خلاصۂ کلام یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ ہمارے تعلق کی چار بنیادوں میں سے اولین بنیاد ’’ایمان‘‘ ہے اور دوسری توقیر و تعظیم‘ جو دراصل ایمان ہی کا فوری لازمی تقاضا ہے. ایمان و تعظیم ہی کا لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ رسول اللہﷺ کی پورے طور پر اطاعت کی جائے اور یہ کہ ہمارے دلوں میں آپﷺ کی محبت خود سے اور دوسرے تمام انسانوں (۱) مصنف ابن ابی شیبہ وابن جریر بحوالہ صحیح الجامع الصغیر للالبانی:۴۴۷۳. سے بڑھ کر ہو. ان دونوں چیزوں کے اجتماع کا نام ’’اتباعِ رسولؐ ‘‘‘ ہے جو فی الاصل مطلوب ہے. نبی اکرمﷺ سے ہمارے صحیح تعلق کی تیسری بنیاد ’’نصرت‘‘ ہے. اس نصرت کی ضرورت نبیؐ کو اپنے کسی ذاتی کام کے لیے نہیں‘ بلکہ اپنے مشن کی تکمیل یعنی غلبہ ٔ دین کی جدوجہد میں انہیں معاون اور دست و بازو درکار ہیں. آنحضورﷺ کی حیاتِ طیبہ میں آپﷺ کے مقصدِ بعثت کی تکمیل ایک درجے میں ہوئی‘ یعنی جزیرہ نمائے عرب کی حد تک. حالانکہ آپﷺ کی بعثت کُل روئے ارضی کے تمام انسانوں کے لیے ہے.
چنانچہ وسیع تر سطح پر دعوت و تبلیغ کا کام اور پورے کرۂ ارضی پر غلبہ ٔ دین کا مشن ہنوز شرمندۂ تکمیل ہے. یہ قرض اُمت کے ذمہ ہے‘ اس مشن کی تکمیل کا بوجھ اُمت کے کندھوں پر ہے. یہ امانت نبی اکرمﷺ کی طرف سے ہر اُس شخص کی طرف منتقل ہوئی ہے جو رسول اللہﷺ کے دامن سے وابستہ ہے اور آپﷺ کا نام لیوا ہے. آنحضورﷺ کے ساتھ ہمارے صحیح تعلق کی چوتھی بنیاد ’’اتباعِ قرآن مجید‘‘ ہے. اس آخری بنیاد میں ہمارے لیے اس طریق کار کی طرف بھی رہنمائی کر دی گئی ہے جس پر کاربند ہو کر دعوت الی اللہ کا فریضہ اور تواصی بالحق کی ذمہ داری ادا کرنی ہے. اس کتاب کو مضبوطی سے تھام کر‘ اس کے داعی‘ علمبردار اور پیغامبر بن کر ہمیں دنیا کے سامنے کھڑے ہونا ہے. رسول اللہﷺ کے مشن کی تکمیل کے لیے جدوجہد کا یہی صحیح طریقہ ہے اور اسی میں دُنیوی و اُخروی فوز و فلاح مضمر ہے.
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ oo اُسوۂ رسول ﷺ سورۃ الاحزاب کے تیسرے رکوع کی روشنی میں