متذکرہ بالا آیت کے حوالے سے جو سب سے پہلی بات ذہن نشین کرنی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ نبی اکرم سے ہمارے تعلق کی اوّلین اور بنیادی نوعیت یہ ہے کہ ہم آپؐ پر ایمان لاتے ہیں اور آپؐ کی تصدیق کرتے ہیں. نیز آپ کو اللہ کا نبی‘ اللہ کا رسول‘ اللہ کا فرستادہ اور اللہ کا پیغامبر تسلیم کرتے ہیں. اس اقرار و یقین کا نام ’’ایمان‘‘ ہے اور اسی سے ہمارے اور حضور کے مابین ایک تعلق اور رشتے کا آغاز ہوتا ہے. اُمت ِ مسلمہ میں اگرچہ سادات اور ہاشمی بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں‘ لیکن عظیم اکثریت یقینا اُن لوگوں کی ہے جن کا کوئی نسل اور خون کا تعلق نبی اکرم کے ساتھ نہیں ہے. بایں ہمہ ہر اُمتی کو حضورؐ کے ساتھ ایک نسبت و تعلق حاصل ہے اور یہی تعلق سب سے اہم اور سب سے مضبوط تعلق ہے‘ یعنی ایمان کا تعلق‘ اِس یقین کا تعلق کہ محمد اللہ کے رسول ہیں جو پورے عالم ِکے لیے ہادی و رہنما بنا کر مبعوث کیے گئے اور جو تمام بنی نوعِ آدم کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجے گئے. بفحوائے الفاظِ قرآنی : 

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا … 
(سبا :۲۸
’’اور (اے نبی ) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام انسانوں کے لیے بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا (بنا کر!)‘‘

اکثر و بیشتر حضرات کے علم میں ہو گا کہ اس ایمان کے دو درجے ہیں. ایمانِ مجمل کے الفاظ میں ان دو درجوں کے لیے دو اصطلاحیں آئی ہیں‘ ایک 
اِقرارٌ بِاللِّسَان اور دوسری تَصْدِیْقٌ بِالْـقَلْب. یعنی نبی اکرم  پر ایمان کے ضمن میں زبان سے اس امر کا اقرار کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور دل سے اسی بات کی تصدیق اور اسی پر یقین ِ کامل رکھنا. ان کو آپ ایمان کے دو درجے‘ دو مراتب‘ یا دو پہلو کہہ سکتے ہیں اور جب یہ دونوں باہم دگر ایک وحدت بنیں گے تب ہی درحقیقت ایمان مکمل ہو گا. اگر صرف زبان سے اقرار ہے لیکن دل میں یقین نہیں تو یہ ایمان نہیں‘ بلکہ اسے نفاق کہا جائے گا. مدینہ طیبہ کے منافقین زبان سے حضور پر ایمان لانے کا اقرار کرتے تھے‘ بلکہ آپؐ کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے‘ روزے رکھتے تھے‘ زکوٰۃ ادا کرتے تھے‘ لیکن ان کے دل نورِ یقین سے خالی تھے.

لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا ٹھکانا جہنم قرار پایا‘ بلکہ جہنم کا بھی سب سے نچلا حصہ. ازروئے الفاظِ قرآنی: اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ (النسائ:۱۴۵’’یقینا منافق تو آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے.‘‘ اسی طرح کوئی شخص دل میں تو حضور کی رسالت کا یقین رکھتا ہو‘ لیکن زبان سے اس کا اقرار نہ کرے تو قانونِ شریعت کی رُو سے ایسا شخص کافر قرار پائے گا. دنیا میں وہی شخص مسلم قرار پائے گا جو زبان سے کلمۂ شہادت کا اقرار کرے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وََرَسُوْلُہٗ ‘ اور آخرت میں وہی شخص مؤمن قرار پائے گا جو اقرارٌ باللسان کے ساتھ تصدیق بالقلب کی دولت سے بھی مالا مال ہو‘ جو دل والے یقین کے ساتھ یہ ایمان رکھتا ہو کہ بے شک محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور ان پر اللہ کی آخری کتاب نازل ہوئی ہے جو ابد الآباد تک محفوظ رہے گی. غرضیکہ اقرارٌ باللسان اور تصدیق بالقلب لازم و ملزوم ہیں اور ایمان کی تکمیل ان دونوں کے ارتباط و اشتراک سے ہو گی.