اس انقلابی جدوجہد کے ضمن میں آپ کو سیرتِ مطہرہ میں سب سے اوّل اورنمایاں چیز یہ نظر آئے گی کہ یہ ساری جدوجہد خالص انسانی سطح (Human Level) پر کی گئی ہے. کسی بھی انقلاب میں جو مراحل آتے ہیں‘ وہ سب کے سب انقلاب محمدیؐ میں بھی آئے ہر انقلابی دعوت کو تین مراحل سے لازماً سابقہ پیش آتا ہے:

پہلا مرحلہ ہے ’’دعوت و تربیت‘‘. خالص دینی اصطلاحات کے اعتبار سے یہ بات اس طرح کہی جائے گی کہ ’’دعوتِ ایمان اور تزکیہ‘‘. یعنی لوگوں کو اللہ کی آیات سنانا اور قبول کرنے والوں کا تزکیہ کرنا. ازروئے الفاظ قرآنی یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ (البقرۃ:۱۵۱عام دُنیوی لحاظ سے اس کی تشریح یوں ہو گی کہ کوئی انقلابی فکر‘ کوئی نظریہ‘ کوئی فلسفہ اور کوئی نقطۂ نظر ہو گا‘ اس کو پہلے پھیلایا جائے گا. جو اس دعوت کو قبول کریں گے تو اس دعوت کے اعتبار سے پھر ان کی تربیت کی جائے گی. بقول علامہ اقبال مرحوم ؎

خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیر بے زنہار تو!

پختہ ہوئے بغیر کام نہیں چلے گا. البتہ واضح رہے کہ انقلابی کارکنوں کی تربیت دعوت کے لحاظ سے ہو گی مثلاً جو لوگ کمیونزم کے نظرئیے کو قبول کر لیں گے‘ ان کی تربیت کے لئے کوئی اور نظام ہو گا اس میں یہ نہیں ہو گا کہ نماز پڑھو‘ روزہ رکھو‘ زکو ٰۃ ادا کرو ‘حج کرواور اپنے تمام معاملات کو اللہ اور اس کے رسول  کی تعلیمات و احکام کے تابع رکھو. نہ اس میں یہ ہو گا کہ اپنی نظر اور دل کو پاک صاف رکھو. کھلی آزادی ہو گی کہ جس طرح چاہو اپنی تسکینِ ہوس کا سامان کر لو. جاؤ عیش کرو‘ شادی کاکیا سوال ہے‘ اس کے بغیر بھی جنسی ضرورت کو کامریڈ مَرد اور کامریڈ عورتیں مل جل کر پوری کریں. ان کی تربیت میں طبقاتی نفرت و عداوت پیدا کی جائے گی. مزدور اور سرمایہ دار کا امتیاز اجاگر کر کے ان کو آپس میں لڑانے کی سبیل پیدا کی جائے گی . ان کو تخریب کاری کی ٹریننگ دی جائے گی. تربیت کا نظام ہر انقلابی دعوت میں ہوتا ہے لیکن اس کا حدود اربعہ مختلف ہوتا ہے‘ اس کے صغریٰ کبریٰ اور متعلقات جدا ہوتے ہیں. وہ اس نقطۂ نظر کے مطابق ہوں گے کہ اصل کام کیا کرنا ہے اور کونسا انقلاب لانا پیش نظر ہے. سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہے تو اس کی تربیت کی نوعیت وہ گی جس کا میں نے ابھی ذکر کیا. اسلامی انقلاب لانا ہے تو اس کی تربیت کی نوعیت دوسرے انقلابات کی تربیت کے معاملے میں بالکل جداگانہ نوعیت کی ہو گی. اس میں اللہ پر‘ توحید کے التزام اور شرک سے اجتناب کے ساتھ‘ ایمان لانا ہو گا. اس میں یوم آخرت پر‘ اس کی کل جزئیات کے ساتھ‘ ایمان لانا ہو گا. اس میں رسالت پر‘ اطاعت و محبت کلی کے ساتھ‘ ایمان لانا ہو گا بہرحال ’’دعوت اور تربیت‘‘ ان دونوں الفاظ کو ایک جوڑے کی حیثیت سے بریکٹ کر لیجئے. نبی اکرم نے بھی یہ دونوں کام کئے اور بھرپور طریقے پر کئے.

دوسرا مرحلہ ہے ’’تنظیم‘‘اور اسی کے ساتھ جڑا ہوا لفظ ہے ’’ہجرت‘‘یعنی آپس میں جڑو اور دوسروں سے کٹو. اگر کسی سے کٹو گے تو کسی سے جڑو گے بھی جناب محمد رسول اللہ  سے جڑو گے تو ظاہر ہے کہ اپنے گھر والوں سے کٹو گے. سیدھی سادھی بات ہے‘ اس میں کوئی الجھاؤ نہیں. یہاں یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ دونوں رشتے ساتھ چل سکیں. یہاں 
credit ہو گا تو debit بھی ہو گا. اگر کسی سے کٹنے کو تیار نہیں تو پھر کسی اور سے جڑ بھی نہیں سکتے.چنانچہ آپ ان دو الفاظ تنظیم اور ہجرت کو اپنے ذہن میں یکجا کر لیجئے.

تیسرا مرحلہ ہے جہاد اور قتال جہاد کو میں یہاں Passive Resistance کے معنی میں لے رہا ہوں. جدوجہد ہے‘ دعوت و تبلیغ ہے‘ مشرکانہ عقائد پر تنقید ہے. اس کے ردّعمل میں مشرکین کی طرف سے جو روستم ہے‘ ایذا رسانی ہے‘ تعدّی ہے‘ مصائب ہیں لیکن ابھی ہاتھ نہیں اٹھ رہا. حکم ہے کہ ماریں کھاؤ مگر مدافعت میں بھی اپنا ہاتھ نہ اٹھاؤ.تمہیں دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیا جائے توبھی برداشت کرو اور جھیلو.تمہیں تپتی ہوئی زمین پر اس حال میں لٹا دیا جائے کہ اوپر سے مکہ جیسے گرم علاقے کا سورج آگ برسا رہا ہو‘ پھر تمہارے سینے پر پتھر کی سل رکھ دی جائے‘ تمہاری ٹانگوں میں رسی باندھ کر کھینچا جائے‘ تو بھی جھیلو اور برداشت کرو‘ retaliate نہیں کر سکتے. میں کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ ایسے حالات میں اگر آدمی desperate ہو جائے ‘اپنی جان سے ناامید ہو کر مشتعل ہو جائے تو ایک آدمی دس کو مار کر مرے گا. لیکن نہیں!کیا حضرت یاسر رضی اللہ عنہ کسی کو نہ مار سکتے تھے جب ان کی نگاہوں کے سامنے ان کی اہلیہ محترمہ سمیہ(رضی اللہ عنہا)کو ابوجہل نے اس طرح برچھی ماری کہ پشت کے پار ہو گئی! پھر وہ خود یعنی حضرت یاسررضی اللہ تعالٰی عنہ کس طرح مظلومانہ اور بہیمانہ طور پر شہید ہو گئے‘ لیکن اُف تک نہ کی اس لئے کہ ایمان لانے کی وجہ سے اس خاندان پر ظلم و ستم کے پہاڑ بہت پہلے سے توڑے جا رہے تھے اور جب کسی ایسے موقع پر نبی اکرم  کا گزر ہوتا تو آپؐ فرماتے : اِصْبِرُوْا یَا آلَ یَاسِرَ فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃُ ’’اے یاسررضی اللہ عنہ کے گھر والو! صبر کرو ‘تمہارا ٹھکانا جنت ہے.‘‘ گویا انہیں شہادت اور جنت کی خوش خبری پیشگی دے دی گئی تھی حضرت خباب بن ارت رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیا گیا. اوپر نگرانی کے لئے آدمی کھڑا ہوا ہے. حکم ہے جھیلو! پیٹھ کی چربی پگھلتی ہے اور آگ سرد پڑ جاتی ہے. 

پھر خود رسول اللہ کی ذاتِ اَقدسؐ پر کیا کچھ ستم روا نہیں رکھا گیا. آپؐ کی راہ میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں جس سے آپ کے پاؤں مبارک زخمی ہو جاتے ہیں. یہ کام رات کے اندھیرے میں کیا جاتا ہے ‘ کیونکہ آپؐ علی الصبح تاروں کی چھاؤں میں نماز کے لئے باہر نکلا کرتے تھے. آپؐ کے مکان میں گندگی پھینکنے کو معمول بنا لیا جاتا ہے .اور یہ دونوں کام کرنے والے کون ہوتے ہیں! آپؐ کے پڑوسی اور رشتے میں آپؐ کے سگے چچا اور چچی یعنی ابولہب اور اُس کی بیوی اُمِّ جمیل چادر گردن میں ڈال کر اسے اس طرح بل دیا جاتا ہے کہ آپ کی آنکھیں اُبل پڑتی ہیں سجدے کی حالت میں رحمۃ للعالمین کے مقدس کاندھوں پر اونٹ کی نجاست بھری اوجھری رکھ دی جاتی ہے. تمسخر‘ استہزاء ‘طعن و تشنیع اور فقرے چست کرنا روز کا معمول بن جاتا ہے. قلب مبارک پر جو بیتتی ہو گی‘ وہ بیتتی ہو گی‘ مؤمنین صادقین کے دلوں پر کیا گزرتی ہو گی کہ ان کے پیارے اور محبوب رسول اللہ  پر کتنے مصائب ڈھائے اور ستم توڑے جا رہے ہیں! مگر وہ ہاتھ نہیں اٹھا سکتے تھے‘ کیونکہ آپ کو حکم تھا کہ جھیلو‘ برداشت کرو‘ صبر کرو اور آپ کی وساطت سے یہی حکم تمام اہل ایمان کے لئے تھا.

اس سے اگلا مرحلہ قتال کا ہے. جب دعوت منظم ہو جاتی ہے اور یثرب کو دارالہجرۃ بننے کی سعادت حاصل ہو جاتی ہے اور وہ مدینۃ النبیؐ بن جاتا ہے اور مسلمان بالفعل ہجرت یعنی ترکِ وطن کرکے وہاں جمع ہو جاتے ہیں تو ایک Base مہیا ہو جاتی ہے اور ایک چھوٹی سی شہری اسلامی ریاست قائم ہو جاتی ہے .اس موقع پر قتال کا مرحلہ آتا ہے. چنانچہ سورۃ الحج میں بایں الفاظ قتال کی اجازت مل جاتی ہے: 

اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُۨ ﴿ۙ۳۹
’’اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے‘ کیونکہ وہ مظلوم ہیں‘ اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے.‘‘

سورۃ النساء میں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جب ان سے کہا گیا تھاکہ اپنے ہاتھ بندھے رکھو کُفُّوْآ اَیْدِیَکُمْ تو کہتے تھے کہ ہمیں بھی جنگ کی اجازت ہونی چاہئے‘ہم بھی لڑیں‘ ہم یہ کر دیں گے ‘وہ کر دیں گے. اب جبکہ لڑائی کا حکم آ گیا ہے تو لڑائی بڑی دشوار معلوم ہوتی ہے .تو وہاں یہ الفاظ آئے ہیں کہ:

فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقِتَالُ اِذَا فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمۡ یَخۡشَوۡنَ النَّاسَ کَخَشۡیَۃِ اللّٰہِ اَوۡ اَشَدَّ خَشۡیَۃً ۚ (آیت ۷۷)
’’اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں ایک فریق ایسا بھی ہے کہ (جس کا دل ڈول رہا ہے اور )وہ انسانوں سے اس طرح ڈر رہا ہے کہ جیسے اللہ سے ڈرنا چاہئے ‘بلکہ کچھ اس سے بھی بڑھ کر‘‘.

کسی انقلابی دعوت کے مذکورہ بالا تین مراحل ہوتے ہیں. مرحلے تین ہیں لیکن الفاظ چھ ہیں .گویا ہر مرحلے کے دو پہلو ہوتے ہیں پہلا مرحلہ ہے دعوت و تربیت. 
دوسرا مرحلہ ہے تنظیم و ہجرت اور تیسرا ور آخری مرحلہ ہے جہاد و قتال. ان مراحل سے گزرے بغیر دنیا میں کبھی کوئی انقلاب نہیں آیا ہے عیسائی طرز کی تبلیغ ہو سکتی ہے. تبلیغ کا کام آپ بھی کیجئے ‘کرتے چلے جائیے. اس سے اگلا مرحلہ نہیں آئے گا. وہی کام نسلاً بعد نسلٍ ہوتا رہے گا. لیکن محمد رسول اللہ کا کام اگر آپ دیکھیں گے تو وہ نہ رفاہی کام ہے ‘نہ تبلیغی کام‘نہ تعلیمی و علمی کام یہ سارے کام اس انقلابی کام میں جزو کی حیثیت سے تو شامل ہیں‘ لیکن کل کام خالصتاً انقلابی کام کے مشابہ ہے پھر یہ انقلابی جدوجہد مکمل اور بھرپور انقلابی جدوجہد ہے. نیز یہ پوری انقلابی جدوجہد انسانی سطح (Human Level) پر ہوئی ہے ؎

اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے سو گزری
تنہا پسِ زنداں کبھی رسوا سرِبازار!

تین سال کی قیدِ شعب بنی ہاشم ہے جس میں ایسا وقت بھی آیا ہے کہ کھانے کو کچھ نہیں تھا. گھاٹی کی جھاڑیوں کے پتے سب کے سب کھا لئے گئے تھے اور بھوک اور پیاس کے مارے بنی ہاشم کے بچوں کی زبانیں خشک ہو گئی تھیں‘ جن کو تر رکھنے کے لئے سوکھے چمڑے ابال ابال کر ان کے حلق میں بوندیں ٹپکائی جاتی تھیں.بنی ہاشم کا پورا قبیلہ بنی اکرم  کے ساتھ ہی اس گھاٹی میں قید کر دیا گیا تھا اور ؏ ’’رسوا سرِبازارے آں شوخ ستمگارے‘‘ کا نقشہ دیکھنا ہو تو وہ یوم طائف دیکھ لیجئے کہ جہاں ایک دن میں وہ کچھ بیت گیا جو مکہ میں دس سال میں نہیں بیتا تھا. طائف کے سرداروں نے دعوتِ حق اور دعوتِ توحید کو حقارت اور استہزاء کے انداز میں ٹھکرا دیا اور آپ سے جو کچھ انہوں نے کہا اس کو سننے کے لئے بھی بڑے جگرے کی ضرورت ہے. نقل کفر کفر نہ باشد ایک سردار نے کہا کہ ’’اللہ کو تم جیسے مفلس و قلاش کے سوا رسول بنانے کے لئے کوئی اور نہیں ملا؟ اس طرح تو وہ گویا خود کعبے کے غلاف کو چاک کر رہا ہے‘‘. ایک سردار نے کہا کہ ’’میں تم سے بات کرنے کا بھی روادار نہیں‘ اس لئے کہ اگر تم سچے ہو اور واقعتا رسول ہو تو ہو سکتا ہے کہ میں کہیں توہین کا مرتکب ہو جاؤں اور عذابِ الٰہی کا نوالہ بن جاؤں ‘اور اگر تم جھوٹے ہو تو کسی جھوٹے سے کلام کرنا میری شان کے خلاف ہے.‘‘ ایسے ہی اور جملے ان سرداروں میں سے ہر ایک نے کہے.پھر صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جب نبی اکرم بظاہر احوال مایوس ہو کر لوٹنے لگے تو کچھ غنڈوں کو اشارہ کر دیا. اوباش لوگ آپ کے گرد جمع ہو گئے .پھر وہ نقشہ جما ہے کہ جس پر آسمان و زمین لرز گئے ہوں تو کوئی تعجب نہیں. ان اوباشوں نے محبوبِ ربّ العالمین سیّد الاولین و الآخرین  پر پتھروں کی بارش شروع کر دی. تاک تاک کر ٹخنے کی ہڈیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ تالیاں پیٹی جا رہی ہیں. حضور کا جسدِ اطہر لہولہان ہو گیا ہے. نعلین شریف خون سے بھر گئی ہیں اور پیر جم گئے ہیں. ایک موقع پر آپ‘ ضعف کے مارے ذرا بیٹھ گئے ہیں تو دو غنڈے آگے بڑھتے ہیں اور بغلوں میں ہاتھ ڈال کر آپ کو کھڑا کر دیتے ہیں کہ چلو رسول اللہ پر ذاتی اعتبار سے ابتلاء اور امتحان کا یہ نقطۂ عروج (Climax) ہے. شہر سے باہر آ کر آپ  ایک پتھر سے ٹیک لگا کر تشریف رکھتے ہیں اور اس موقع پر وہ دعا آپ کی زبانِ مبارک سے نکلتی ہے کہ جس کو پڑھتے‘ سنتے اور سناتے وقت کلیجہ شق ہوتا ہے:

اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْا ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ
’’اے اللہ! کہاں جاؤں‘ کہاں فریاد کروں‘ تیری ہی جناب میں فریاد لے کر آیا ہوں‘ اپنی قوت کی کمی اور اپنے وسائل و ذرائع کی کمی کی اور لوگوں میں جو رسوائی ہو رہی ہے‘ اس کی‘‘.

اِِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ؟ اِلٰی بِعَیْدٍ یَجْھَمُنِیْ اَوْ اِلٰی عَدُوٍّ مَلَّکْتَ اَمْرِیْ؟
’’اے اللہ! تو مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کیا تو نے میرا معاملہ دشمنوں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ جو چاہیں میرے ساتھ کر گزریں؟‘‘

اِنْ لَمْ یَکُنْ عَلَیَّ غَضَبُکَ فَلَا اُبَالِیْ!
’’پروردگار! اگر تیری رضا یہی ہے اور اگر تو ناراض نہیں ہے تو پھر میں بھی راضی ہوں‘ مجھے اس تشدد کی کوئی پروا نہیں ہے.‘‘(؏ سرِتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے!)

اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمٰتُ
’’اے ربّ! میں تیرے روئے انور کی ضیاء کی پناہ میں آتا ہوں جس سے ظلمات بھی منور ہو جاتے ہیں.‘‘

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یومِ اُحد کے بعد نبی اکرم سے دریافت کیا تھا کہ ’’یا رسول اللہ! کیا اس سے زیادہ سخت دن بھی آپؐ کی زندگی میں آیا ہے؟‘‘ تو آپؐ نے جواب میں فرمایا تھا :’’ہاں! یومِ طائف میری زندگی کا سب سے زیادہ سخت دن تھا ‘‘ یہ تمام مصائب و مشکلات کے ادوار نبی اکرم پربھی آئے اور صحابہ کرام ث پر بھی اس میں ایک نکتے کی بات ہے‘ اس پر غور کیجئے. وہ یہ کہ ہمارا صغریٰ کبریٰ یہ ہے کہ جناب محمد رسول اللہ  سیّدِوُلد ِآدم اور محبوبِ ربّ العالمین ہیں. دوسری طرف آپ  اور آپؐ کے ساتھیوں کو اپنی انقلابی جدوجہد میں بدترین مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.ان دونوں کو جوڑئیے. کیا اللہ ا س پر قادر نہ تھا کہ انقلاب بھی آ جاتا اورمحمد  کے پاؤں میں کانٹا بھی نہ چبھتا؟. یہ ہو سکتا تھا‘ لیکن ہوا نہیں! سوچئے کیوں نہیں ہوا؟ 

اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایسا ہو گیا ہوتا تو مجھ پر اور آپ پر حجت قائم نہ ہوتی.انقلاب صرف عرب میں لانا مقصود نہیں تھا‘ اسے پوری دنیا میں لانا تھا اور وہ انسانوں کے ہاتھوں آنا تھا. معجزے تو رسولوں کے لئے ہیں‘ عام انسانوں کے لئے تو نہیں ہیں. آگے جو کام کرنا تھا‘ اس کے لئے اُسوہ کیسے بنتا اگر محمد رسول اللہ  کو کوئی تکلیف نہ پہنچی ہوتی؟ 
اس لفظ اُسوہ کو یہاں سمجھئے. اللہ کر سکتا تھا‘لیکن اس نے نہیں کیا اس کا حکم تو یہی تھا کہ ’’اے محمد !جھیلو‘ برداشت کرو‘‘ اللہ کی شان بہت اعلیٰ وارفع ہے. اس لئے صرف بطورِ تفہیم بہت ڈرتے ڈرتے عرض کرتا ہوں کہ اگر ہم اپنے احساسات پر قیاس کریں تو کیا بیتی ہو گی اللہ پر! جب طائف میں اس کا محبوب پتھروں کی زد میں تھا جب تالیاں پٹ رہی تھیں لیکن اُس کا فیصلہ یہی تھا کہ اے محمد ! صبر کرو‘ جھیلو‘ برداشت کرو.وہی بات جو آنجناب اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کہہ رہے ہیں. جیسا کہ آلِ یاسررضی اللہ عنہم پر ظلم و ستم کے واقعے کے دوران ذکر ہوا. اسی طرح مکی دور میں مصائب و شدائد‘ ایذا رسانی‘ جور و تعدی اور طنز و استہزاء کے مختلف مواقع پر رسول اللہ  کو بھی وحی الٰہی کے ذریعے یہ ہدایات مل رہی ہیں کہ: وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ فَاصْبِرْ صَبْراً جَمِیْلاً فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ مختلف اسالیب سے صبر کی ہدایت اور تلقین ہو رہی ہے : فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوالْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ’’جیسے ہمارے اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا ہے ویسے آپ بھی صبر کیجئے.‘‘ وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکُ اِلاَّ بِاللّٰہِ ’’صبر کیجئے اور آپ کا سہارا بس اللہ ہی ہے‘‘ .یعنی صبر کے لئے بھی کوئی سہارا چاہئے تو آپ کا سہارا ہم خود ہیں فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ ’’پس صبر کیجئے اور اپنے رب کے حکم کاانتظار کیجئے اور کہیں مچھلی والے کی طرح جلدی نہ کر لیجئے گا‘‘ وَاصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ ’’اور صبر کیجئے‘ اللہ محسنین یعنی خوب کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا‘‘.

یہ سب کچھ کیوں ہے؟ اس کو جانئے اور سمجھئے. یہ اس لئے ہے کہ جناب محمدرسول اللہ کی ذاتِ اقدس کو ہمارے لئے اسوہ بننا تھا. یہ سب کچھ نہ ہوتا تو آپؐ کی ذاتِ گرامی ہمارے لئے اُسوہ کیسے بنتی! یہ مجھ پر حجت ہے‘ آپ پر حجت ہے کہ اللہ کے رسول  نے جو کچھ کیا‘ وہ خالص انسانی سطح (Human Level) پر کیا ہے‘ سارے دکھ اٹھا کر کیا ہے‘ فاقے جھیل کر کیا ہے‘ پتھراؤ برداشت کر کے کیا ہے‘ قید و بند کی تکالیف اٹھا کر کیا ہے‘ اپنے دندانِ مبارک شہید کروا کر کیا ہے‘ اپنے عزیزوں اور جاں نثاروں کے لاشے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر کیا ہے‘ پیٹ پر ایک نہیں دودو پتھر باندھ کر کیا ہے یہ سارے مصائب جھیلے ہیں‘ تب انقلاب بپا ہوا ہے . چنانچہ نبی اکرم  کی سیرتِ مطہرہ کا سب سے زیادہ نمایاں اُسوہ کیا ہوا؟ یہ ساری گفتگو لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ کے تحت ہو رہی ہے. اس اعتبار سے پہلا اُسوہ تو یہ ہوا کہ بحیثیت مجموعی نبی اکرم کی جدوجہد خالصتاً انقلابی جدوجہد کے مشابہ ہے. جبکہ دوسرا اُسوہ یہ ہے کہ یہ ساری جدوجہد انسانی سطح (Human Level) پر قدم بقدم مصائب و تکالیف‘ جور و تعدی اور ظلم و ستم جھیل کرہوئی ہے.