یہاں یہ بھی سمجھ لیجئے کہ ہمارے دین میں صدق کا کیا مقام اور مرتبہ ہے. آیۂ بر میں نیکوکاروں کے متعدد اوصاف بیان کر کے آخر میں فرمایا گیا:

وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۷
’’(حقیقی نیکوکار تو وہ لوگ ہیں )جو تنگی اور مصیبت کے وقت اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کرنے والے ہوں ‘یہی لوگ (اپنے دعوائے ایمان میں) سچے ہیں‘ اور یہی لوگ درحقیقت متقی ہیں.‘‘

سورۃالتوبہ کی آیت ۱۱۹ میں فرمایا:

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ﴿﴾
’’اے اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سچے لوگوں میں شامل ہو جاؤ.‘‘

صدیقین کے اوصاف میں سے چوٹی کے دو اوصاف یہ ہیں کہ وہ ہر حال میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والے اور مصیبت و ابتلاء میں اور میدانِ قتال و وَغا میں استقامت و مصابرت کا مظاہرہ کرنے والے ہوتے ہیں. اسی لئے سورۃ النساء کی آیت ۶۹ میں منعم علیہم کی فہرست میں نبیین کے بعد صدیقین ہی کا رتبہ اور مقام بیان کیا گیا ہے. 

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ
’’جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے‘ یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین.‘‘

اس صدق کی بنیاد یہی ہے کہ قول میں سچے ہوں‘ وعدوں میں سچے ہوں‘ عمل میں سچے ہوں اگر راست گفتاری نہیں ہے‘ راست بازی نہیں ہے‘ راست کرداری نہیں ہے تو نہ تقویٰ ہے اور نہ نیکی ہے. اس کے بغیر دین کا ڈھانچہ بے جان اور غیر مؤثر ہو جاتا ہے. ایسا معاشرہ بے وقعت و بے روح ہوتا ہے. یہ اپنے پیروں پر کھڑا ہی نہیں ہو سکتا. ایسے معاشرے کے افراد صرف نمائشی پہلوان ہوتے ہیں. ہمارے معاشرے میں بھی دین محض بطورِ نمائش شامل ہے‘ اس کے سوا کچھ نہیں ہے. اس لئے کہ یہ معاشرہ صدق کی دولت سے تہی دامن اور تہی دست ہے. یہ پونجی اور یہ سرمایہ اس کے پاس سے نکل چکا ہے اور اس پہلو سے وہ بالکل دیوالیہ ہوچکا ہے. الا ماشاء اللہ‘ کچھ لوگ ہوں گے جن کے پاس کچھ پونجی موجود ہو.حالانکہ ہمارے دین کا شدید ترین مطالبہ یہ ہے کہ جو کہہ رہے ہو اس کو عمل سے سچ کر دکھاؤ جو تمہارے اندر ہے وہی باہر لاؤ.چنانچہ سورۃ الصف میں ‘جو ہمارے منتخب نصاب میں شامل ہے ‘دو ٹوک انداز میں فرما دیا گیا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۳﴾اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴

’’اے اہلِ ایمان! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ حرکت سخت ناپسندیدہ اور بیزارکن (اوراس کے غضب کا باعث) ہے کہ تم وہ بات کہو جس کے مطابق تمہارا عمل نہیں. اللہ کو تو وہ اہلِ ایمان محبوب ہیں جو اُس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر مقابلہ کرتے ہیں جیسے وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں.‘‘

یہ ہے دراصل صدق کی بنیاد صدق قول کا بھی ہے‘ صدق عمل کا بھی ہے‘ صدق انسان کی سیرت و کردار کا بھی ہے. صدق بوقت ضرورت اللہ کی راہ میں نقد جان کا نذرانہ پیش کرنا بھی ہے. اب ان آیات میں صدق کی اہمیت دیکھئے. فرمایا:

مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا ﴿ۙ۲۳﴾لِّیَجۡزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیۡنَ بِصِدۡقِہِمۡ وَ یُعَذِّبَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ اِنۡ شَآءَ اَوۡ یَتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿ۚ۲۴﴾ 

’’اہلِ ایمان میں وہ باہمت لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا ہے. ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی اپنی باری کا منتظر ہے. (یہ اس لئے ہوا) تاکہ اللہ مؤ منین صادقین کو ان کی سچائی کی جزا دے.اور منافقین کو اگر چاہے تو سزا دے یا اگر چاہے تو (ان کو توبہ کی توفیق عطا فرما دے اور )ان کی توبہ قبول فرما لے. بے شک اللہ غفور و رحیم ہے‘‘.