ایمان میں کمی بیشی امامِ اعظمؒ اور امام بخاریؒ کا موقف

اب دیکھئے کہ یہ آیت اس بات کے لیے بھی نص ہو گئی کہ ایمانِ حقیقی بڑھتا بھی‘ہے. یہاں کسی ابہام کے بغیر فرمایا گیا ہے کہ اس صورتِ واقعہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ مؤمنین صادقین کے ایمان میں اور اضافہ ہو گیا. ان کی جو کیفیت تسلیم و رضا تھی‘ وہ بھی بڑھ گئی اور ان کا رویہ یہ ہو گیا کہ ؏ ’’سر تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے‘‘. ایمان میں اضافے کا ذکر سورۂ آل عمران کی آیت ۱۷۳ میں بھی غزوۂ احد پر تبصرے کے دوران آیا ہے کہ: اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا ’’(وہ مؤمنین صادقین) جن سے لوگوں (مراد ہیں منافقین) نے کہا کہ تمہارے خلاف بڑا لشکر آیا ہے لہذا ان سے ڈرو‘ تو یہ سن کر ان کاایمان اور بڑھ گیا‘‘. یہاں زَادَھُمْ ایمانِ حقیقی اور کامل سپردگی میں اضافے کے لیے آیا ہے. لہذا ازروئے قرآن ایمانِ حقیقی کے بڑھنے کی نصوص ہمارے سامنے آ گئیں اور جو چیز بڑھ سکتی ہے‘ وہ گھٹ بھی سکتی ہے.

ایمان کے بڑھنے اور گھٹنے کا موضوع ہمارے منتخب نصاب میں ایمان حقیقی کے مباحث کے سلسلے میں بڑی تفصیل سے آتا ہے. یہاں میں اجمالاً وضاحت پر اکتفا کروں گا .درحقیقت ایک قانونی ایمان ہے جو اِس دنیا میں ہمارے ایک دوسرے کو مسلمان سمجھے جانے کا سبب یا ذریعہ بنتا ہے. اس قانونی ایمان میں عمل سرے سے زیربحث نہیں آتا ‘لہذا یہ قانونی ایمان نہ بڑھتا ہے‘ نہ گھٹتا ہے. اس کے بارے میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول بالکل درست ہے کہ اَلْاِیْمَانُ قَوْلٌ لَا یَزِیْدُ وَلَایَنْقُصُ ’’ایمان قول و قرار کا نام ہے ‘جو نہ بڑھتا ہے نہ گھٹتا ہے.‘‘ اس ایمان کا دارو مدار اقرار باللسان پر ہے اور تصدیقِ قلبی اس میں زیرِ بحث آ ہی نہیں سکتی. اس لیے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا آلہ نہیں ہے کہ کسی کے دل میں اتار کر دیکھ لیا جائے کہ ایمان حقیقی موجود ہے یا نہیں! اورکوئی جھوٹ موٹ کلمہ پڑھ رہا ہے یا سچ پڑھ رہا ہے؟ یہ قانونی ایمان کسی شخص کے اسلامی معاشرے کا فرد اور کسی اسلامی ریاست کا شہری بننے کی بنیاد بنتا ہے اور یہ ایمان نہ گھٹتا ہے اور نہ بڑھتا ہے.جبکہ ایک ہے ایمانِ قلبی‘ یعنی ’’تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘ والا ایمان‘ جو دل میں ہوتا ہے. قانون اس سے بحث نہیں کرتا‘ لیکن آخرت میں ساری بحث اسی سے ہو گی. اللہ کو کسی کا قانونی مسلمان ہونے یا نہ ہونے کی کوئی پرواہ نہیں ہے‘ یہ دُنیوی معاملہ ہے ‘دنیا میں اس بنیاد پر معاملات طے ہو چکے.اللہ کی نگاہ تو تمہارے دلوں پر ہے کہ یہاں ایمان و یقین ہے یا نہیں! اس ضمن میں سورۃ الحجرات میں فرمایا کہ وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ’’ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے‘‘. قلبی اور حقیقی ایمان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ گھٹتا بھی ہے بڑھتا بھی ہے. اس دل والے ایمان میں ’’عمل‘‘ ایک جزوِ لازم بن جائے گا. اس لیے کہ دل میں یقین ہو گا تو عمل میں اس کا ظہور لازماً ہو گا. اس اعتبار سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول صد فی صد درست ہے کہ اَلْاِیْمَانُ قَوْلٌ وَّعَمَلٌ یَزِیْدُ وَیَنْقُصُ. یعنی ایمان قول و عمل کے مجموعے کا نام ہے ‘یہ بڑھتا بھی ہے اور گھٹتا بھی ہے.یہ ضمنی بحث وَمَا زَادَھُمْ اِلاَّ اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا کے ضمن میں آ گئی.’’اور اس چیز نے نہیں بڑھایا ان میں مگر ایمان اور تسلیم کو‘‘.

یہاں ایمان سے مراد حقیقی ایمان ہے جو ایک قلبی کیفیت ہے اور ’’تسلیم‘‘ سے مراد ہے سپردگی و حوالگی. اسلام اور تسلیم میں کوئی خاص فرق نہیں ہے. اسلام بابِ افعال ہے اور تسلیم باب تفعیل ہے. بابِ افعال کا خاصہ ہے کہ کوئی کام ایک دم ہو جائے ‘لہذا اسلام کا مطلب ہو گافوری طور پر خود کو کسی کی سپردگی میں دے دینا اور باب تفعیل کسی کام کے پے در پے اور مسلسل ہونے کی خاصیت کے اظہار کے لیے آتا ہے.چنانچہ تسلیم کا مفہوم ہو گا ہر دم ‘ہر وقت اور مسلسل اس سپردگی کی کیفیت کو قائم و برقرار رکھنا. جیسے ہی کسی نے اقرار کیا کہ اَشْھَد اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وہ دفعتہ کفر کی سرحد سے اسلام کی سرحد میں آ گیا. اس نے ایک پالے سے دوسرے پالے میں یکایک چھلانگ لگا دی اور وہ مسلمان ہو کر مسلم معاشرے کا فرد اور ایک مسلم ریاست کا شہری بن گیا. اس کو ایک مسلمان کے تمام حقوق حاصل ہو گئے.اور یہ بالکل برابر ہوں گے‘ ان میں کوئی کمی بیشی اس دنیا میں نہیں ہوگی. اسلام کی اس کیفیت کو وثوق حاصل ہو جائے گا اور اس کے طرزِعمل میں مسلسل اطاعت شعاری اور فرماں برداری اور سپردگی کا مظاہرہ ہوتا رہے گا تو یہ تسلیم ہے. یہ مصرع اسی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے کہ ؏ ’’سرتسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے! ‘‘ اور فارسی کا یہ شعر بھی اسی کیفیت کا مصداق ہے کہ ؎

نہ شود نصیب دشمن کہ شود ہلاکِ تیغت
سرِدوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی!