مدنی دَور میں اس بات کو مزید واضح کر دیا گیا کہ نبی اکرمﷺ چونکہ خاتم الانبیاء والمرسلین ہیں‘ لہٰذا دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ اظہارِ دینِ حق اور غلبہ ٔ دین ِ متین بھی نہ صرف آپؐ کے فرائض ِ رسالت میں شامل ہے ‘بلکہ آپﷺ کی بعثت کی غایت ِ اولیٰ ہے. چونکہ تاقیامِ قیامت کوئی اور رسول یا نبی آنے والا نہیں ‘لہٰذا بنی نوعِ انسان پر اتمامِ حجت کے لیے اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی آخری کتاب اور مکمل ہدایت نامے قرآن مجید کی حفاظت کا خود ذمہ لیا وہاں یہ بھی ضروری قرار دیا کہ دین ِ حق بتمام و کمال قائم بھی ہو ‘تاکہ انسان کے لیے کوئی عذر پیش کرنے کا موقع باقی نہ رہے. یہ مضمون مدنی دَور کی تین سورتوں‘ سورۃ التوبہ (آیت ۳۳) سورۃ الفتح (آیت ۲۸) اور سورۃ الصف (آیت ۹) میں وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا:
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ
’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول (محمدﷺ ) کو الہدیٰ (قرآن حکیم) اور دینِ حق (اسلام) دے کر تاکہ وہ اِس (ہدایت اور دین حق) کو پورے کے پورے دین (نظامِ حیات) پر غالب کر دے.‘‘
تو یہ تھا وہ بھاری بوجھ جو نبی اکرمﷺ کے کاندھوں پر رکھا گیا تھا اور ظہورِ نبوت کے وقت صورت حال یہ تھی کہ آپؐ اس وقت پورے عالم ِ انسانی میں اس دعوت کے علمبردار کی حیثیت سے بالکل یکہ و تنہا تھے. دنیا کے ُبت کدہ میں توحید کا غلغلہ بلند کرنا‘ تکبیر ِ ربّ کا نعرہ لگانا‘ خدا کی کبریائی کو عملاً نافذ کرنے کی جدوجہد کرنا‘ اظہار و غلبہ ٔ دین کے لیے کشمکش کرنا‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا داعی بن کر کھڑا ہونا‘ اعمالِ صالحہ اور مکارمِ اخلاق کی دعوت کا علَم بلند کرنا اور ظلم و تعدی‘ جور و ستم اور استبداد و استحصال کے خلاف سینہ سپر ہونا کوئی آسان کام تو نہیں تھا‘ اسی لیے اسے ’’قولِ ثقیل‘‘ سے تعبیر کیا گیا. تکبیر ِ ربّ کی خاطر کھڑے ہونے کا مطلب پورے معاشرے سے اعلانِ جنگ تھا اور حضورﷺ کو حکم تھا کہ قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ (المدثر) یعنی ’’کھڑے ہو جاؤ‘ پس (بنی نوعِ انسان کو) خبردار کرو! اور اپنے ربّ کی بڑائی کا اعلان کرو!‘‘ آپؐ سے فرمایا گیا کہ آپ اس فریضہ ٔ رسالت کی ادائیگی فرماتے رہیں اور ’’وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘‘ اور ’’وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ4‘‘ کے مصداق چاہے مشرکوں اور کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار گزرے. وہ لوگ جن کے مفادات پر ضرب پڑ رہی ہو وہ کتنا ہی راستہ روکیں اور مزاحمت کریں‘ وہ لوگ جن کی جھوٹی مذہبی قیادتیں خطرے میں پڑ گئی ہوں‘ وہ چاہے کتنی مخالفتیں کریں‘ کتنی ہی صعوبتیں پہنچائیں‘ ظلم و تشدد کا کتنا ہی بھیانک مظاہرہ کریں اور جورو تعدّی کے کتنے ہی پہاڑ توڑیں‘ ان تمام مخالفتوں‘ مظالم اور استبداد کے علی الرغم‘ ان تمام موانع کے باوجود اور ان تمام شدائد و مصائب کے باوصف نبی اکرم‘ سرورِ عالم‘ محبوبِ خدا‘ رحمت ٌ للعالمین‘ خاتم الانبیاء والمرسلین محمد ٌ رسول اللہﷺ کے فرائض ِ منصبی میں شامل تھا کہ تکبیر ِ ربّ کا جھنڈا بلند کرنے کے لیے طاغوتی طاقتوں سے پنجہ آزمائی کریں‘ باطل قوتوں سے نبردآ زما ہوں اور اس راستے میں ہر نوع کے شدائد و مصائب اور ہر طرح کے طنز و استہزاء اور طعن و تشنیع کے وار برداشت کریں. یہ وہ بھاری بوجھ اور بھاری ذمہ داری تھی جو محمد ٌ رسول اللہﷺ کے کاندھوں پر ڈالی گئی تھی.