دعوت و تبلیغ کا کٹھن کام‘ شرک کے اندھیروں کو دور کر کے نورِ توحید پھیلانے کی یہ بھاری ذمہ داری‘ بدمستوں اور مدہوشوں کی اصلاح کا یہ مشکل کام‘ طاغوت سے پنجہ آزمائی اور باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حق کی سربلندی اور اقامت ِ دین کے جان جوکھوں کے یہ مراحل طے کرنا‘ یہ تھا وہ بارِ گراں جو نبوت و رسالت سے سرفراز ہونے کے نتیجہ میں محمد ٌ رسول اللہﷺ کے کندھوں پر آیا تھا. اس بارِ گراں کی خبر حضورﷺ کو نبوت کے آغاز ہی میں دے دی گئی تھی. چنانچہ سورۃ المزمل میں فرما دیا گیا تھا: اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا ﴿۵﴾ یعنی ’’ہم عنقریب آپؐ پر ایک بھاری فرمان نازل کریں گے (ایک بھاری بوجھ ڈالیں گے)‘‘ اور یہ بھاری فرمان اور بھاری بوجھ چند ہی دنوں بعد آنحضورﷺ کے شانوں پر رکھ دیا گیا‘ چنانچہ سورۃ المدثر میں حکم آگیا: یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ یعنی ’’اے کپڑا اوڑھ کرلیٹنے والے! کھڑے ہو جائو اور خبردار کرو (نیند کے ماتوں کو جھنجھوڑو‘ ان کو ہوشیار کرو‘ ان کو باطل عقائد اور غلط اعمال کے انجامِ بد سے ڈرائو) اور اپنے ربّ کی کبریائی کا اعلان کرو.‘‘
سورۃ المدثر کی تیسری آیت میں نبی اکرمﷺ کو ’’تکبیر ِ ربّ‘‘ کا حکم دیا گیا ہے‘ جس کے معنی صرف اللہ اکبر کہہ دینا اور اللہ کی بڑائی بیان کر دینا ہی نہیں‘ بلکہ فی الواقع وہ نظام قائم اور برپا کر دینا ہے جس میں تشریعی حیثیت سے بھی اللہ تعالیٰ ہی کو حاکم ِ اعلیٰ اور مقتدرِ مطلق (Absolute Sovereign) تسلیم کیا جائے‘ اسی کا حکم حرفِ آخر ہو‘ اسی کی مرضی تمام مرضیوں پر حاوی ہو جائے اور سیدنا حضرت مسیح علیہ السلام کے بقول جس طرح اس کی مرضی آسمانوں میں پوری ہوتی ہے اسی طرح زمین پر بھی پوری ہو‘ اسی کا جھنڈا تمام جھنڈوں سے بلندتر ہو جائے اور اسی کی بات سب باتوں پر غالب ہو جائے. بفحوائے الفاظِ قرآنی: وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الۡعُلۡیَا ؕ (التوبۃ:۴۰) ’’اور بات تو اللہ ہی کی غالب و بلند ہے‘‘. کبریائی تو واقعتا وہ کبریائی ہے جو عملاً قائم ہو‘ محض کتابوں میں لکھی ہوئی کبریائی تو کوئی کبریائی نہیں اور محض زبان سے کہہ دینے سے تو کسی کی بڑائی اور کبریائی قائم نہیں ہوتی‘ بلکہ بڑائی اور کبریائی تو دراصل وہی ہے جس کو بالفعل بڑائی اور کبریائی تسلیم کیا گیا ہو. چنانچہ ’’تکبیر ِ ربّ‘‘ کا حقیقی مفہوم یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر اس کے احکام‘ اس کی ہدایات اور اس کے اوامر و نواہی کی تعمیل کی جا رہی ہو‘ اس کا عطاکردہ آئین اور اس کے نازل کردہ قوانین عملاً نافذ ہوں‘ اور اس طرح اسے حقیقی طور پر مقتدر تسلیم کیا گیا ہو.