یہاں پر اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ایمان اور توقیر و تعظیم کے ان دونوں ناگزیر لوازم میں سے اگر ایک بھی غائب ہو تو اس ادھورے طرزِعمل سے آخرت میں نجات کی توقع ایک امید ِ موہوم سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی. اگر نبی اکرم پر ایمان کا دعویٰ بھی ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ مارے باندھے کی اطاعت بھی ہو رہی ہے‘ لیکن محبت نہیں ہے‘ اطاعت میں دلی آمادگی نہیں ہے‘ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا کی کیفیت نہیں ہے‘ دل میں تنگی اور اپراہٹ ہے‘ تو اس طرزِعمل میں منافقین کے ساتھ ایک مشابہت اور مماثلت پیدا ہو جاتی ہے. حضور کے دَور کے منافقین بھی ایمان لانے کے مدعی تھے اور وہ آپؐ کی اطاعت بھی کرتے تھے‘ لیکن یہ ان کی مجبوری تھی. وہ معاشرہ آج جیسا تو نہیں تھا کہ مسلمان کہلانے والے اطاعت ِرسول تو درکنار رسول اللہ کے احکام کا استہزاء کریں‘ جنت و دوزخ اور جزا و سزا کا مذاق اڑائیں‘ ملائکہ اور نزولِ وحی کے منکر ہوں‘ سنت رسول کے التزام سے انکار کریں اور اسلام کے نظامِ زندگی کو آج کے دَور کے لیے ناقابل ِ عمل قرار دیں‘ لیکن پھر بھی مسلمان کہلائیں اور ان کا شمار مسلمانوں میں کیا جائے.

اُس معاشرے کا حال تو یہ تھا کہ جس کسی نے اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرانا تھا اور خود کو مسلمان کہلانا تھا اس کے لیے اللہ کے رسول کی اطاعت سے سرتابی ممکن ہی نہیں تھی. وہ اس پر مجبور تھا کہ نماز پڑھے‘ شعائر ِ دین کا احترام کرے اور فرائض دین کی ادائیگی کا اہتمام کرے. لہٰذا منافقین یہ سارے جتن کرتے تھے‘ بلکہ قسمیں کھا کھا کر حضور کو اپنے صادق و مخلص ہونے کا یقین دلاتے تھے‘ لیکن ان کو جو متاعِ عزیز حاصل نہیں تھی‘ وہ تھی یقین ِ قلبی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی حضور سے حقیقی و واقعی محبت. چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے سورۃ المنافقون میں فیصلہ فرما دیا کہ: 

اِذَا جَآءَکَ الۡمُنٰفِقُوۡنَ قَالُوۡا نَشۡہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُ اللّٰہِ ۘ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوۡلُہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَشۡہَدُ اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَکٰذِبُوۡنَ ۚ﴿۱﴾ 

’’(اے نبی !) جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں. اور اللہ جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں. اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق بلاشبہ (اپنے قول میں) جھوٹے ہیں.‘‘

یعنی ان کی یہ بات تو اپنی جگہ سچی اور صداقت پر مبنی ہے کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں‘ لیکن چونکہ یہ دل سے آپؐ کی رسالت کے قائل نہیں‘ ان کے دلوں میں آپؐ کی حقیقی محبت موجود نہیں‘ صرف زبان سے اقرار کرتے ہیں‘ ان کا باطن کچھ اور ہے اور ظاہر کچھ اور‘اس لیے یہ جھوٹے ہیں اور ان کے قول کا کوئی اعتبار نہیں. پس ثابت ہوا کہ قلبی یقین اور محبت کے بغیر اگر اطاعت ہو رہی ہو تو اس میں منافقین کے ساتھ ایک مشابہت پیدا ہوتی ہے.

اس کے برعکس اگر یہ طرزِعمل اختیار کیا جائے کہ محبت ِ رسول کے محض دعوے ہیں‘ لیکن اطاعت نہیں‘ فرائض کی ادائیگی نہیں‘ اوامر و نواہی کی پرواہ نہیں‘ احکامِ شریعت کا سرے سے کوئی لحاظ نہیں‘ تو یہ طرزِعمل سراسر معصیت اور فسق و فجور پر مبنی ہے. محبت کا یہ خالی خولی دعویٰ اللہ کے ہاں سرے سے قبول ہی نہیں ہو گا. ایسا دعویٰ تو اس دنیا میں بھی قبول نہیں ہو سکتا ‘بلکہ مہمل قرار پاتا ہے کہ ایک طرف محبت کا دعویٰ ہو اور دوسری طرف اطاعت اور رضا جوئی کا سرے سے کوئی اہتمام نہ ہو. کسی بیٹے کو والد کی محبت کا دعویٰ ہو‘ لیکن وہ ان کا کہنا نہ مانتا ہو ‘بلکہ ہر عمل والد کی مرضی کے خلاف انجام دیتا ہو تو معقول بات 
یہ ہے کہ بیٹے کے اس دعوائے محبت کو دنیا میں کہیں تسلیم نہیں کیا جائے گا. اسی طرح عشقِ رسول اور محبت ِ رسول کے بلند بانگ دعاوی‘ بڑی وجد آفریں نعتیں اور بڑے لمبے چوڑے سلام‘ بڑے جوش و خروش اور شان و شوکت سے نکالے ہوئے جلوس اور بڑے ہی اہتمام کے ساتھ منعقد کی ہوئی میلاد کی محفلیں اور مجالسِ سیرت اگر جذبۂ اطاعت سے خالی اور پیرویٔ سنت کے جذبہ سے عاری ہیں تو یہ سب کچھ سراپا ڈھونگ ہے‘ فریبِ نفس ہے‘ اس کی کوئی حقیقت نہیں‘ میزان میں اس کا کوئی وزن نہیں‘ اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں‘ بلکہ یہ سب قابل ِ مؤاخذہ ہیں.