اس مقام پر ذرا توقف کر کے ایک اہم حقیقت پر غور کر لینا چاہیے اور وہ یہ کہ کسی بھی اہم کام کے لیے مقصد اور طریق کار دونوں نہایت اساسی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں. مقصد میں آخری منزل پیش نظر رہتی ہے اور طریق کار میں ہر ہر مرحلے کے لوازم پر توجہ دی جاتی ہے‘ اور ظاہر ہے کہ ان دونوں کا توازن ہی کسی کام کے پایۂ تکمیل تک پہنچنے کا ضامن بن سکتا ہے ‘اور جو شخص یا گروہ بیک وقت ان دونوں کو ملحوظ نہ رکھ سکے وہ اپنی منزل کھوٹی کر بیٹھتا ہے. ماضی کی تاریخ بھی ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے اور خود ہمارے گرد و پیش میں بھی اس کی زندہ مثالیں موجود ہیں کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخصیت یا جماعت اپنے پیش نظر مقصود کے حصول کی عجلت میں درمیانی مراحل کو پھلانگ جانا چاہتی ہے اور کسی راہِ قصیر (short cut) کی دلدل میں ایسی پھنستی ہے کہ پھر لاکھ ہاتھ پاؤں مارنے کے باوجود اُس سے چھٹکارا نصیب نہیں ہوتا اور وہ راہِ قصیر اتنی طویل ہو جاتی ہے کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آتی. گویا وہ کمبل کو چھوڑنا چاہے بھی تو کمبل اسے نہیں چھوڑتا. یہ دوسری بات ہے کہ وقفہ وقفہ سے اپنے متوسلین کی ہمت یہ کہہ کر بندھائی جاتی رہے کہ : ؏
’’اِس موڑ سے آگے منزل ہے‘ مایوس نہ ہودرّاتاجا!‘‘
اور کبھی ا س کے برعکس یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص یا گروہ ذریعے ہی کو مقصد بنا بیٹھتا ہے اور راستے ہی کو منزل قرار دے لیتا ہے. نتیجتاً ساری توانائیاں ایک دائرے میں حرکت کرتے رہنے میں صرف ہو جاتی ہیں اور اہل قافلہ وَ ہُمۡ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ یُحۡسِنُوۡنَ صُنۡعًا (۱) کے مصداق صرف حرکت اور اس کی تیز رفتاری ہی کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں.
اب اگر اس حقیقت سے فرار ممکن نہیں کہ ہر کام کے لیے ایک مناسب طریق ہوتا ہے اور ہر مقصد کے لیے ہر طریق کار موزوں نہیں ہوتا تو جو لوگ خلافۃ علٰی منہاج النبوۃ کے قیام کے خواہش مند ہوں ان کے لیے لازمی و لابدی ُہے کہ وہ غور کریں کہ آنحضورﷺ کا اصل منہج عمل کیا تھا. مبادا وہ بھی متذکرہ بالا اِفراط و تفریط کا شکار ہوکر رہ جائیں! (۱) الکہف : ۱۰۴ : ’’اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں.‘‘ اس ضمن میں کتنی پیاری ہے وہ بات جو امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے فرمائی کہ لَا یَصْلَحُ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلاَّ بِمَا صَلَحَ بِہٖ اَوَّلُھَا ’’اس اُمت کے آخری حصے کی اصلاح نہ ہوسکے گی مگر صرف اسی طریق پر جس پر پہلے حصے کی کایا پلٹ ہوئی تھی‘‘ اور کتنی حیرت ناک ہے یہ حقیقت کہ دورِ نبویؐ سے اس قدر قرب کے باوصف ائمہ دین کو کتنی فکر تھی اس آخری دور کی جس میں ہم جی رہے ہیں!
اس ضمن میں ایک اور اہم حقیقت بھی قابل توجہ ہے اور وہ یہ کہ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ قرآن حکیم انقلابِ اسلامی کے لیے کسی منہج عمل کی جانب رہنمائی نہیں کرتا تو اسے محسوس کرنا چاہیے کہ یہ قرآن مجید پر بھی ایک سنگین طعن ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی حددرجہ ناروا سوئِ ظن . اس لیے کہ مسلمانوں پر ’خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘ کے قیام کی سعی کو مستقلاً فرض اور واجب کر دینا لیکن اس کے لیے کسی واضح طریق کار کی نشاندہی نہ کرنا صریح ظلم قرار پائے گا. سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی عَمَّا یَصِفُوْنَ! اصل بات یہ ہے کہ ہم نے نہ توبفحوائے آیت قرآنی :
وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ (۱) اللہ تعالیٰ ہی کی عظمت کو پہچانا‘نہ بفحوائے آیت مبارکہ:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُہَا (۲) قرآن حکیم ہی پر غور کیا ‘بلکہ اسے :
نَبَذَ فَرِیۡقٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ ٭ۙ کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآءَ ظُہُوۡرِہِمۡ (۳) کے مصداق پس پشت ڈال دیا اور صرف حصول و ایصالِ ثواب کا آلہ بنا کر رکھ دیا ؎
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی ٔداماں بھی تھا!