نبی اکرم نے توخطبہ ٔ حجۃ الوداع میں فرمایا تھا کہ قرآن کو مضبوطی سے تھامو گے تو تاابد گمراہ نہیں ہو گے‘ لیکن بدقسمتی سے اسی حبل اللہ سے ہم اپنا تعلق توڑتے چلے گئے. جب حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامنے اور اس کے ساتھ پورے طور پر وابستہ ہوجانے کا نتیجہ گمراہی سے حفاظت قرار پایا تو ظاہر بات ہے کہ اس کو چھوڑنے کا نتیجہ گمراہی کی صورت ہی میں ظاہر ہونا چاہیے. اپنی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں‘ آپ کو واضح طور پر نظر آئے گا کہ جب تک مسلمانوں نے قرآن کو مضبوطی سے تھامے رکھا‘ اسی کو حقیقی معنوں میں اپنا ہادی و راہنما سمجھا‘ اپنے عمل‘ اخلاق اور معاملات کو اسی کے مطابق استوار رکھا تو انفرادی اور اجتماعی‘ ہر سطح پر ان کا رعب اور دبدبہ قائم رہا‘ دنیا میں وہ سربلند اور غالب رہے اور اسلام کا جھنڈا چہار دانگ ِ عالم میں لہراتا رہا‘ لیکن جیسے جیسے وہ کتاب اللہ سے بے پروا اور نور وحکمت کے اس خزینہ سے بے تعلق ہوتے چلے گئے ویسے ویسے ان پر زوال کے سائے گہرے ہوتے گئے اور وہ بتدریج فساد اور انحطاط میں مبتلا ہوتے چلے گئے اور نتیجتاً مغلوب و مقہور ہو گئے. ان کے عقائد خراب ہوئے‘ اعمال بگڑے اور ان میں بدعات اور ہوائے نفس کو دراندازی کا موقع ملا. ان کا اتحاد پارہ پارہ ہوا اور بجائے اس کے کہ وہ بنیانِ مرصوص بنتے‘ بے شمار فرقوں اور قومی و نسلی اور لسانی و جغرافیائی گروہوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے. قرآن سے ہمارا جو حقیقی تعلق ہونا چاہیے آج اسے ہم ترک کر چکے ہیں. ہمارا اس سے تعلق اس کے سوا اور کچھ نہیں رہا کہ ہم اسے محض حصولِ برکت کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں. ہم میں سے گنتی کے چند لوگ اگر اس کی تلاوت کرتے بھی ہیں تو اسے سمجھنے اور اس سے ہدایت اخذ کرنے کے لیے نہیں‘ بلکہ محض حصولِ ثواب کے لیے! بلکہ میں تو کہا کرتا ہوں کہ اب تو حصولِ ثواب کا معاملہ بھی ختم ہوا‘ اب تو صرف ایصالِ ثواب کی مجالس کے لیے قرآن خوانی رہ گئی ہے. گویا اپنے لیے بھی اب ہم تلاوتِ قرآن کے ذریعے حصولِ ثواب کی کوئی خاص حاجت محسوس نہیں کرتے‘ بلکہ اب تو قرآنِ مجید ہمارے نزدیک صرف مردوں کو ثواب پہنچانے کا ایک ذریعہ بن کر رہ گیا ہے!! بقول اقبال: ؎

بآیاتش ترا کارے جز ایں نیست
کہ از یٰسین ِاُو آساں بمیری

سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم کا ایک استغاثہ نقل فرمایا ہے: 
وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰﴾ ’’اور کہا رسولؐ نے کہ اے میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو پس ِ پشت ڈال دیا تھا (نظرانداز کر دیا تھا)‘‘. اگرچہ سیاق و سباق کے لحاظ سے اس آیت میں اصلاً تذکرہ ان کفار کا ہے جن کے نزدیک قرآن مجید سرے سے کوئی قابل ِ التفات چیز تھی ہی نہیں اور جو قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کا کلام اور وحیِ ٔربانی تسلیم ہی نہیں کرتے تھے‘ تاہم قرآن کے وہ ماننے والے بھی اس کے ذیل میں آتے ہیں جو عملاً قرآن کے ساتھ عدمِ توجہ و التفات کی روش اختیار کریں ‘یعنی جو نہ اس کی تلاوت کو اپنے معمولات میں شامل کرتے ہوں‘ نہ اسے اپنے غور و فکر کا موضوع بناتے ہوں اور نہ ہی اسے اپنی زندگی کا لائحۂ عمل بنانے پر آمادہ ہوں. یہاں آیت زیرنظر وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ میں ’’اتباع‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں پیروی کرنا. ہر حکم‘ ہر ہدایت‘ ہر امر اور ہر نہی کی تعمیل کرنا. ہمارا قرآن حکیم کے ساتھ اگر اس نوع کا تعلق ہو گا تو ہم نہ صرف یہ کہ گمراہی سے محفوظ رہ سکیں گے‘ بلکہ نبی اکرم کے ساتھ ہماری نسبت بھی صحیح بنیادوں پر استوار رہ سکے گی!… یہاں یہ بات اب بالکل واضح ہو گئی کہ کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنا‘ اس کو اپنی زندگی کے ہر معاملہ میں ہادی‘ حَکم اور راہنما قرار دینا‘ اس کی تعلیمات پر عمل کرنا‘ اس کی صبح و شام تلاوت کرنا‘ اس میں تدبر اور غور و فکر کرنا‘ اس کو حرزِ جان بنانا‘ اس کا اتباع کرنا‘ یہ ہے نبی اکرم سے ہمارے صحیح تعلق کی چوتھی بنیاد. گویا اگر ہم اس کتاب سے جڑے تو محمد سے جڑ گئے اور اس سے کٹے تو محمد سے کٹ گئے.