تعین کے ساتھ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ان مؤمنین صادقین کے اس قول کے وقت قرآن مجید کا کون سا مقام اور کون سی آیت ان کے سامنے ہو گی ویسے قرآن حکیم میں یہ مضمون مختلف اسالیب سے بار بار آیا ہے کہ ہم اہل ایمان کا امتحان لیتے ہیں‘ ہم انہیں آزماتے ہیں‘ ہم ایمان کے دعوے داروں کو آزمائیں گے. سورۃ العنکبوت ‘ جو مکی سورت ہے ‘اس کے پہلے رکوع میں یہ مضمون خوب واضح طور پر آیا ہے اور یہ رکوع ہمارے منتخب نصاب میں شامل ہے. فرمایا:

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ ﴿۲﴾وَ لَقَدۡ فَتَنَّا الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَلَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۳﴾ (آیات : ۲‘ ۳)
’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں .اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں!‘‘

پھر سورۃ البقرۃ جو مدنی سورت ہے‘ کی آیت ۲۱۴ میں فرمایا:

اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تَدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَاۡتِکُمۡ مَّثَلُ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِکُمۡ ؕ مَسَّتۡہُمُ الۡبَاۡسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلۡزِلُوۡا حَتّٰی یَقُوۡلَ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ مَتٰی نَصۡرُ اللّٰہِ ؕ 
’’پھرکیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا‘ حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزریں‘ مصیبتیں آئیں‘ ہلا مارے گئے ‘ حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟‘‘

معلوم ہوا کہ قرآن حکیم کی متعدد آیات کے ذریعے آزمائش و امتحان سے گزارنے کی اس سنت ثابتہ سے اہل ایمان کو بہت پہلے آگاہ کر دیا گیا تھا کہ رسول اللہ‘ کے ساتھیوں کو آزمائش و ابتلاء کی بھٹیوں سے گزارا جائے گا تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی جدا کر دیا جائے البتہ میرے خیال میں ھٰذَا مَاوَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ کے پس منظر میں سورۃ البقرۃ کی یہ آیات آتی ہیں:

وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙالَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۶﴾ؕاُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ۟ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾ (آیات ۱۵۵ تا ۱۵۷)
’’اور ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے کسی قدر خوف و خطر‘ تنگی‘ فاقہ کشی اور جان ومال اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے. ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘ انہیں خوشخبری دے دو. ان پر ان کے ربّ کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی‘ اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی ‘اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں.‘‘

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غزوۂ احزاب کی کیفیات سے ان آیات کے ذریعے اہل ایمان کو پیشگی مطلع کر دیا گیا تھا. ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ کے پس منظر میں یہ آیات بہت نمایاں ہیں . اہل ایمان کی نگاہیں ان پر جمی ہوئی تھیں اور وہ شعوری طور پر جانتے بھی تھے اور منتظر بھی تھے کہ سخت سے سخت آزمائشیں‘ امتحانات اور ابتلاء ات آنے والے ہیں. میں سیرتِ مطہرہ کی تقاریر میں یہ بات کئی مرتبہ عرض کر چکا ہوں کہ شخصی طور پر ’’یومِ طائف‘‘ نبی اکرم : کے لیے سب سے کٹھن اور سب سے سخت دن تھا . حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جب دریافت کیا کہ آپ پر یومِ اُحد سے زیادہ کوئی سخت دن گزرا ہے تو آپ نے فرمایا کہ ’’ہاں‘ مجھ پر جو سخت ترین دن گزرا ہے وہ یومِ طائف تھا‘‘. چنانچہ شخصی اعتبار سے حضور کے لیے یوم طائف ابتلاء و آزمائش کا نقطۂ عروج(climax) ہے‘جبکہ بحیثیت مجموعی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی جماعت کے لیے غزوۂ احزاب آزمائش کی چوٹی ہے جس کا نقشہ پچھلے رکوع میں یوں کھینچا گیا ہے کہ: ھُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالاًشَدِیْدًا غور کیجئے کہ یہاں بھی وہی انداز ہے جو حضرت ابراہیم ں کے آخری امتحان یعنی حضرت اسمٰعیل ؑکو ذبح کرنے سے متعلق وارد ہوا ہے کہ وَ نَادَیۡنٰہُ اَنۡ یّٰۤاِبۡرٰہِیۡمُ ﴿۱۰۴﴾ۙقَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا ۚ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۰۵﴾اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الۡبَلٰٓـؤُا الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۰۶﴾ (الصّٰفّٰت :۱۰۴.۱۰۶میں سمجھتا ہوں کہ ’’شاباش‘‘ کا اس سے بہتراسلوب ممکن نہیں ہے کہ خود ممتحن پکار اٹھے کہ امتحان فی الواقع سخت تھا. وہی انداز اور اسلوب یہاں ہے کہ ھُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَزُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا اللہ تعالیٰ خود فرما رہا ہے کہ ہم نے اہلِ ایمان کا کٹھن امتحان لے لیا اور ان کو خوب جھنجوڑ لیا.

جب اہل ایمان اس امتحان اور آزمائش میں ثابت قدم نکلے تو دشمنانِ دین کے جو لشکر بادلوں کی طرح اُمڈ کر آئے تھے وہ ایسے چھٹ گئے جیسے تھے ہی نہیں. غزوۂ احد میں تو ستر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہوئے تھے لیکن یہاں کھلے مقابلے کی نوبت نہیں آئی. البتہ ایک دو مرتبہ خندق میں کود جانے والے کفار سے کچھ مبارزتیں ہوئیں اور تیراندازی سے چند صحابہؓ شہید ہوئے جن کی تعداد چھ سات سے زیادہ نہیں. اس غزوے میں باقاعدہ کھلا مقابلہ تو ہوا ہی نہیں . البتہ محاصرہ بڑا شدید اور خطرہ بڑا مہیب تھا کہ محاصرے کی طوالت‘ دشمنانانِ اسلام کے لشکر کی تعداد ‘پھر سردی کا عالم اور سامانِ خورد و نوش کی قلت کی وجہ سے خندق میں موجود صحابہ کرامؓ کو سخت تکالیف و مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا‘ جس کا نقشہ آیت نمبر ۱۰ میں بایں الفاظ کھینچا گیا ہے کہ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ ’’جب خوف کی وجہ سے آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے مُنہ کو آنے لگے.‘‘ تو اِن حالات میں مؤمنینِ صادقین کی دلی کیفیات اور ان کے صبر و ثبات کا نقشہ اس آیت میں ہمارے سامنے یہ آیا کہ:

وَ لَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۫ وَ مَا زَادَہُمۡ اِلَّاۤ اِیۡمَانًا وَّ تَسۡلِیۡمًا ﴿ؕ۲۲﴾ (آیت ۲۲)
’’اور حقیقی اہل ایمان کا حال اُس وقت یہ تھا کہ جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا‘اور اللہ اور اس کے رسول کی بات بالکل سچی تھی . اور اس واقعہ نے ان کے ایمان اور تسلیم و رضا کی کیفیات میں مزید اضافہ کر دیا.‘‘

اس کے برعکس منافقین اوروہ لوگ جو ضعفِ ایمان کا شکار تھے ‘ان کا کیا حال تھا؟ فوری تقابل کے لیے ان کی دلی کیفیات سے متعلق آیات بھی دیکھ لیجئے:

وَ اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اِلَّا غُرُوۡرًا ﴿۱۲﴾وَ اِذۡ قَالَتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ یٰۤاَہۡلَ یَثۡرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمۡ فَارۡجِعُوۡا ۚ وَ یَسۡتَاۡذِنُ فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمُ النَّبِیَّ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّ بُیُوۡتَنَا عَوۡرَۃٌ ؕۛ وَ مَا ہِیَ بِعَوۡرَۃٍ ۚۛ اِنۡ یُّرِیۡدُوۡنَ اِلَّا فِرَارًا ﴿۱۳﴾وَ لَوۡ دُخِلَتۡ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَقۡطَارِہَا ثُمَّ سُئِلُوا الۡفِتۡنَۃَ لَاٰتَوۡہَا وَ مَا تَلَبَّثُوۡا بِہَاۤ اِلَّا یَسِیۡرًا ﴿۱۴﴾وَ لَقَدۡ کَانُوۡا عَاہَدُوا اللّٰہَ مِنۡ قَبۡلُ لَا یُوَلُّوۡنَ الۡاَدۡبَارَ ؕ وَ کَانَ عَہۡدُ اللّٰہِ مَسۡـُٔوۡلًا ﴿۱۵(آیات۱۲ تا ۱۵)

’’اور یاد کرو وہ وقت جب منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا‘ صاف صاف کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو وعدے ہم سے کیے تھے وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھے. جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا کہ اے یثرب کے لوگو! تمہارے لیے اب ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں ہے‘ پلٹ چلو. جب ایک فریق یہ کہہ کر نبیؐ سے رخصت طلب کر رہا تھا کہ ہمارے گھر خطرے میں ہیں‘ حالانکہ وہ خطرے میں نہ تھے‘ دراصل وہ (محاذِ جنگ سے) بھاگنا چاہتے تھے. اگر شہر کے اطراف سے دشمن گھس آئے ہوتے اور اس وقت انہیں فتنے کی طرف دعوت دی جاتی تو یہ اس میں جا پڑتے اور مشکل ہی سے انہیں شریک فتنہ ہونے میں کوئی تامل ہوتا. ان لوگوں نے اس سے پہلے اللہ سے عہد کیا تھا کہ پیٹھ نہ پھیریں گے ‘اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کی بازپرس تو ہونی ہی تھی‘‘.

اس امتحان و آزمائش کا نتیجہ یہ نکلا کہ منافقین اور مؤمنین صادقین علیحدہ علیحدہ نمایاں ہو گئے. غزوۂ اُحد کے موقع پر جو منافقین راستے ہی سے پلٹ گئے تھے انہوں نے عہد کیا تھا کہ اگر آئندہ آزمائش کا کوئی موقع آیا تو وہ ہرگز پیٹھ نہ پھیریں گے. غزوۂ خندق میں جب اُحد سے بھی بڑا خطرہ سامنے آیا تو ان منافقین کا پول کھل گیا اور واضح ہوگیا کہ یہ لوگ اپنے اس عہد میں کتنے مخلص اور سچے تھے.