پھر اس اسوۂ حسنہ کا جو ٹھپا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت و کردار پر لگا ہے اور اس کی جو چھاپ ان کی زندگیوں میں آئی ہے وہ یہ ہے وَ لَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۫ جیسے کوئی مشین یا پریس ہو‘ اس میں لوہے کے ٹکڑے یا کاغذ رکھے ہوں تو جو ڈائی یا بلاک اس میں فٹ ہے‘ اسی کا نقش (impression) ان پر آتا چلا جائے گا .اسی طرح یہ اس ’’اُسوۂ حسنہ‘‘ کا نقش ہے جو صحابہ کرام ث نے قبول کیا ہم چھوٹی چھوٹی سنتوں کا مجموعہ بنا کر اسے ہی کل ’’اُسوہ‘‘ سمجھ بیٹھے ہیں اور ہمارا حال (الا ماشاء اللہ) یہ ہو گیا ہے کہ مچھر چھانے جا رہے ہیں اور سموچے اونٹ نگلے جا رہے ہیں. یہ وہ تمثیل ہے جو علمائے یہود کے اس طرزِ عمل پر حضرت مسیح علیہ السلام نے دی تھی کہ مہماتِ دین اور مقتضیاتِ دین کی طرف سے تو انہوں نے آنکھیں بالکل پھیر لی تھیں یا بند کر رکھی تھیں اور جزئیات و فروعات کو وہ کل دین سمجھ بیٹھے تھے اور اسی کی تدریس و تعلیم میں مصروف رہتے تھے اور اس ضمن میں ذرا سی کمی بیشی پر لوگوں کو سرزنش بھی کرتے تھے اور ان کی تکفیر بھی کرتے تھے. حضرت مسیحؑ کی بیان کردہ یہ تمثیل دنیا کے ہر کلاسیکل ادب میں ہمیشہ ہمیش کے لیے ضرب المثل بن گئی ہے میں پھر عرض کر دوں کہ خدارا میری اس گفتگو کا ہرگز یہ مطلب نہ سمجھ لیجئے گا کہ میں چھوٹی چھوٹی سنتوں کی تحقیر کر رہا ہوں یا ان کی اہمیت گھٹا رہا ہوں‘ معاذ اللہ! نبی اکرم کی ہر سنت‘ چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو‘ واجب الاتباع ہے. ان سنتوں کا اہتمام و التزام اگر اس ’’اُسوہ‘‘ کے ساتھ ہو جو اِس سورئہ مبارکہ کے مطالعے کے ذریعے ہمارے سامنے آ رہا ہے تو سونا ہے‘ اس کے بغیر ہو تو تانبا ہے‘ جس کی سونے کے مقابلے میں کوئی قدر و قیمت نہیں. اس لیے کہ اگر نسبت و تناسب درست نہیں ہو گا تو صحیح نتیجہ کیسے برآمد ہو گا! پھر تو وہی طرزِعمل وجود میں آئے گا جو میں حضرت مسیح ؑکی تمثیل کے حوالے سے عرض کر چکا ہوں.

اس ’’اُسوہ‘‘ کی چھاپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شخصیتوں پر جوپڑی تو کیفیت یہ ہو گئی کہ جب انہوں نے ان لشکروں کو دیکھا جو اُمڈ اُمڈ کر اِدھر سے بھی آ رہے تھے اور اُدھر سے بھی آ رہے تھے تو وہ خوفزدہ نہیں ہوئے‘بلکہ وہ کہنے لگے کہ یہ حالات تو پیش آنے والے تھے‘ جن کا ہم سے اللہ اور اس کے رسول‘ نے وعدہ کیا تھا.خیبر سے کیل کانٹے سے لیس یہودیوں کے لشکر بھی آ گئے. مکہ سے ابوسفیان ایک لشکر جرار لے کر آ گئے . مشرق سے غطفان کے قبائل آ گئے.آیت نمبر ۱۰ میں ان تمام حالات کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور پھر آیت نمبر۱۱ میں فرمایا گیا: ھُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالاً شَدِیْدًا ’’یہ وہ وقت تھا جب اہل ایمان خوب آزمائے گئے اور بری طرح ہلا مارے گئے‘‘. یہ نہایت کڑا امتحان تھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے صبر و ثبات کا. یہ آزمائش تھی ان کی استقامت اور استقلال کی!سردی کا موسم تھا. پھر ہر چہار طرف سے حملہ آوروں کے لشکر پر لشکر جمع ہو گئے تھے جن کی مجموعی تعداد بارہ ہزار تک پہنچ گئی تھی اور مسلمان خندق کے اِس پا رمحصور تھے. دوسری طرف کیفیت یہ تھی کہ برابر خبریں مل رہی تھیں کہ مدینہ کے باہر جنوب مغرب میں بنوقریظہ کا جو یہودی قبیلہ آباد تھا اور جس سے معاہدہ تھا کہ وہ مدینہ پر حملے کی صورت میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے‘ وہ ساتھ دینے کے بجائےنقضِ عہد پر تلے بیٹھے ہیں ‘اور کچھ پتہ نہیں کہ وہ پیچھے سے کب مدینہ پر حملہ آور ہو جائیں ‘جہاں نہ صرف دفاع کا کوئی انتظام نہیں تھابلکہ مدینہ میں صرف خواتین اور بچے موجود تھے. ان حالات میں اہلِ ایمان کی کیفیات کیا تھیں اور ان کی زبان سے کیا الفاظ نکلے! یہ کہ: 

قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ
’’انہوں نے کہا کہ اسی کا تو وعدہ کیا تھا اللہ نے اور اس کے رسول ( ) نے اور اللہ اور اس کے رسول نے بالکل سچ کہا تھا.‘‘