اس موقع پر مبادا کوئی اشکال پیدا ہو جائے یا مغالطہ لاحق ہو جائے ‘لہذا عرض کر دوں کہ اس میں شک نہیں کہ اس جدوجہد میں اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید بھی آئی ہے. اور اس نصرت و تائید کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے. ؎

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی!

لیکن یہ نصرت و تائید کب آئی ہے؟ یہ اُس وقت آئی ہے جب مؤمنین صادقین جو کچھ کر سکتے تھے وہ سب کر گزرے. اس سے پہلے نصرتِ الٰہی نہیں آیا کرتی. اس نصرت کی لازمی شرط یہ ہے کہ: یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ (سورۃ محمد :۷’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا.‘‘ غزوۂ بدر کے موقع پر جنگ سے ایک رات قبل نبی اکرم‘ نے دعا فرمائی تھی کہ ’’اے اللہ! میں نے پندرہ برس کی کمائی لا کر میدان میں ڈال دی ہے. اگر کل یہ شہید ہو گئے تو دنیا میں تیرا نام لینے والا کوئی نہیں ہو گا‘ اس لئے کہ میں آخری رسول ہوں اور میری پندرہ برس کی کمائی یہ ہے کہ جو دین کی سربلندی کے لئے میں نے میدان میں لا ڈالی ہے ‘‘ چنانچہ بدر کے معرکہ میں اللہ کی نصرت آئی اور ۳۱۳ بے سروسامان مؤمنین صادقین کے ہاتھوں کیل کانٹے سے لیس ایک ہزار لشکر کو شکست نصیب ہوئی لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ بچ بچ کر اور تحفظ کا خیال رکھ رکھ کر اور اپنی جیبوں کو سکیڑ سکیڑ کر رکھنے کے ساتھ ہم یہ امید رکھیں کہ اللہ کی تائید و نصرت ہمیں حاصل ہو جائے تو ایسا کبھی نہیں ہو گا. اپنے حلوے مانڈے میں ہم کوئی کمی کرنے کے لئے آمادہ نہیں‘ کاروبار میں سود شامل ہے تو اس کو چھوڑنے کے لئے ہم تیار نہیں‘ کیونکہ اس طرح تو کاروبار سمٹ اور سکڑ جائے گا. دین کے کام کے لئے وقت لگائیں تو پھر ہمارا یہ معیار اور status کیسے برقرار رہے گا! ہم تو بچ بچ کر آرام سے گھروں میں بیٹھے رہیں اور یہ چاہیں کہ اللہ اپنی نصرت و تائید لئے ہمارے پیچھے پیچھے آئے کہ لیجئے میری نصرت و تائید قبول فرما لیجئے‘ تو یہ ہونے والی بات نہیں ہے. ؏ ایں خیال است و محال است و جنوں!. یہ نہ کبھی ہوا ہے اور نہ کبھی ہو گا. محبوبِ ربّ العالمین  اور آپؐ کے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ساتھ نہیں ہوا تو ہمارے سر پر کون سا سرخاب کا پر لگا ہوا ہے کہ ہمارے ساتھ یہ معاملہ ہو جائے گا؟ کبھی نہیں ہو سکتا! ہوتا تو نبی اکرم کے ساتھ ہوتا. اس معاملے میں استثناء (Exception) اگر ہوتا تو اس قاعدہ کلیہ سے مستثنیٰ آپ  ہی ہو سکتے تھے.

نصرت و تائید کے ضمن میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ یومِ طائف کے موقع پر نبی اکرم نے جو دعا کی تھی اس کے بارے میں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ؏ اجابت ازدرِحق بہرِ استقبال می آید چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ فوراً ملک الجبال یعنی وہ فرشتہ جو پہاڑوں کی دیکھ بھال کے لئے مامور ہے حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ ’’حضور! اللہ نے مجھے آپؐ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ اگر آپ حکم دیں تو میں ان پہاڑوں کو ٹکرا دوں جن کے مابین وادی میں طائف کا شہر واقع ہے تاکہ اس کے رہنے والے پس کر سرمہ بن جائیں‘‘ اس پر رحمۃ للعالمین ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’میں لوگوں کے عذاب کے لئے نہیں بھیجا گیا. اگرچہ یہ لوگ مجھ پر ایمان نہیں لائے لیکن کیا عجب کہ ان کی آئندہ نسلوں کو اللہ تعالیٰ ایمان کی توفیق عطا فرمائے!‘‘ دیکھ لیجئے کہ جس موقع پر غیبی نصرت بھیجی گئی وہ کون سا موقع تھا؟ یہ وہ موقع تھا کہ جس سے سخت دن خود حضور کے بقول آپ کی زندگی میں کوئی اور نہیں گزرا اس سے پہلے بھی خفی غیبی امداد و نصرت ہوئی ہے. لیکن نصرتِ الٰہی کا اصل ظہور ہوتا ہے یوم طائف کے بعد. چنانچہ فوری طور پر تو ملک الجبال کی حاضری ہے. لیکن اب ٹھنڈی ہوائیں یثرب کی طرف سے آنے لگیں. آپ  تو مکہ سے مایوس ہو کر طائف تشریف لے گئے‘ لیکن نصرت و حکمتِ الٰہی نے مدینہ منورہ کی طرف سے کھڑکی کھول دی یوم طائف کے سلسلہ میں مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم نے اپنی کتاب ’’النبی الخاتم ‘‘ میں بہت ہی عمدہ نکتہ ارشاد فرمایا ہے کہ ’’یوم طائف نبی اکرم‘ کی زندگی کا Turning Piont تھا. اُس دن تک اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی کو دشمن کے حوالے کیا ہوا تھا کہ جس طرح چاہو ہمارے رسولؐ کے صبر کا امتحان لے لو‘ جس طرح چاہو ان کی استقامت کو جانچ پرکھ لو‘ ہمارے رسولؐ کی سیرت و کردار کو خوب ٹھونک بجا کر دیکھ لو اُس دن کے بعد نبی اکرم کے لئے خصوصی نصرت اور تائید کا ظہور شروع ہوتا ہے.‘‘