رسولؐ کی نصرت اللہ کی نصرت ہے

نصرتِ رسولؐ کے حوالے سے قرآنِ مجید کا ایک اہم مقام سورۃ الصف کی آخری آیت ہے جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک قول نقل ہوا ہے کہ آنحضرتؑ نے اپنے حواریوں سے دریافت فرمایا:مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ یعنی ’’اللہ کی راہ میں میرا مددگار کون ہے؟‘‘ تکبیر ِ ربّ‘ دعوتِ توحید‘ تبلیغ ِ دین اور نورِ ہدایت سے دنیا کو منور کرنے کا جو کام میرے سپرد ہوا ہے اس کی جدوجہد میں اب کون ہے جو میرا مددگار بنے؟ کون ہے جو اس راہ میں میرا دست و بازو بنے؟ آنحضرتؑ کے حواریوں کے جواب کو قرآن مجید یوں نقل فرماتا ہے: قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ یعنی ’’حواریوں نے کہا: ہم ہیں اللہ کے مددگار‘‘. حضرت مسیح ؑکے سوال اور حواریوں کے جواب کے الفاظ توجہ طلب ہیں. حضرت مسیحؑ نے دریافت کیا تھا: مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ جواب دیا گیا: نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ جواب میں نصرت کی نسبت بدل گئی. اس نسبت کی تبدیلی میں حکمت یہ ہے کہ رسولؐ کی نصرت اللہ ہی کی نصرت ہے اور فریضہ ٔ رسالت کی ادائیگی میں جو شخص رسولؐ ‘کا حامی‘ مددگار اور دست و بازو بنتا ہے‘ اس راہ میں جانفشانی اور سرفروشی کا مظاہرہ کرتا ہے اور اپنا جان و مال کھپاتا ہے‘ وہ اللہ کے رسولؐ کی نصرت بھی کر رہا ہے اور اللہ کی نصرت میں بھی لگا ہوا ہے. چنانچہ غلبہ و اقامت ِ دین کی جدوجہد کو اللہ تعالیٰ اپنی اور اپنے رسولؐ دونوں کی نصرت سے تعبیر فرماتاہے.