اب چونکہ یہاں نبی اکرم‘ کے اتباع کا مضمون چلا ہے تو ضرورت تھی کہ مثال پیش کر کے بتایا جائے کہ آپ کے اسوۂ حسنہ کا اتباع کرنے والوں کا رویہ کیا ہوتا ہے اور ان کے طرزِعمل میں کیا فرق واقع ہوتا ہے! لیکن قرآن حکیم میں آپ کو یہ اسلوب عام ملے گا کہ استدلال کی کڑیوں کو بسااوقات اس طرح نمایاں نہیں کیا جاتا جس طرح ہم نمایاں کرتے ہیں کہ اس بات کا نتیجہ یہ نکلا یا یہ نکلنا چاہئے. جیسے ہم کہیں گے کہ نبی اکرم  کے اِس اسوۂ حسنہ کی کامل مثال دیکھنی ہو تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زندگیوں کو دیکھو جو اس اسوۂ حسنہ کی پیروی کی مکمل تصویر پیش کرتی ہیں. یہاں یہ بات کہے بغیر اس اسوۂ حسنہ کی پیروی کا ان الفاظ میں ذکر فرما دیا گیا: 

وَ لَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۫ وَ مَا زَادَہُمۡ اِلَّاۤ اِیۡمَانًا وَّ تَسۡلِیۡمًا ﴿ؕ۲۲
’’اور حقیقی مؤمنوں کا حال اُس وقت یہ تھا کہ جب انہوں نے دشمنوں کے لشکروں کو دیکھا تووہ پکار اٹھے کہ یہ وہی بات ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول کی بات بالکل سچی تھی. اور اس صورت حال نے ان کے ایمان اور تسلیم و رضا کی کیفیت کو اور زیادہ بڑھا دیا.‘‘

یہ بات گویا اس اسوۂ حسنہ کی پیروی کا ایک عملی نمونہ اور مظاہرہ ہے.