آنحضورﷺ کے طریق انقلاب میں تلاوتِ آیات اور تزکیہ ٔنفوس کے بعد نمبر آتا ہے ’تعلیم کتاب‘ کا جو اصلاً عبارت ہے شریعت ِاسلامی کے اوامر و نواہی کی تعلیم اور احکامِ الٰہیہ کی تنفیذ سے. اس لیے کہ قرآن حکیم میں لفظ کتاب کا اطلاق بالعموم شریعت کے قواعد وضوابط پر ہوا ہے جیسے : اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتۡ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ کِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا ﴿۱۰۳﴾ (۲) میں‘ یا : وَ لَا تَعۡزِمُوۡا عُقۡدَۃَ النِّکَاحِ حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡکِتٰبُ اَجَلَہٗ (۳) میں.اسی طرح قرآن مجید میں کسی شے کی فرضیت و مشروعیت کے لیے بھی (۱) شیطان کو بالکل ہلاک کر دینا ایک نہایت مشکل کام ہے ‘اس لیے کہ اس کا بسیرا نفس انسانی کی گہرائیوں میں ہے! بہتر صورت یہ ہے کہ اسے قرآن حکیم کی (حکمت و ہدایت کی) شمشیر سے گھائل کر کے مسلمان بنالیا جائے!
(۲) النساء : ۱۰۳: ’’بے شک نماز مسلمانوں پر فرض ہے اپنے مقرر وقتوں میں.‘‘
(۳) البقرۃ : ۲۳۵ :’’اور نہ ارادہ کرو نکاح کا یہاں تک کہ پہنچ جائے عدت مقررہ اپنی انتہا کو.‘‘
’’کُتِبَ‘‘ کالفظ بکثرت استعمال ہوا ہے ‘جیسے : کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ (۱) کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ (۲)
کُتِبَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَۨا ۚۖ الۡوَصِیَّۃُ (۳) رَبَّنَا لِمَ کَتَبۡتَ عَلَیۡنَا الۡقِتَالَ ۚ (۴) وَ لَوۡ اَنَّا کَتَبۡنَا عَلَیۡہِمۡ اَنِ اقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ (۵) .
واضح رہنا چاہیے کہ تلاوتِ آیات اور تزکیہ کے مراحل طے ہوجانے کے بعد ہی انسانی شخصیت کی زمین پورے طو رپر تیار ہوتی ہے کہ اس میں شریعت کے اوامر و نواہی اور احکامِ الٰہی کے بیج بوئے جائیں اور وہ ِبر و تقویٰ کی ایک لہلہاتی ہوئی کھیتی کی صورت اختیار کر لے. بصورتِ دیگر فصل کا حصول درکنار بیج بھی ضائع ہو جاتا ہے. یہی سبب ہے اس کا کہ قرآن مجید کا ’کتاب‘ والا حصہ یعنی اس کی وہ آیات و سور جن میں حلال و حرام کے تفصیلی احکام بیان ہوئے ہیں‘ اُس وقت نازل ہوا جب پورے پندرہ سال کی محنت ِشاقہ ّکے نتیجے میں جس میں تمام تر توجہات تلاوتِ آیات اور تزکیہ پر مرتکز رہی تھیں‘ ایک ایسا معاشرہ وجود میں آ گیا جو ان احکام کو قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں بے تاب تھا! اس کی سب سے نمایاں اور درخشاں مثال حرمت شراب کے معاملے میں ملتی ہے کہ اُدھر حکم نازل ہوا اِدھر شراب کے برتن توڑ ڈالے گئے اور پھر ان لوگوں نے کبھی شراب کا خیال تک دل میں نہ آنے دیا جن کی گھٹی میں شراب پڑی ہوئی تھی اور پوری پوری عمریں پینے اور پلانے میں گزری تھیں. اوراس کے بالکل برعکس معاملہ ہوا اس دور میں امریکہ ایسے تعلیم یافتہ اور مہذب و متمدن ّملک میں جہاں prohibition act کی دھجیاں بکھر کر رہ گئیں اور ؏ ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ کے آگے تمام سائنسی حقائق اور اعداد و شمار دھرے کے دھرے رہ گئے! (۱) البقرۃ : ۱۸۳ :’’فرض کیا گیا تم پر روزہ.‘‘
(۲) البقرۃ:۲۱۶:’’فرض کی گئی تم پر لڑائی.‘‘
(۳) البقرۃ : ۱۸۰: ’’فرض کر دیاگیا تم پر جب حاضر ہو کسی کو تم میںموت‘ بشرطیکہ چھوڑے کچھ مال‘ وصیت کرنا.‘‘
(۴) النساء:۷۷ ’’(اور کہنے لگے) اے رب ہمارے! کیوں فرض کی تونے ہم پرلڑائی؟‘‘
(۵) النساء: ۶۶: ’’اور اگر ہم ان پر حکم کرتے کہ ہلاک کرو اپنی جان…‘‘