙ﴿۵﴾ (التین)
’’ہم نے پیدا فرمایا انسان کو بہترین ساخت پر. پھر لوٹا دیا اس کو نچلوں میں سب سے نچلا!‘‘ ایمان بالآخرت
ایمان بالآخرت کا حاصل یہ ہے کہ اس انسان کی یہ موجودہ دنیوی زندگی ہی کل زندگی نہیں‘ بلکہ یہ تو اس کی اصل زندگی کا حقیر سا آغاز ہے یا اس کی کتابِ حیات کا مختصر سا دیباچہ اور مقدمہ یا اس کے سفر ِحیات کا محض ایک آزمائشی اور امتحانی وقفہ (۲) .بقول علامہ اقبال مرحوم ؎
تو اسے پیمانہ ٔامروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں ‘ پیہم دواں‘ ہر دم جواں ہے زندگی
قلزمِ ہستی سے تو اُبھرا ہے مانند ِحباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی!
موت فنا یا معدوم ہو جانے کا نام نہیں‘ بلکہ صرف ایک عالم َسے دوسرے عالم کو نقل ِ مکانی کا نام ہے ‘جس کی پہلی اور عارضی منزل ہے عالم برزخ ‘جس کا آغاز موت کے فوراً (۱) خَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ (متفق علیہ‘ عن ابی ھریرۃص) ’’اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر تخلیق فرمایا.‘‘
(۲) خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ (الملک:۲)
’’پیدا کیا سلسلہ موت و حیات تاکہ جانچے تمہیں کہ کون ہے تم میں سے سب سے اچھے عمل کرنے والا.‘‘ بعد ہو جاتا ہے ‘اور دوسری اور مستقل منزل ہے عالم آخرت ‘جس کا آغاز یومِ قیامت سے ہو گا. بعث بعد الموت‘ حشر و نشر‘ حساب و کتاب‘ جزا و سزا اور جنت و دوزخ سب اسی ایمان بالآخرت کی تفاصیل ہیں ‘بقول نبی اکرمﷺ :
وَاللّٰہِ لَتَمُوْتُنَّ کَمَا تَنَامُوْنَ ‘ ثُمَّ لَتُبْعَثُنَّ کَمَا تَسْتَیْقِظُوْنَ ‘ ثُمَّ لَتُحَاسَبُنَّ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ‘ ثُمَّ لَتُجْزَوُنَّ بِالْاِحْسَانِ اِحْسَانًا وَبِالسُّوْئِ سُوْئً ا، وَاِنَّھَا لَجَنَّــۃٌ اَبَدًا اَوْ لَـنَارٌ اَبَدًا (ماخوذ از خطبات نبویؐ بحوالہ نہج البلاغہ)
’’اللہ کی قسم تم سب پر موت طاری ہو کر رہے گی جیسے تم روزانہ رات کو سو جاتے ہو‘ پھر تمہیں لازماً اٹھا لیا جائے گا جیسے تم روزانہ صبح کو بیدار ہوتے ہو. پھر یقیناتم سے حساب لیا جائے گا اس کا جو تم کر رہے ہو. پھر بدلہ مل کر رہے گا بھلائی کا بھلا اور برائی کا برا. اور وہ یا تو جنت ہے ہمیشہ کے لیے یا آگ ہے ہمیشہ کے لیے.‘‘
ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کا باہمی ربط
غورکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت باہم مل کر مبدأ ومعاد یا حیاتِ انسانی کی ابتدا و انتہا کے علم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں. اور ان سے سفرحیات کے آغاز و انجام کا تعین ہو جاتا ہے .بفحوائے الفاظِ قرآنی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَـیْہِ رَاجِعُوْنَ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اُسی کی طرف ہمیں لوٹ جانا ہے!‘‘
واقعہ یہ ہے کہ مبدأ و معاد کے اس علم کے بغیر انسان کی حالت یا تو اُس مسافر کی سی ہے جسے کسی افتاد کے باعث نہ تو یہ یاد رہے کہ اس نے سفر کا آغاز کہاں سے کیا تھا نہ یہ یاد رہے کہ اُس کے سفر کی منزل کون سی ہے . گویا بقولِ فانی ؔ ؎
ہم تو فانی جیتے جی وہ میت ّہیں بے گورو کفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا!
یا بقولِ غالب ؔ ؎
رو میں ہے رخش ِعمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں
اس حال میں انسان بغیر کسی منزلِ مقصود کے تعین کے محض بطن و فرج کے تقاضوں سے مجبور ہو کر گویا پیٹ کے بل گھسٹتے ہوئے زندگی بسر کر دیتا ہے. مطابق تمثیل ِقرآنی : اَفَمَنۡ یَّمۡشِیۡ مُکِبًّا عَلٰی وَجۡہِہٖۤ اَہۡدٰۤی اَمَّنۡ یَّمۡشِیۡ سَوِیًّا عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۲۲﴾ (الملک) ’’بھلا ایک جو چلے اوندھا اپنے منہ کے بل وہ سیدھی راہ پائے یا وہ شخص جو چلے سیدھا ایک سیدھی راہ پر؟‘‘ (ترجمہ شیخ الہندؒ )
یا پھر اُس کی کیفیت اُس پتنگ کی سی ہے جس کی ڈور کٹ چکی ہو اور اب وہ محض ہوا کے رحم و کرم پر ہو کہ جہاں چاہے اسے لے جائے . ازروئے تمثیل ِقرآنی:
فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخۡطَفُہُ الطَّیۡرُ اَوۡ تَہۡوِیۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ مَکَانٍ سَحِیۡقٍ ﴿۳۱﴾ (الحج)
’’تو گویا وہ گر پڑا بلندی سے ‘ پھر اُچک لیتے ہیں اسے ُ(مردار خور) پرندے یا لے جا پھینکتی ہے اسے ہوا کسی دور درا زمقام پر!‘‘ اور اس ؏ ’’نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم!‘‘ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان شکو ک و شبہات کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے‘ گویا لاادریت (agnosticism) اور ارتیابیت (scepticism) کے سوا انسان کے پاس اور کچھ رہ ہی نہیں جاتا ‘جس کی منطقی انتہا یہ ہے کہ وہ خود اپنی ہستی اور وجود کے بارے میں بھی شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جائے ‘ گویا ؏ :
’’رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم!‘‘ (۱)
ایک اہم سوال
یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس کے صحیح جواب ہی پر ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے ساتھ ایمانِ بالرسالت کے صحیح منطقی ربط کے فہم و ادراک کا دار و مدار ہے‘ یعنی یہ کہ انسان سے آخرت میں حساب کس بنیاد پر لیا جائے گا ‘یابالفاظِ دیگر محاسبہ اُخروی کی اساسات کیا ہیں. (۱) شاد ؔعظیم آبادی نے انسان کی اس ذہنی کیفیت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا تھا کہ ؎
سنی حکایت ِہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم!
جسے فانی ؔبدایونی نے اپنی منطقی انتہا تک بایں طور پر پہنچایا کہ ؎
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو وہ بھی کیا معلوم! مطالعہ قرآن حکیم سے اس کا جو جواب سامنے آتا ہے اسے ایک جملے میں تو اس طرح ادا کیا جا سکتا ہے کہ انسان اوّلاً اور اصلاً تو مسئول ہے ان استعداداتِ فطریہ یا لطائف ِاصلیہ کی بنیاد پر جو ہر انسان میں ودیعت کیے گئے ہیں ‘جیسے سمع و بصر‘ عقل و شعور اور تفکر و اعتبار یا لطیفۂ نفس‘ لطیفۂ قلب اور لطیفۂ روح اور ثانیاً اللہ تعالیٰ نے انسان پر ’’اتمامِ حجت‘‘ کا اہتمام کیا ہے بذریعہ اجرائے وحی و انزالِ کتب اور بعثت ِانبیاء ِ و ارسالِ رسل لیکن یہ بات ذرا تفصیل طلب ہے!
لطیفہ ٔنفس
انسان کے متذکرہ بالا لطائف ِثلاثہ میں سے ادنیٰ ترین لطیفہ نفس ہے جس کے اعتبارسے بلاشبہ انسان ایک ترقی یافتہ حیوان ہے اور جو بالکلیہ عالم خلق سے تعلق رکھتا ہے‘ چنانچہ اس کا رجحانِ اصلی عالم اَسفل ہی کی جانب ہے اور اس کی گہرائیوں میں واقعتا ’’اَمَّارَۃٌم بِالسُّوْءِ‘‘ ہی کا طوفان موجزن ہے ‘جس کا ایک پہلو سے مشاہدہ کیا مارکس نے‘ دوسری جانب سے مشاہدہ کیا فرائڈ نے اور تیسری طرف سے مطالعہ کیا ایڈلر نے‘ اور یہی ہے وجودِ انسانی کا وہ جانب ِاَسفل جس کے بار ے میں کچھ حقائق منکشف ہوئے ڈاروِن پر! لطیفہ ٔروح
اور بالکل دوسری انتہا پر ہے لطیفہ روح جس کی نسبت ہے خود ذاتِ باری تعالیٰ کی جانب وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ (الحجر:۲۹ اور صٓ:۷۲) اور جس کا تعلق ہے کلیتاً عالم امر سے قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ (بنی اسراء یل:۸۵) اور جس کا اصل رخ ہے؏ ’’اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن!‘‘ کے مصداق عالم بالا کی جانب‘ چنانچہ اس میں محبت ِالٰہی کا ایک جذبہ اور ’لقائِ ربّ‘ کا ایک داعیہ ایک دھیمی آنچ والی آگ کے مانند تو ہر دم ہی سلگتا ہے ‘بقول علامہ اقبال مرحوم ؎
کبھی اے حقیقت ِمنتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں!
البتہ کبھی کبھی اس میں ایک شعلے کی سی لپک بھی پیدا ہو جاتی ہے ‘جسے بعض اربابِ دانش نے شعلہ ٔملکوتی (Divine Spark) سے تعبیر کیا ہے.
خیر و شر کا داخلی معرکہ
گویا غلط نہیں کہا جس نے بھی کہا کہ ’’انسان عالم اصغر ہے‘‘ اور واقعتا انسان کے باطن میں سب ہی کچھ موجود ہے .چنانچہ بدی کے پست ترین رجحانات بھی ہیں اور نیکی کے اعلیٰ ترین داعیات بھی. اور ان ہی کے مابین ایک شدید کشمکش اور مستقل جنگ جاری ہے انسان کی باطنی شخصیت کے وسیع و عریض میدانِ کارزار میں!
مسئولیت کی اساساتِ اصلیہ
لیکن اس معرکہ خیر و شر میں خالق ِفطرت نے انسان کو بے یارومددگار یا بے تیر و تفنگ نہیں جھونک دیا بلکہ اسے بہت سی استعدادات سے نواز کر اور بہت سی قوتوں سے مسلح کر کے بھیجا ہے‘ چنانچہ اس کی شخصیت کا ادنیٰ ترین پہلو یعنی ’لطیفہ نفس‘ بھی ایک جانب مسلح ہے استعداداتِ سماعت و بصارت اور قوائے تعقل و تفکر ّسے اور دوسری جانب مسلح ہے ایک اَخلاقی حس سے جو تمیز کرتی ہے خیر اور شر میں اور پہچانتی ہے نیکی اور بدی کو. بنا بریں خود گواہ ہے اپنے آپ پر بصورتِ نفس ِلوامہ! بفحوائے آیاتِ قرآنی:
(۱) اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ نَّبۡتَلِیۡہِ فَجَعَلۡنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿۲﴾ (الدھر)
’’ہم نے پیدا کیا انسان کو ملے جلے نطفہ سے تاکہ آزمائیں اسے‘ چنانچہ بنا دیا ہم نے اسے سننے والا‘ دیکھنے والا!‘‘
(۲) وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾ (الشمس)
’’اور (قسم ہے) نفس کی اور جیسا کہ اسے بنایا ٹھیک ٹھیک‘ پھر ودیعت کر دی اس میں سوجھ بدی اور نیکی کی.‘‘
(۳) لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۙ﴿۱﴾وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ ؕ﴿۲﴾ (القیٰمۃ)
’’نہیں! قسم ہے مجھے قیامت کے دن کی اور نہیں ! (بلکہ) قسم کھاتا ہوں میں نفس ملامت گر کی!‘‘
(۴) بَلِ الۡاِنۡسَانُ عَلٰی نَفۡسِہٖ بَصِیۡرَۃٌ ﴿ۙ۱۴﴾وَّ لَوۡ اَلۡقٰی مَعَاذِیۡرَہٗ ﴿ؕ۱۵﴾ (القیٰمۃ)
’’بلکہ انسان خود ہی گواہ ہے اپنے نفس پر ‘ خواہ پڑا بنائے بہانے!‘‘ بنابریں ہر ذی نفس خود اپنی جگہ مسئول ہے اور جزا و سزا کے قابل اور اس کا مستحق ! یہاں تک کہ عدالت ِاُخروی میں ہر نفس کو اپنی جواب دہی خود ہی کرنی ہو گی اور اپنا محاسبہ خود ہی بھگتنا ( face کرنا ) ہو گا. بفحوائے الفاظِ قرآنی:
یَوۡمَ تَاۡتِیۡ کُلُّ نَفۡسٍ تُجَادِلُ عَنۡ نَّفۡسِہَا وَ تُوَفّٰی کُلُّ نَفۡسٍ مَّا عَمِلَتۡ (النحل:۱۱۱)
’’جس دن آئے گا ہر نفس مدافعت کرتے ہوئے اپنی جانب سے. اور پور اپورا صلہ مل جائے گا ہر نفس کو اپنے کیے کا!‘‘
اور نہ کوئی نفس دوسرے نفس کے کام آسکے گا‘ نہ اس کی جانب سے کوئی سفارش یا فدیہ قبول ہو گا‘ نہ اسے کسی طرف سے مدد ہی مل سکے گی. بفحوائے الفاظِ قرآنی:
وَ اتَّقُوۡا یَوۡمًا لَّا تَجۡزِیۡ نَفۡسٌ عَنۡ نَّفۡسٍ شَیۡئًا وَّ لَا یُقۡبَلُ مِنۡہَا شَفَاعَۃٌ وَّ لَا یُؤۡخَذُ مِنۡہَا عَدۡلٌ وَّ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ ﴿۴۸﴾ (البقرۃ)
’’اور ڈرو اُس دن سے جب نہ کام آسکے گا کوئی نفس کسی دوسرے نفس کے کچھ بھی‘ اور نہ قبول کی جائے گی اس کی جانب سے کوئی سفارش‘ اور نہ قبول ہو گا اُس سے کوئی فدیہ اور نہ ہی ان کی کوئی مدد ہو گی.‘‘
لطیفہ قلب
اللہ نے اس پر بھی اکتفا نہیں فرمایا ‘بلکہ انسان میں ایک اور جوہرنایاب ودیعت فرما دیا ‘جس میں معرفت ِربانی کی شمع بھی روشن ہے اور جملہ حقائق ِکونیہ بھی منعکس ہیں. ہماری مراد ہے ’لطیفہ قلب‘ سے جو گویا جامِ جہاں نما ہے یا اس آئینے کے مانند جس میں عالم اکبر کے تمام حقائق کا انعکاس موجود ہے .گویا اگر لطیفہ نفس قوائے سمع و بصر اور تعقل و تفکر ّسے مسلح ہے جو اساس ہیں جملہ علومِ مادی و نظری کی تو لطیفہ قلب مسلح ہے ان قوائے تفہم و تفقہ سے جو وجدانی طور پر ادراک کرتے ہیں لطیف تر حقائق ِکونیہ اور معارفِ لدنیہ ّکا. بقول شاعر : ؎
بینی اندر دل علومِ انبیاء بے کتاب و بے معید و اوستا!
اور ؎صد کتاب و صد ورق در نار کن روئے دل را جانب ِدلدار کن!
اور ؎درکنز و ہدایہ نہ تواں یافت خدارا در آئینہ دل بیں کہ کتابے بہ ازیں نیست!
(۱) (۱) اسے محض شاعرانہ خیال آرائی نہیں سمجھنا چاہیے‘ اس لیے کہ خود کلامِ نبوت میں ’قلب‘ کے لیے اسی قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں ‘مثلاً اس مشہور حدیث میں جس کی رو سے آنحضورﷺنے فرمایاکہ: اِنَّ ھٰذِہِ الْقُلُوْبَ تَصْدَأُ کَمَا یَصْدَأُ الْحَدِیْدُ اِذَا اَصَابَہُ الْمَائُ
’’یہ دل بھی زنگ آلود ہو جاتے ہیں بالکل ایسے جیسے لوہے پر پانی پڑنے سے زنگ آجاتا ہے!‘‘
جس پرصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بالکل صحیح سوال کیا کہ :یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ وَمَا جِلَائُ ھَا ’’اے اللہ کے رسول! پھر انہیں صیقل کیسے کیا جائے؟‘‘جواباً ارشاد ہوا:
کَثْرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ ( رواہ البیھقی فی شعب الایمان)
’’موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کی کثرت کے ساتھ تلاوت!‘‘ الغرض لطیفہ قلب کے ودیعت کیے جانے کے بعد انسان کی مسئولیت پر آخری مہر ِ تصدیق ثبت ہو جاتی ہے ‘بفحوائے الفاظِ قرآنی :
اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡـُٔوۡلًا ﴿۳۶﴾ (بنی اسراء یل)
’’یقینا کان ‘آنکھ اور دل ہر ایک کے بارے میں پرسش ہو کر رہے گی.‘‘
اور وہ لوگ حیوان اور چوپائے ہی نہیں ان سے بھی ارذل و اسفل قرار پاتے ہیں جو اپنی ان فطری استعدادات کو بے کار رکھ چھوڑیں یا قوائے فطریہ کو شل کر لیں‘ بفحوائے آیت ِ قرآنی:
لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ (الاعراف:۱۷۹)
’’ان کے دل ہیں لیکن ان سے سمجھتے نہیں ‘اور آنکھیں ہیں لیکن ان سے دیکھتے نہیں‘ اور کان ہیں پر ان سے سنتے نہیں ‘وہ چوپایوں کے مانند ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے!‘‘
خیر و شر کے خارجی داعیات
خیر و شر کے مابین جو داخلی معرکہ انسان کی شخصیت کے باطنی میدانِ کارزار میں جاری ہے‘ اس کو تقویت پہنچانے والے کچھ داعیاتِ خیر و شر خارج میں بھی موجود ہیں. بقول علامہ اقبال مرحوم ؎
دنیا کو ہے پھر معرکہ ٔروح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردیٔ مؤمن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا!
لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ اصل اور فیصلہ کن اہمیت داخلی کشاکش ہی کی ہے ‘ خارجی داعیات محض تقویت کے موجب ہو سکتے ہیں‘ خواہ وہ خیر کی جانب تشویق و ترغیب پر مشتمل ہوں خواہ شر کی طرف تحریص و تحریض پر. چنانچہ نہ کسی داعی ٔشر حتیٰ کہ ابلیس لعین و شیطانِ رجیم تک کو یہ قوت و اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی انسان کو بالجبر برائی پر مائل کر سکے‘ بفحوائے آیاتِ قرآنی:
(۱) اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ ﴿۴۲﴾ (الحجر)
’’جو میرے بندے ہیں تیر ااُن پر کچھ زور نہیں! سوائے اُس کے جس نے خود ہی تیری پیروی کی بہکے ہوؤں میں سے !‘‘
(۲) اِنَّہٗ لَیۡسَ لَہٗ سُلۡطٰنٌ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ﴿۹۹﴾ (النحل)
’’اسے (ابلیس کو) کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ان پر جو ایمان رکھتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں!‘‘
اور نہ ہی کسی داعی ٔخیر حتیٰ کہ سید الاوّلین والآخرین‘ خاتم النبیین ّو آخر المرسلین ﷺ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ جسے چاہتے ہدایت سے نواز دیتے ‘ ازروئے آیت قرآنی:
اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ (القصص:۵۶)
’’(اے نبیﷺ !) تو راہ پر نہیں لا سکتا جسے چاہے‘ بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے.‘‘
خیر اور شر کے ان خارجی داعیوں میں سے جہاں تک شر کے داعیوں کا تعلق ہے انہیں تو سب جانتے ہیں ‘یعنی ابلیس اور اس کی صلبی و معنوی ذُرّیت ‘انسانوں میں سے بھی اور ِجنوں ّمیں سے بھی! جن کے بارے میں قرآن میں بھی وضاحت ہے :
اِنَّہٗ یَرٰىکُمۡ ہُوَ وَ قَبِیۡلُہٗ مِنۡ حَیۡثُ لَا تَرَوۡنَہُمۡ (الاعراف:۲۷)
’’وہ (ابلیس لعین) دیکھتا ہے تم کو اور اس کے ہم جنس بھی‘ جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھتے!‘‘
اور حدیث ِنبویؐ میں بھی تصریح ہے کہ : اِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ (صحیح البخاری) یعنی شیطان انسان کے وجود میں خون کے مانند سرایت کر جاتا ہے‘ لیکن داعیانِ خیر کے بارے میں یہ حقیقت بہت سے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہے کہ ملائکہ حیاتِ دنیو ی کے دوران اصحابِ خیر اور اہل حق کے لیے تقویت و تثبیت کا ذریعہ بنتے ہیں‘ اور جس طرح شیاطین ِجن و اِنس انسان کے نفسانی داعیات کی تحریک و اشتعال کا سبب بنتے ہیں اسی طرح ملائکہ انسان کی روحِ ملکوتی میں نشاط و اہتزاز کا ذریعہ بنتے ہیں اور معرکہ حق و باطل کے دوران اہل ِحق کے قلبی سکون و اطمینان اور عملی ثبات و استقلال کا سبب بنتے ہیں. بفحوائے آیاتِ قرآنی : ہُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ (الاحزاب:۴۳)
’’وہی (اللہ) ہے جو رحمت بھیجتا ہے تم پر اور اس کے فرشتے بھی‘ تاکہ نکالے تمہیں اندھیروں سے اُجالے میں!‘‘
(۲) اِذۡ یُوۡحِیۡ رَبُّکَ اِلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیۡ مَعَکُمۡ فَثَبِّتُوا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ؕ (الانفال:۱۲)
’’جب وحی (کے ذریعے حکم) فرما رہا تھا تیرا رب فرشتوں کو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں‘ پس دلوں کو جمائے رکھو اہل ایمان کے!‘‘
(۳) اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۳۰﴾نَحۡنُ اَوۡلِیٰٓؤُکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ۚ (حٰمٓ السجدۃ:۳۱)
’’بے شک جن لوگوں نے کہا اللہ ہی ہمارا ربّ ہے‘ پھر اس پر جم گئے‘ ان پر نازل ہوتے ہیں فرشتے کہ نہ خائف ہو نہ غمگین ‘اور خوشخبری حاصل کرو اس جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا. ہم ہیں تمہارے ساتھی اور مددگار دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی!‘‘
اِتمامِ حجت اور قطع ِعذر ُ
اب ہم موضوع زیر بحث کی بحث ِاوّل کے آخر ی نقطے تک پہنچ گئے ہیں جو یہ ہے کہ جس طرح انسان کے اصل داخلی داعیاتِ خیر و شر ہیں اس کے لطائف ِنفس و روح ‘ لیکن اصل حجت داخلی بنتی ہیں استعداداتِ سمع و بصرو تعقل و تفکر ّاور حس ِاخلاقی اور تفقہ قلبی جنہیں انسان کی مسئولیت کی اساساتِ اصلیہ کہا جا سکتا ہے‘ اسی طرح اصل خارجی داعیان خیرو شر تو ہیں علی الترتیب ملائکہ کرام اور ابلیس اور اس کی ذُرّیت ِصلبی و معنوی‘ لیکن اس ضمن میں اتمامِ حجت ہوتا ہے اجرائے وحی‘ تنزیل ِکتب‘ بعثت ِانبیاء اور ارسالِ رُسل سے ‘جن کی حیثیت ہے حجت خارجی کی اور جن کا مجموعی نام ہے ایمان بالرسالت! چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
(۱) رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۶۵﴾ (النسائ)
’’(بھیجے اللہ نے) رسول بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے‘ تاکہ نہ رہے لوگوں کے پاس کوئی عذر و دلیل اللہ کے (محاسبہ کے) مقابلے میں ان رسولوں کے بعد. اور اللہ تو ہے ہی زبردست اور (کمال) حکمت والا!‘‘
(۲) یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ قَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمۡ عَلٰی فَتۡرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا جَآءَنَا مِنۡۢ بَشِیۡرٍ وَّ لَا نَذِیۡرٍ ۫ فَقَدۡ جَآءَکُمۡ بَشِیۡرٌ وَّ نَذِیۡرٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿٪۱۹﴾ (المائدۃ)
’’اے اہل کتاب! تمہارے پاس آ گیا ہے ہمارا رسولؐ جو واضح کر رہا ہے تم پر (ہماری ہدایت) اس کے باوجود کہ (عارضی طور پر) منقطع ہو چکا تھا سلسلہ رسالت‘ مبادا تم کہو کہ نہیں آیا ہمارے پاس کوئی بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا‘ تو اب آ گیا ہے تمہارے پاس بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا. اور اللہ کو تو ہر چیز پر قدر ت حاصل ہے ہی!‘‘
گویا بعثت ِانبیاء اور ارسالِ رسل کی اصل غرض و غایت ہے اتمامِ حجت اور قطع عذر تاکہ انسان پر اللہ کی جانب سے آخری حجت قائم ہو جائے اور اس کے پاس اپنی غلط روی یا کج عملی کے لیے کوئی عذر اور بہانہ باقی نہ رہ جائے.
یہاں اس حقیقت کو پھر ذہن میں تازہ کر لیا جائے کہ جس طرح خیر و شر کے دوسرے خارجی داعیات کو انسان پر کوئی اختیار و اقتدار حاصل نہیں بلکہ ان کی حیثیت محض ترغیب و تحریص اور تحریک و تشویق کی ہے اسی طرح نبوت و رسالت کی اصل نوعیت بھی دعوت و تبلیغ کی ہے. یہی وجہ ہے کہ انبیاء و رسل کے لیے قرآن مجید میں سب سے زیادہ کثیر الاستعمال اصطلاح ّمبشرین و ُمنذرِین ہی کی ہے. جیسے وَ مَا نُرۡسِلُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِلَّا مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۚ (الکہف:۵۶) اور وحی و کتاب کے لیے سب سے زیادہ کثیر الاستعمال اصطلاح ّمبشرین و ُمنذرِین ہی کی ہے. جیسے وَ مَا نُرۡسِلُ الۡمُرۡسَلِیۡنَ اِلَّا مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۚ (الکہف:۵۶) اور وحی و کتاب کے لیے سب سے زیادہ کثیر الاستعمال الفاظ‘ ذِکر‘ ذِکرٰی اور تذکرۃ کے ہیں. جیسے:
(۱) اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ (الحجر)
’’یقینا ہم ہی نے اتارا ہے یہ ’ذکر‘ (یعنی قرآن مجید) اور ہم ہی ہیں اس کے محافظ و نگہبان!‘‘
(۲) طٰہٰ ۚ﴿۱﴾مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لِتَشۡقٰۤی ۙ﴿۲﴾اِلَّا تَذۡکِرَۃً لِّمَنۡ یَّخۡشٰی ۙ﴿۳﴾ (طٰہٰ)
’’(اے نبیﷺ !) ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے تو نہیں اتارا کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ بلکہ (اتارا اسے) صرف یاددہانی کے طور پر ان کے لیے جو ڈرتے ہوں!‘‘
(۳) کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ ﴿ۚ۱۱﴾ (عبس)
’’نہیں! یہ ایک یاد دہانی ہے.‘‘
(۴) تَبۡصِرَۃً وَّ ذِکۡرٰی لِکُلِّ عَبۡدٍ مُّنِیۡبٍ ﴿۸﴾ (قٓ)
’’سجھانے اور یاد دلانے کو‘ اُس بندے کے لیے جو رجوع کرے!‘‘
(۵) اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَذِکۡرٰی لِمَنۡ کَانَ لَہٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَی السَّمۡعَ وَ ہُوَ شَہِیۡدٌ ﴿۳۷﴾ (قٓ)
’’اس میں یاد دہانی ہے اس کے لیے جس کے پاس ہو دل (زندہ و بیدار) یا کان لگا کر سنے پوری توجہ کے ساتھ!‘‘
(۶) فَذَکِّرۡ ۟ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُذَکِّرٌ ﴿ؕ۲۱﴾لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ ﴿ۙ۲۲﴾ (الغاشیۃ)
’’تو (اے نبیﷺ !) تم یاد دہانی کرائے جاؤ‘ تمہارا کام تو بس یاد دہانی کرانا ہی ہے. ان پر داروغہ توہو نہیں (کہ ضرور ہدایت پر لے آؤ!)‘‘
اور ان سب کا مجموعی حاصل یہ ہے کہ انسان پر ایک خارجی گواہی اور شہادت قائم ہو جاتی ہے. چنانچہ کارِ رسالت کی تعبیر کے لیے سب سے زیادہ جامع اصطلاح ’شہادت‘ کی ہے اور فریضہ رسالت کا اصل حاصل شہادت علی الناس ہی ہے ‘اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘ بفحوائے آیاتِ قرآنی :
(۱) اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا ﴿ؕ۱۵﴾ (المزمل)
’’ہم نے بھیج دیا ہے تمہارے پاس ایک رسول گواہ بنا کر تم پر جیسے کہ ہم نے بھیجا تھا ایک رسول فرعون کی جانب!‘‘ (۲) لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ (الحج:۷۸)
’’تاکہ ہو جائیں رسولؐ گواہ تم پر‘ اور ہو جاؤ تم گواہ پوری نوعِ انسانی پر!‘‘
(۳) فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۴۱﴾ (النسائ)
’’تو کیا ہو گا اس وقت جبکہ ہم بلائیں گے ہر گروہ میں سے ایک گواہ‘ اور بلائیں گے آپ کو (اے نبیﷺ !) بطورِ گواہ ان کے خلاف!‘‘
حاصل ِکلام یہ ہے کہ بعثت ِانبیاء کی غرضِ اصلی اور ارسالِ رسل کا مقصد ِعمومی ہے انسانوں پر اتمامِ حجت اور قطع ِعذر بذریعہ تبلیغ ودعوت‘ تلقین و نصیحت‘ وعظ و تذکیر اور اِنذار و تبشیر‘ جن کا مجموعی حاصل ہے ’’شہادت علی الناس!‘‘
چنانچہ یہی ہے نبی اکرمﷺ کی بعثت کا اوّلین مقصد.
بفحوائے آیت ِقرآنی: یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿ۙ۴۵﴾وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا ﴿۴۶﴾ (الاحزاب)
’’اے نبی(ﷺ )! ہم ہی نے بھیجا ہے تمہیں بنا کر گواہ اور بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا اور بلانے والا اللہ کی طرف اس کے حکم سے اور روشن چراغ (ہدایت).‘‘
گویا معلم ّو مبلغ‘ مربی و مزکی ‘ مبشر و ُمنذ ِر اور داعی و شاہد کی جملہ حیثیتیں مشترک ہیں آنحضورﷺ اور جملہ انبیاء و رُسل f میں‘ اگرچہ ان اعتبارات سے بھی ع؏ ’’ہرگلے ُرا رنگ و بوئے دیگر است!‘‘کے مصداق ہر نبی اور ہر رسول کا اپنا ایک منفرد رنگ بھی ہے ‘اور اس گلدستے میں بھی ایک امتیازی شان اور بلند و بالا مقام ہے سید الاوّلین والآخرینﷺ کا! تاہم بحیثیت ِخاتم النبیین ّوآخر المرسلین جن پر نبوت و رسالت کا اختتام ہی نہیں اِتمام و اِکمال بھی ہوا ہے. آپؐ کے مقصد ِبعثت کی امتیازی شان کچھ اور ہی ہے ‘جس کا بیان آگے آئے گا!