یہی وہ صورتِ حال ہے جس کی آنحضورﷺ نے خبر دی تھی. صحیح مسلمؒ میں حضرت ابوہریرہh سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
بَدَأَ الْاِسْلَامُ غَرِیْبًا وَسَیَعُوْدُ کَمَا بَدَأَ فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَائِ (۱)
’’اسلام کی ابتدا غربت (اجنبیت) کی حالت میں ہوئی تھی اور یہ اسی حالت میں پھر لوٹ جائے گا. تو بشارت ہے ’’غربائ‘‘ کے لیے.‘‘
اردو میں غریب کے معنی مفلس و نادار کے ہوتے ہیں‘ لیکن عربی میں یہ لفظ ’’اجنبی‘‘ کے معنی میں آتا ہے. چنانچہ حدیث کا مفہوم یہ ہو گا کہ اسلام کا آغاز اجنبیت سے ہوا. جیسے ایک اجنبی مسافر اپنے اہل و عیال اور اپنے وطن سے دور رہ کر تنہائی میں زندگی بسر کرتا ہے‘ اسی طرح اسلام بھی ابتدا میں اجنبی اور تنہا تھا ‘یعنی مسلمان بہت کم تھے. ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ پھر غریب یعنی اجنبی ہو جائے گا. کفار‘ ملحدین اور مبتدعین کی کثرت ہو گی‘ اگرچہ نام کے مسلمان کثیرالتعداد ہوں گے لیکن سچے‘ موحد‘ دین دار اور متقی افراد کم سے کم ہوتے چلے جائیں گے. تو اِن قلیل ’’غربائ‘‘ کے لیے (بہشت کی) بشارت اور مبارک باد ہے. مسند احمدؒ کی ایک روایت میں ہے کہ آنحضورﷺ نے ’’غربائ‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
اُنَاسٌ صَالِحُوْنَ فِیْ اُنَاسِ سُوئٍ کَثِیرٍ مَنْ یَعْصِیْھِمْ اَکْثَرُ مِمَّنْ یُطِیْعُھُمْ (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان ان الاسلام بدأ غریباً وسیعود غریباً… ’’برے لوگوں کی کثیر تعداد میں وہ نیک لوگ (غربائ) ہیں کہ جن کی بات ماننے والے کم ہوں اور نافرمانی کرنے والے زیادہ ہوں.‘‘
ایک اور روایت میں حضورﷺ نے خبر دی کہ :
لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلاَّ اسْمُہٗ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْآنِ اِلاَّ رَسْمُہٗ (۱)
’’اسلام میں سے اس کے نام کے سوا کچھ باقی نہ رہے گا اور قرآن میں سے اس کے حروف کے سوا کچھ نہ بچے گا.‘‘
اس حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ روئے زمین پر اسلام کہیں فی الواقع قائم نظر نہیں آئے گا. انسانوں کے کردار اور ان کی شخصیتوں میں اسلام کو فی الواقع کارفرما دیکھنے کے لیے نگاہیں ترسیں گی. قرآن محض ایک مقدس کتاب کی حیثیت سے ریشمی جزدانوں میں لپیٹ کر رکھ دیا جائے گا اور اس نورِ ہدایت سے رہنمائی کی طلب مفقود ہو جائے گی. اس کی تلاوت صرف رسماً اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ حصولِ ثواب یا ایصالِ ثواب کے لیے باقی رہ جائے گی.
آج ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صورتِ حال عملاً پیدا ہو چکی ہے جس کی خبر اِن احادیث ِ مبارکہ میں دی گئی ہے. اس صورتِ حال میں ہم میں سے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنا جائزہ لے کر فیصلہ کرے کہ اگر اسے حضورﷺ سے محبت ہے‘ اگر اسے حضورﷺ سے کوئی مخلصانہ تعلق ہے‘ اگر وہ سمجھتا ہے کہ حضورﷺ کے ساتھ اس کا رشتہ صحیح بنیادوں پر قائم ہے تو کیا اس کا مقصودِ حیات اور نصب العین بھی وہی ہے یا نہیں جو محمد ٌ رسول اللہﷺ کا مقصد ِ بعثت تھا؟ یعنی اعلاءِ کلمۃ اللہ‘ اظہارُ دینِ الحقِّ علی الدّین کُلِّہ اور تکبیر ربّ!اگر ہم میں سے کسی کے مقاصدِ زندگی میں اللہ کے دین کو دنیا میں غالب کرنے کی سعی و ُجہد کرنے اور نورِ توحید سے پورے کرئہ ارضی کو منور کرنے کا عزم شامل نہیں‘ اور اگر وہ آنحضورﷺ کے مشن کی تکمیل میں آپﷺ کا دست و بازو اور آپؐ کا ساتھی نہیں بن رہا تو اس کا آنحضورﷺ سے تعلق درست نہیں‘ جس کی اسے فکر کرنی چاہیے. تو یہ ہے نبی اکرمﷺ کے ساتھ ہمارے صحیح تعلق کی تیسری بنیاد جو ’’وَنَصَرُوْہُ‘‘ کی تشریح میں ہمارے سامنے آتی ہے. (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان ان الاسلام بدأ غریباً وسیعود غریباً…