نبی اکرمﷺ پر ایمان اور آپؐ کی توقیر و تعظیم کا دوسرا لازمی نتیجہ آپؐ سے محبت ہے. صرف زبردستی‘ مجبوری اور مارے باندھے کی اطاعت تو کسی جابر حکمران اور جابر اقتدار کی بھی کی جا سکتی ہے ‘بلکہ کی جاتی ہے‘ لیکن جب یہ اطاعت رسول اللہﷺ کے لیے مطلوب ہو تو پھر زبردستی کی اطاعت نہیں‘ بلکہ وہ اطاعت مطلوب ہوتی ہے جو انتہائی گہری محبت‘ دل کی پوری آمادگی اور پورے انبساطِ قلب اور شرح صدر کے ساتھ ہو‘ کیونکہ رسول اللہﷺ کی محبت لوازمِ ایمان میں سے ہے. اس ضمن میں خود نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (۱)
’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے لیے اس کے باپ‘ اس کے بیٹے اور تمام انسانوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں.‘‘
یعنی اگر ایک مسلمان کے دل میں حضورﷺ کی محبت اپنے تمام اعزہ و اقارب اور تمام انسانوں سے بڑھ کر جاگزیں نہیں ہوئی ہے تو وہ شخص حقیقتاً مؤمن نہیں. حدیث ِ مبارک کے الفاظ میں کوئی ابہام نہیں ہے‘ بلکہ بڑے واضح الفاظ میں صاف صاف اور دو ٹوک (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب حبّ الرسول من الایمان. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب وجوب محبۃ رسول اللّٰہﷺ اکثر من الاھل والولد والوالد والناس اجمعین… عن انس بن مالکؓ - انداز میں ایسے شخص کے ایمان کی نفی کر دی گئی ہے جسے نبی اکرمﷺ کی ذاتِ گرامی دنیا کے تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہیں ہے. اگر نبی اکرمﷺ کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں آتی تو درحقیقت آپؐ پر صحیح معنوں میں وہ ایمان ہی حاصل نہیں ہوا جو خدا کے ہاں معتبر ہے اور جس کی بنیاد پر اس کی عدالت سے جزا و سزا کے فیصلے صادر ہوں گے.
اس ضمن میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ منقول ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ نے ان سے سوال کیا: ’’عمرؓ ! تمہیں مجھ سے کتنی محبت ہے؟‘‘ ذرا اندازہ لگائیے کہ اس گفتگو سے کس قدر اپنائیت کا احساس اُبھرتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ حضورِ اقدسﷺ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مابین کس قدر قلبی و ذہنی قرب موجود تھا. سوال کا انداز خود بتا رہا ہے کہ یہ سوال اس ہستی سے کیا جا سکتا ہے جس کی محبت اور شیفتگی مسلم ّہو. حضرت عمرؓ نے جواباً عرض کیا کہ ’’حضور!آپؐ مجھے دنیا کے ہر انسان اور ہر شے سے زیادہ محبوب ہیں‘‘. حضورﷺ نے پھر دریافت فرمایا: ’’اور خود اپنی جان سے بھی؟‘‘ اس پر حضرت عمرؓ نے کچھ توقف کیا اور پھر عرض کیا: ’’اَلْآنَ‘‘ یعنی ہاں حضور! اب میں یہ بھی کہتا ہوں کہ آپؐ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب اور عزیز ہیں. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضورﷺ کے سوال کا جواب سوچ سمجھ کر‘ اپنا جائزہ لے کر اور اپنے دل کے اندر جھانک کر دیا. ہمارے نعت گو حضرات کی طرح نہیں کہ زبانی جمع خرچ کرنے پر ہی اکتفا ہو اور دعوائے محبت میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے جائیں‘ اِلاّ ماشاء اللہ. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جواب سن کر حضورﷺ نے فرمایا کہ ’’ہاں‘ اب تم مقامِ مطلوب تک پہنچے ہو‘‘. یعنی اگر میں تمہیں ہر چیز‘ ہر انسان یہاں تک کہ اپنی جان سے بھی محبوب تر ہو گیا ہوں تو اب وہ صحیح تعلق پیدا ہوا جو اللہ کو مطلوب ہے.