اب ایک قدم اور آگے بڑھایئے اور لِیُظْھِرَہٗ پر غور فرمایئے.تو بحمد اللہ یہاں ’اظہار‘ کے معنی تو متفق علیہ ہیں یعنی ’غالب کر دینا (۱‘البتہ یہاں فعل اظہار کے فاعل و مفعول دونوں کے بارے میں ایک سے زائد آراء موجود ہیں ‘اگرچہ ان سے مراد و معنی میں کوئی حقیقی وواقعی فرق واقع نہیں ہوتا. چنانچہ ایک رائے یہ ہے کہ یہاں فعل اظہار کا فاعل بھی وہی ہے جو فعل ارسال کا ہے ‘یعنی اللہ تعالیٰ‘ اور دوسریرائے یہ ہے کہ ’لِیُظْھِرَہٗ‘ میں ضمیر فاعلی رسول کی جانب راجع ہے. اس معاملے میں اس اصول سے قطع نظر کہ ضمیر کا مرجع اگر قریب ہو تو دور جانا صحیح نہیں اِلا آنکہ کوئی خاص قرینہ موجود ہو‘ سوال یہ ہے کہ اس سے فرق کیا واقع ہوتا ہے؟ ہمارا ایمان ہے کہ فاعل حقیقی تو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں اس کے باوجود عالم واقعہ میں قرآن حکیم کے جملہ اوامر و نواہی کے مخاطب انسان ہی ہیں اور انہی کو دین کے تمام مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کرنا لازم ہے. چنانچہ اظہارِ دین حق کے لیے عالم ِواقعہ میں بالفعل سعی و جہد اور شدید محنت و مشقت آنحضور ہی نے کی اگرچہ فاعل ِحقیقی تو ہر آن اللہ ہی ہے ‘ بفحوائے آیت ِقرآنی: 

فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡہُمۡ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمۡ ۪ وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ۚ 
(الانفال:۱۷
’’تو انہیں (کفار قریش کو) تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے کیا اور (اے نبی !)
 (۱’ظہر‘ کہتے ہیں پیٹھ کو اور ’ظاہر‘ استعارۃً غالب کے معنی میں بھی مستعمل ہے ‘جیسے قرآن مجید میں سورۃ الصف کے آخر میں ہے: فَاَصْبَحُوْا ظَاھِرِیْنَ (پس وہی ہوئے غالب!) اس لیے کہ جو کسی کی پیٹھ پر سوار ہو وہ یقینا اس پر قابویافتہ ہے اور غلبہ رکھتا ہے‘ اور عیاں کے معنی میں بھی اس لیے کہ راکب مرکب کی نسبت لازماً نمایاں ترہوتا ہے! ’اظہار‘ ب ابِ افعال سے مصدر ہے اور اس میں فعل متعدی کا مفہوم پیدا ہو گیا ہے ‘یعنی ظاہر کر دینا یا غالب کر دینا.جب آپ نے ان پر خاک پھینکی تو آپ نے نہیں پھینکی تھی (وہ مشت خاک) بلکہ اللہ نے پھینکی تھی!‘‘

کاش کہ وہ لوگ جو تاویل کے اس بودے اور کمزور سے اختلاف کو پہاڑ بنا کر اپنے دینی فرائض کے پورے تصور ہی کو مسخ کر رہے ہیں اور بزعم خویش اس دلیل کی بنیاد پر فریضہ اظہارِ دین حق ہی سے بری ہو بیٹھے ہیں ‘وہ غور کرتے کہ غزوۂ بدر کے بعد جب آیت متذکرہ 
بالا نازل ہوئی اگر آنحضور اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اسے ظاہر الفاظ پر محمول کرتے ہوئے آئندہ کے لیے سعی و ُجہد سے دستکش ہو کر بیٹھ رہتے تو تاریخ کاد ھارا کس رخ بہتا؟ اور آیا اس صورت میں ہم میں سے کوئی ایک بھی دولت ایمان اور نعمت اسلام سے بہرہ ور ہو سکتا؟ غور کرنا چاہیے کہ کہیں ہم شیطان کے فریب میں تو نہیں آ گئے؟اور صورت حال وہ تو نہیں جو ’’خوئے بدرا بہانہ بسیار!‘‘کی کہاوت میں بیان ہوئی یا جگر مرادؔ آبادی کے اس شعر میں کہ : ؎ 

تپتی راہیں مجھ کو پکاریں 
دامن پکڑے چھائوں گھنیری!

اگر صفائے نیت کے ساتھ حقیقت کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو معاملہ بالکل صاف ہے. سورۃ التوبہ‘سورۃ الفتح اور سورۃ الصف جن میں آیت زیر بحث وارد ہوئی ہے ‘تینوں اللہ کی راہ میں جہاد اور قتال سے تفصیلاً بحث کرتی ہیں. خصوصاً سورۃ الصف تو ازاوّل تا آخر ہے ہی جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے موضوع پر . اور اس میں اس آیہ مبارکہ یعنی : 
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ کے فوراً بعد مسلمانوں کے جذبہ جہاد و قتال کو للکارا گیا ہے. بایں طور کہ پہلے سوال کیا گیا کہ عذابِ جہنم سے چھٹکارا پانے کے طالب ہو یا نہیں؟اور پھر صاف صاف سنا دیا گیا کہ اس کی ایک ہی راہ ہے اور وہ جہادو قتال فی سبیل اللہ کی کٹھن اور ُپرصعوبت وادیوں سے ہو کر گزرتی ہے: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ 
(الصف:۱۰۱۱’’اے اہل ِایمان! کیا میں رہنمائی کروں تمہاری ایسے کاروبار کی جانب جو چھٹکارا دلادے تمہیں دردناک عذاب سے؟ ایمان (محکم) رکھو اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر اور جہاد کرو اس کی راہ میں اور کھپاؤ اس میں اپنے مال بھی اور اپنی جانیں بھی.‘‘ اگر اس راہ کو اختیار کرتے ہوتو مغفرت کا وعدہ بھی ہے اور جنت کا بھی‘ اُخروی فوز و فلاح کا وعدہ بھی ہے اور دنیا میں تائید اور فتح و نصرت کا بھی‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نصرتِ الٰہی و رسولؐ کے بلند و بالا مقام پر فائز ہونے کا امکان بھی ہے اور محبوبیت ِخداوندی کے اعلیٰ مرتبے پر بھی بصورتِ دیگر یہ مقاماتِ بلند تو خارج از بحث ہیں ہی‘ عذابِ الیم سے چھٹکارا پانا بھی اُمید ِموہوم کے سوا کچھ نہیں!

گویا بات بالکل سیدھی ہے کہ دین اصلاً اللہ کا ہے اور اس کو غالب کرنا اصلاً فرضِ منصبی ہے رسول اللہ کا. اب جو ان دونوں پر ایمان کے دعوے دار ہوں اُن کے خلوص و اخلاص کا اصل امتحان 
(test) یہ ہے کہ اگر اپنا تن من دھن اس کام میں کھپا کر اللہ اور رسولؐ دونوں کے مددگار ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیں تو کامیاب و کامران ہیں ورنہ خائب و خاسر اور ناکام و نامراد!!

چنانچہ سورۃ الحدید کی آیت ۲۵ کے آخر میں بھی وضاحت فرما دی: 

وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ 

’’اور تاکہ دیکھ لے اللہ کہ کون مدد کرتا ہے اُس کی اور اُس کے رسولوں کی غیب کے باوجود.‘‘
اور سورۃ الصف کا اختتام بھی ہوا اس آیہ مبارکہ پر! 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ 
(آیت ۱۴
’’اے اہل ایمان! بنومددگار اللہ کے جیسے کہ کہا تھا عیسیٰ ابن مریم نے اپنے حواریوں سے کہ کون ہے میرا مددگار اللہ کی طرف!‘‘
اس کے بعد بھی اگر کوئی نہ سمجھنا چاہے تو اس کی مرضی.

لِیُظْھِرَہٗ کی ضمیر مفعولی کے بارے میں بھی دو آراء ہیں: ایک یہ کہ اس کا مرجع ہے دین الحق اور دوسری یہ کہ یہ راجع ہے رسولؐ کی جانب اگرچہ اس سے بھی ہرگز کوئی فرق واقع نہیں ہوتا ‘اس لیے کہ رسول کے غلبے کا مطلب بھی ان کی ذات یا ان کے کنبے اور قبیلے کا غلبہ نہیں دین حق ہی کا غلبہ ہے. 

عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ 

’’ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘‘ 
کا ترجمہ اکثر و بیشتر مترجمین نے ’’تمام ادیان پر‘‘ کیا ہے. گویا ’’الدین‘‘ کے لامِ تعریف کو لامِ استغراق قرار دیا ہے ‘حالانکہ یہاں جس قدر امکان لامِ استغراق کا ہے اتنا ہی لامِ جنس کا بھی ہے‘ چنانچہ بعض حضرات نے اس کا ترجمہ ’’سب دین پر‘‘ یا ’’سارے دین پر‘‘ یا ’’کل دین پر‘‘ یا ’’پورے جنس دین پر‘‘ بھی کیا ہے.

سب جانتے ہیں کہ قرآن حکیم کے اوّلین اردو مترجمین اما م الہند شاہ ولی اللہ دہلوی کے جلیل القدر صاحبزادے شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر 
رحمہم اللہ ہیں. ان میں سے مقدم الذکر کے ترجمے میں رعایت لفظی زیادہ ملحوظ ہے اور مؤخر الذکر کا ترجمہ بامحاورہ قرار دیا جاتا ہے. بعد کے اکثر و بیشتر مترجمین اصلاً ان دو بھائیوں ہی کے خوشہ چین ہیں. چنانچہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ علیہ نے تو اپنے ترجمہ قرآن کے دیباچے میں صاف اعلان کیا ہے کہ اصلاً وہ شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ علیہ ہی کا ترجمہ ہے جس میں ایک صدی بیت جانے کے باعث اردو کے محاورے میں جو تبدیلی آ گئی ہے صرف اس کے پیش نظر لفظی تبدیلی کی گئی ہے.

شاہ عبدالقادرؒ نے 
’’عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘‘ کا ترجمہ سورۃ التوبہ اور سورۃ الفتح میں تو ’’ہر دین سے‘‘ کے الفاظ سے کیا ہے اور سورۃ الصف میں ’’دینوں سے‘ سب سے‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں .جبکہ شاہ رفیع الدینؒ نے صرف سورۃ التوبہ میں ’’اوپر دین سب کے‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ‘ اور سورۃ الفتح اور سورۃ الصف دونوں مقامات پر ’’اوپر دین سارے کے‘‘ کی تعبیر اختیار کی ہے. 

گویا جہاں تک ٹھیٹھ عربی قواعد کا تعلق ہے یہ دونوں ترجمے مساوی طو رپر صحیح اور درست ہیں‘ البتہ اگر حسب ذیل حقائق کو پیش نظر رکھا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ صحیح تر اور موزوں تر ترجمہ شاہ رفیع الدینؒ ہی کا ہے:

(۱) پورے قرآن مجید میں نہ کہیں ’اَدیان‘کا لفظ استعمال ہوا ہے‘ نہ ہی کوئی دوسرا مقام ایسا ہے جہاں 
’’الدِّین‘‘ کا ترجمہ ’’تمام ادیان‘‘ کرنا ممکن ہو. (۲) تفسیر قرآن کے اہم اصول ’’القرآن یفسِّر بعضہ بعضًا‘‘ کے پیش نظر اس معاملے میں یہ حقیقت تو انتہائی فیصلہ کن اہمیت کی حامل ہے کہ ’’الدّین‘‘ کے ساتھ ’’کُلّہ‘‘ کا تاکیدی کلمہ ان تین آیات کے علاوہ پورے قرآن میں صرف حسب ذیل آیہ مبارکہ میں واردہوا ہے: 

وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَـکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ج 
(الانفال:۳۹
’’اور جنگ کرتے رہو ان سے یہاں تک کہ فتنہ بالکل فرو ہو جائے اور دین ُکل کا کل اللہ ہی کے لیے ہو جائے.‘‘

اور یہاں ظاہر ہے کہ ’’سارے ادیان‘‘ کا ترجمہ قطعاً ممکن نہیں ہے ‘بلکہ صرف ایک ہی ترجمہ ممکن ہے یعنی ’’پورے کا پورا دین‘‘ یا ’’سارے کا سارا دین‘‘ اس لیے کہ تمام ادیان کے اللہ کے لیے ہو جانے کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں‘ جبکہ سارے کے سارے دین یا پورے کے پورے دین کا اللہ کے لیے ہونا قرآن حکیم کا ایک معروف مضمون ہے. (جیسا کہ اس سے قبل 
’’مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ‘‘ اور’’اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ‘‘ اور ’’وَلَہُ الدِّیْنُ وَاصِبًا‘‘ کے حوالے سے تفصیلاً بیان ہو چکا ہے.)

اب 
’’الدِّین‘‘ کے اصطلاحی معنی ذہن میں مستحضر کر کے ’’ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘‘ کا ترجمہ کیجیے تووہ یوں ہو گا:

’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول ( ) کو ’الہدیٰ‘ (یعنی قرآن حکیم) اور دین حق(یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت ِکلی ُکے اصول پر مبنی نظامِ زندگی یعنی اسلام) کے ساتھ تاکہ غالب کر دے وہ (یعنی رسول ) اسے (یعنی اللہ کی اطاعت کے نظام کو) پورے کے پورے دین (یعنی نظامِ اطاعت یا نظامِ زندگی ) پر!‘‘

اس آیۂ مبارکہ کے مفہوم و معنی کی اس تفصیلی وضاحت کے ساتھ ہی عقلی اور منطقی طورپر بھی سمجھ لیجیے کہ نبی اکرم کے لیے یہ 
’اِظْہَارُ دِیْنِ الْحَقِّ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘ کیوں ضروری تھا؟

اچھی طرح سمجھ لیا جانا چاہیے کہ آنحضور کے لیے یہ ’اظہار دین حق‘ دووجوہات کی بنا پر لازمی و لابدی ُتھا: 
(۱) ایک اس لیے کہ دین اپنی فطرت کے اعتبار ہی سے غلبہ چاہتا ہے اور وہ نظامِ اطاعت بے معنی ہے جو فی الواقع قائم و نافذ نہ ہو.

اس اعتبار سے دین اور مذہب میں آسمان اور زمین کا سا فرق و تفاوت ہے. مذہب اصلاً ایک جزوی شے ہے اور کسی بھی دین کے تحت رہ کر گزارا کر سکتا ہے .جس طرح غلبۂ اسلام کے زمانے میں عیسائیت‘ یہودیت اور مجوسیت یا بدھ مت اور ہندو مت ایسے مذاہب 
یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ ‌یَّدٍ وَّ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ (۱کی کیفیت کے ساتھ زندہ رہے یا غلبۂ انگریز کے زمانے میں اسلام ایک مذہب کی صورت اختیار کر کے زندہ (۲رہا جبکہ دین ایک ُکلی ّحقیقت ہے جس کے کوئی معنی ہی نہیں اگر وہ غالب نہ ہو. چنانچہ جس طرح دو تلواریں ایک میان میں نہیں سما سکتیں یا جمہوریت اور ملوکیت یا کیپٹلزم اور کمیونزم کسی خطہ زمین پر بیک وقت قائم نہیں ہو سکتے اسی طرح دو دین بھی کسیجگہ ہمسر اور ہم پلہ ہو کر نہیں رہ سکتے. اور ان کے مابین مفاہمت (detente) یا ُپرامن بقائے باہمی (peaceful co-existence) کی کوئی صورت اس کے سوا موجود نہیں ہے کہ ان میں سے ایک تو دین ہی کی حیثیت میں رہے اور غالب ہو اور دوسرا سمٹ اور سکڑ کر (۳مذہب کی حیثیت اختیار کر لے اور مغلوب ہو کر رہنے پر راضی (۴ہوجائے!

دین و مذہب کے مابین فرق و امتیاز کے ضمن میں دو حقیقتیں اور بھی پیش نظر رہنی چاہئیں:

ایک یہ کہ لفظ مذہب پورے قرآن حکیم میں کہیں نہیں آیا اور حدیث ِنبویؐ کے

(۱) التوبۃ:۲۹ : ’’دیتے ہوئے جزیہ اپنے ہاتھ سے ’چھوٹے‘ ہو کر!‘‘
(۲) جس کی صحیح ترین تصویر ہے علامہ اقبالؒ کے اس شعر میں ؎
ُملا ّکو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد! 

(۳) بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اِک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی!! (اقبالؔ) 
(۴) اس اعتبار سے غور کیا جائے تو سورۃ التوبہ کی محولہ بالا آیت کے الفاظ ’’وَھُمْ صٰغِرُوْنَ‘‘ کا مفہوم پوری طرح نکھر کر سامنے آ جاتا ہے! پورے ذخیرے میں بھی یہ لفظ عام معروف اصطلاحی معنوں میں کہیں مستعمل نہیں ہوا. بعد میں بھی اس لفظ کا استعمال بالکل صحیح طور پر ہوا مختلف فقہی مدرسہ ہائے فکر کے لیے. جیسے مذہب حنفی‘ مذہب مالکی‘ مذہب شافعی‘ مذہب حنبلی اور مذہب اہل حدیث‘ جن کی حیثیت دین اسلام کے اصل شجرئہ ثابتہ کی فروع اور شاخوں سے زیادہ کچھ نہیں ہے!

دوسرے یہ کہ اگرچہ رسولوں کی لائی ہوئی شریعتوں میں اختلاف ہوتا رہا ہے‘ جیسے شریعت ِموسویؑ اور شریعت ِمحمدیؐ کے مابین عبادات اور معاملات کے تفصیلی احکام میں نمایاں فرق ہے‘ تاہم از حضرت آدمؑ تا آنحضور علیہ السلام جملہ انبیاء و رسل کا دین ایک ہی تھا‘ بفحوائے آیاتِ قرآنی: 

شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی 
(الشوریٰ:۱۳
’’مقرر کیا اُس (اللہ) نے تمہارے لیے (اے مسلمانو)دین کے طور پر وہی جس کی وصیت کی تھی اُس نے نوحؑ کو اور جو وحی کیا ہم نے (اے نبی !) تمہاری طرف ‘ اور جس کی وصیت کی تھی ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ ( علیہم السلام) کو…‘‘ 

(۲) نبی اکرم کے لیے 
’اِظہارُ دِین الحقِّ علی الدِّین کُلِّہ‘ اس لیے بھی ضروری تھا کہ اعلیٰ سے اعلیٰ اور عمدہ سے عمدہ نظامِ اجتماعی بھی جب تک بالفعل قائم کر کے اور عملاً چلا کے نہ دکھا دیا جائے بس ایک خیالی جنت (utopia) کی حیثیت رکھتا ہے اور رسالت ِ محمدیؐ کی جانب سے نوعِ انسانی پر’’شہادت‘‘ اور’’اِتمامِ حجت اور قطع عذر‘‘ (جو سلسلہ رسالت کی غرضِ اصلی ہے!) کا حق اس وقت تک ادا نہ ہو سکتا تھا جب تک کہ آپؐ اس دین حق کو بالفعل قائم و نافذ کر کے نہ دکھا دیتے جس کے ساتھ آپؐ مبعوث فرمائے گئے تھے. چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ اگر آنحضور نے مسلسل محنت و مشقت اور پیہم سعی و جہد سے ’غلبہ ٔدین ِحق‘ کی صورت میں وہ ’نظامِ عدلِ اجتماعی‘ بالفعل قائم نہ کر دیا ہوتا‘ جو بعد میں خلافت ِراشدہ کے دوران بالکل اسی شان کے ساتھ پھلا پھولا جیسے ایک بند کلی کھل کر پھول بنتی ہے اور اس کے دوران نوعِ انسانی کے سامنے یہ ’معجزات‘ عملاًرونما نہ ہو جاتے کہ ’’انسانی حریت‘ اخوت اور مساوات‘‘ صرف وعظ کے موضوعات نہیں ہیں بلکہ حقیقت اور واقعہ کا روپ بھی دھار سکتے ہیں.

(۱اور نہ صرف یہ کہ نظامِ عائلی میں مرد کی قوامیت کے باوجود عورت کو ایک انتہائی باعزت اور باوقار مقام دیا جاسکتا ہے ‘بلکہ یہ بھی کہ نظامِ سیاسی میں کامل آزادی ٔرائے کے باوصف نظم اور ڈسپلن بھی برقرار رکھا جا سکتا ہے‘ بلکہ عدل و انصاف کے جملہ تقاضے بھی باحسن وجوہ پورے کیے جا سکتے ہیں. اور اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہ نظامِ معاشی کے ضمن میں انفرادی ملکیت اور ذاتی مفاد کے جذبۂ محرکہ کو برقرار رکھتے ہوئے بھی دولت کی تقسیم اور سرمائے کی گردش کا ایک حد درجہ معتدل اور نہایت عادلانہ و منصفانہ نظام قائم کیا جا سکتا ہے تو اُس دور کے انسان پر ’دین ِحق‘ کی جانب سے ’’اتمامِ حجت‘‘کیسے ہو سکتا جس کے فاتح ہیں آنحضور ! اور کیسے واضح ہو سکتی یہ حقیقت کہ انسان نظامِ اجتماعی کے ضمن میں جس خیر (good) یا قدر (value) کا بھی تصور کر سکے وہ اسے بتمام و کمال اور بغایت توازن و اعتدال موجود پائے اس نظام میں جو آج سے چودہ سو سال قبل قائم کیا محمد ٌرسول اللہ (۲نے اور بالکل یہ محسوس ہو (۱) ایچ. جی. ویلز (H.G.Wells) کو آنحضور سے جو بغض و عداوت ہے وہ ان رکیک حملوں سے ظاہر ہے جو اس نے آنحضور کی ذاتی اور خصوصاً عائلی زندگی پر کیے ہیں. بایں ہمہ وہ اپنی تالیف (A Concise History of the World) میں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا کہ ’’انسانی حریت‘اخوت اور مساوات کے وعظ تو اگرچہ دنیا میں پہلے بھی بہت کہے گئے تھے‘ چنانچہ مسیح ناصری کے یہاں بھی ان کا بڑا ذخیرہ موجود ہے‘ لیکن نوع انسانی کی تاریخ میں پہلی بار ان اصولوں پر مبنی نظام عملاً قائم کر کے دکھادیا محمد نے‘‘( ). یہ روشن ترین مثال ہے عربی زبان کی ایک کہاوت کی کہ : ’’اَلْفَضْلُ مَاشَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائ‘‘ (اصل کمال وہ ہے جس کا اعتراف کرنے پر دشمن بھی اپنے آپ کو مجبور پائے). 

(۲) چنانچہ یہ ’معجزہ‘ نہیں تو اور کیا ہے جو چودھویں صدی ہجری اور بیسویں صدی عیسوی میں ظاہر ہوا کہ جب ہندوستان کی آزادی کا وقت قریب آیا تو یہاں کا ایک ہندو مہاتما (گاندھی) مجبور ہو گیا کہ اپنے ہم قوم و ہم مذہب لوگوں سے کہے کہ تمہارے سامنے نمونے کے طور پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا دورِ حکومت رہنا چاہیے (نہ کہ رامائن اور مہابھارت اور بکرماجیت یا چندرگپت موریا کا!). واضح رہے کہ یہ الفاظ آنجہانی موہن داس کرم چند گاندھی نے اپنے رسالے ’’ہریجن‘‘ میں ۱۹۳۷ء میں اس وقت لکھے تھے جب برطانوی ہندمیں پہلی بار صوبائی وزارتیں بنی تھیں اور چونکہ مسلم لیگ نے۱۹۳۶ء کے انتخابات کا مقاطعہ کیا تھا ‘لہٰذا پورے ہندوستان میں کانگریس ہی نے وزارتیں بنائی تھیں! 
کہ نظامِ عدلِ اجتماعی کے ضمن میں نوعِ انسانی کی ساری ذہنی تگ و دو اور عملی بھاگ دوڑ گویا نظامِ محمدی تک رسائی کی سعی و کوشش ہے‘ بقول علامہ اقبال: ؎

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و ُبو
آنکہ از خاکش بروید آرزو!
یا ز نورِ مصطفی او را بہاست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفی است

گویاآنحضور پر اتمامِ نعمت ِشریعت اور تکمیل ِدین اور ختم و اِکمالِ نبوت و رسالت کا لازمی تقاضا تھا کہ آپؐ کی بعثت کا مقصد یہ قرار پاتا کہ آپؐ انذار و تبشیر‘ دعوت و تبلیغ‘ وعظ و نصیحت‘ تعلیم و تربیت اور تزکیہ و اصلاح پر مستزاد تنظیم‘ ہجرت‘ جہاد اور قتال پر مشتمل ایک انقلابی ِجدوجہد ُکے ذریعے باطل نظامِ زندگی کو بیخ و ُبن سے اکھاڑ کر اس کی جگہ دین حق کو بالفعل قائم و نافذ کر دیں اور نظامِ اطاعت ِخداوندی کو پورے نظام اطاعت پر عملاً غالب کر دیں. 

چنانچہ یہی ہے آپؐ کے مقصد ِبعثت کی وہ اتمامی و تکمیلی شان جس کے اعتبار سے آپؐ انبیاء و رسل کی پوری جماعت میں ایک منفرد مقام او رممتاز حیثیت کے مالک ہیں.