بنو قریظہ کی غداری اور نعیم بن سعودرضی اللہ عنہ کی حکمت عملی

غزوۂ احزاب میں سب سے زیادہ تشویشناک صورت بنوقریظہ کی اس غداری سے بنی تھی. اس لئے کہ نہ صرف اسلامی لشکر کا عقب محفوظ نہیں رہا تھا بلکہ وہ گڑھیاں اور مدینہ منورہ کا شہر بھی محفوظ نہیں رہے تھے جہاں صرف عورتیں اور بچے تھے. وہ تو اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ قبیلہ غطفان کی شاخ اشجع سے ایک صاحب نعیم بن سعودؓ مسلمان ہو کر حضور کی خدمت میں خفیہ طور پر حاضر ہوئے. انہوں نے عرض کیا کہ میرے اسلام قبول کرنے کا ابھی کسی کو علم نہیں ہے‘ آپؐ اِس وقت جو چاہیں مجھ سے خدمت لے سکتے ہیں. حضور نے فرمایا کہ اگر ممکن ہو تو تم جا کر ان اَحزاب اور بنوقریظہ میں پھوٹ ڈالنے اور عدم اعتماد پیدا کرنے کی کوئی تدبیر کرو. چنانچہ انہوں نے یہ حکمتِ عملی اختیار کی کہ وہ پہلے بنوقریظہ کے پاس گئے جہاں ان کا پہلے ہی سے آنا جانا تھااور وہ وہاں متعارف تھے اور ان کے سرداروں سے کہا کہ ’’قریش اور غطفان کے قبائل تو محاصرے کی طوالت سے تنگ آ کر بغیر لڑے بھڑے واپس بھی جا سکتے ہیں‘ ان کا تو کچھ نہیں بگڑے گا‘ لیکن تم کو یہیں رہنا پڑے گا. ایسی صورت میں تمہارا کیا حشر ہو گا؟ اس کو بھی سوچ لو. میری رائے ہے کہ تم اُس وقت تک کوئی اقدام نہ کرنا جب تک باہر سےآئے ہوئے ان قبائل کے چند سربرآوردہ لوگ تمہارے پاس بطور یرغمال نہ ہوں.‘‘ بنو قریظہ کے دل میں یہ بات اتر گئی اور انہوں نے متحدہ محاذ کے قبائل سے یہ مطالبہ کرنے کا فیصلہ کر لیا. پھر یہ صاحب قریش اور غطفان کے سرداروں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ ’’میں بنو قریظہ کے پاس سے آ رہا ہوں‘ وہ کچھ متذبذب معلوم ہوتے ہیں. ہو سکتا ہے وہ تم سے یرغمال کے طور پر چند آدمی طلب کریں اور پھر انہیں محمد ( ) کے حوالے کر کے ان کے ساتھ ازسرنو اپنا معاملہ استوار کر لیں‘ اس لئے ان کے ساتھ ہوشیاری سے نمٹنے کی ضرورت ہے. سردارانِ لشکر یہ بات سن کر ٹھٹھک گئے. انہوں نے بنو قریظہ کو کہلا بھیجا کہ ہم اس طویل محاصرے سے تنگ آ گئے ہیں‘ اب ایک فیصلہ کن معرکہ ہونا ضروری ہے. کل تم اپنی سمت سے بھرپور حملہ کرو‘ ادھر سے ہم یکبارگی مسلمانوں پر یلغار کر دیں گے. بنوقریظہ نے جواب میں کہلا بھیجا کہ جب تک آپ اپنے چند چیدہ آدمی بطورِ یرغمال ہمارے حوالے نہیں کریں گے‘ ہم جنگ کا خطرہ مول نہیں لیں گے. انہوں نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا. اس طرح دونوں فریق اپنی اپنی جگہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ نعیم کی بات سچی تھی. نتیجتاً نعیم بن سعودؓ کی یہ حکمت عملی کامیاب ثابت ہوئی اور دشمنوں کے کیمپ میں بداعتمادی اور پھوٹ پڑ گئی.