(۱) مغربی مفکرین ّکی ناسمجھی


ایک یہ کہ نبی اکرم کے مقصد ِبعثت کے اسی اِتمامی و تکمیلی پہلو کو نہ سمجھنے کے باعث سخت ٹھوکریں کھائی ہیں آنحضور کی سیرتِ طیبہ کے فہم میں مغربی مفکرین یا مستشرقین نے. ان بے چاروں کے سامنے بعثت ِانبیاء و رسل کی اساسی غرض و غایت تو ہے‘ چنانچہ وہ یہ تو جانتے ہیں کہ نبی و رسول داعی بھی ہوتے ہیں اور مبلغ بھی‘ معلم بھی ہوتے ہیں اور مربی و مزکی ّبھی‘ بشیر بھی ہوتے ہیں اور نذیر بھی‘ واعظ بھی ہوتے ہیں اور ناصح بھی‘ ریفارمر (reformer) بھی ہوتے ہیں اور مصلح بھی.لیکن چونکہ ان پر ختم ِ نبوت اور تکمیل رسالت کے تقاضے واضح نہیں ہیں‘ لہٰذا یہ بات ان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ کوئی نبی یا رسول صاحب ِسیف بھی ہو سکتا ہے اور صاحب ِعلم بھی‘سپہ سالار بھی ہوسکتا ہے اور مدبر و سیاست دان بھی. چنانچہ جب وہ آنحضور کی شخصیت مبارکہ میں یہ جملہ کمالات پہلو بہ پہلو دیکھتے ہیں تو سخت خلجان میں مبتلا ہو جاتے ہیں .چنانچہ ان میں سے کوئی تو آپؐ کونبی یا رسول ماننے سے ہی صریحاً انکار کر دیتا ہے اور آپؐ کی عظمت صرف بطورِ انسان تسلیم کر کے رہ جاتا ہے (۱‘کوئی ایسی احمقانہ بات کہہ بیٹھتا ہے کہ ’’محمد بحیثیت نبی تو ناکام ہو گئے‘ البتہ بحیثیت مدبر و سیاست دان کامیاب ہو گئے‘‘ (۲اور کوئی آپؐ کی شخصیت کو دو مستقل حصوں میں منقسم کر بیٹھتا ہے‘ چنانچہ اسے ’’مکے والا محمدؐ ‘‘ اور نظر آتا ہے اور ’’مدینے والا‘‘ (۳اور ! فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْجَاھِلِیْنَ!