اب آئیے چوتھی بات کی طرف وہ ہے تربیت. یہ معاملہ اس اعتبار سے سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے کہ تربیت اور تزکیۂ نفس کے بارے میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ شاید اس کے لئے تویہ قرآن مفید ہے ہی نہیں کتاب اللہ اس کام کے لئے مؤثر ہی نہیں ہے‘ لہذا ذکر کے کچھ اور طریقے ایجاد کرنے پڑیں گے‘ تربیت کا کوئی دوسرا نظام بنانا پڑے گا گویانبی اکرم کا اسوہ اس کے لئے مکمل رہنمائی نہیں کر سکتا. اس کے لئے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ آنحضور کی شخصیت کا جو اثر ہوتا تھا وہ اب ہمارے لئے ممکن نہیں ہے ‘ کیونکہ آپ کا وجودِ اَقدس ہمارے درمیان موجود نہیں.تصوف کے حلقوں میں جو دیانت دار اور خدا ترس لوگ ہیں‘ وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں تربیت‘ تزکیہ اور سلوک کے جو طریقے رائج ہیں‘ وہ مسنون بہرحال نہیں ہیں. دیانت کا تقاضا ہے کہ ہم بھی اس کو تسلیم کریں. ضربیں لگانے کے طریقے کو مسنون ٹھہرانے کے لئے کہاں سے دلیل لائیں گے؟ یہ بات نہ توکسی حدیث سے ثابت ہے نہ کسی صحابی سے اور نہ ہی کسی تابعی سے. جو حضرات اس کے قائل ہیں وہ زیادہ سے زیادہ یہ عذر و معذرت یا Plea لاتے ہیں کہ ان طریقوں کو انہوں نے اپنے تجربات میں مفید پایا ہے ٹھیک ہے‘ مجھے اس سے انکار نہیں ایسا ممکن ہے کہ یہ طریقے مفید ہوں لیکن یہ مانئے اور اس کا اعلان بھی کیجئے کہ یہ طریقے مسنون نہیں ہیں. یہ طریقے اسوۂ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے مطابقت نہیں رکھتے.کیاایسے حضرات کا یہ خیال ہے کہ جناب محمد رسول اللہ نے تزکیہ نہیں کیا؟ قرآن حکیم میں تین مقامات پر تلاوت کے بعد تزکیہ ہی کا ذکر آتا ہے یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ 

اس تزکیہ کا ذریعہ کیا ہے؟ دعوت و تبلیغ کا مدار اور انذار و تبشیر کا مرکز و محور توقرآن ہے اور تذکیر و نصیحت کا مبنٰی بھی قرآن ہی ہے‘ اس بات کو ہم نے قرآن کی آیات ہی سے سمجھ لیا. اس کے سمجھنے کا معاملہ آسان ہے ‘البتہ تزکیہ کا معاملہ تھوڑا سا باریک ہے. تزکیہ و تربیت کے لئے بھی ہمیں ہر حال میں قرآن ہی کی طرف رجوع کرنا ہو گا. آئیے اس بات کو قرآن ہی سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں. سورۂ یونس (آیت ۵۷)میں فرمایا:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷
’’اے لوگو!تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے. یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لئے ہدایت اور رحمت ہے‘‘. 

چنانچہ دل کے تمام امراضِ دینیہ و اخلاقیہ کے لئے شفاء یہ قرآن مجید ہے. ذکر‘یہ قرآن ہے : اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر) جو اس ذکر کو By pass کرے گا اس کے متعلق کم سے کم یہ بات کہی جائے گی کہ وہ غیرمسنون طریقے پر عمل کر رہا ہے. امراضِ قلبیہ و صدریہ کا علاج جو اس سے علیحدہ کیا جائے گا وہ اسوۂ رسول نہیں ہو گا. اپنی جگہ مؤثر ہوا کرے اسوۂ رسولؐ کے نقشے سے وہ ہٹا ہوا ہے. 

دیکھئے ہمارے ہاں ایک ہے ’’وعظ‘‘.آج یہ وعظ ہمارے ہاں گالی بن گیا ہے. لوگ پھبتی چست کرتے ہیں کہ لو جی وعظ کر رہے ہیں. گویا بہت گھٹیا سی بات کہی جا رہی ہے. یہ ہر دَور کی ایک چھاپ ہوتی ہے. ایک زمانے میں ایسے وعظ ہوا کرتے تھے جو بہت مؤثر ہوتے تھے. سامعین ان سے اپنے قلوب میں گداز اور ایک روشنی محسوس کرتے تھے‘ ان کے جذبات کو جلا ملتی تھی.لیکن ہمارے ہاں ‘میری یادداشت کے مطابق ‘جو ’’وعظ‘‘ ہوا کرتے تھے ان میں بھی قرآن نہیں ہوتا تھا (الا ماشاء اللہ) اکثر وعظ ’’مثنویٔ مولویٔ معنوی‘‘ کی بنیاد پر ہوتے تھے. اس کی بھی ایک تاثیر تھی‘ اس سے انکار نہیں.اکثر ہوتا یہی تھا کہ ایک خاص ترنم آمیز لہجے میں مثنوی کو پڑھا جاتا تھا. میرے ہوش کے زمانے میں اکثر وعظوں کی یہی نوعیت ہوتی تھی جو میں نے خود سنے ہیں.قرآن کہتا ہے کہ موعظہ حسنہ اور نصیحت یہ قرآن ہی ہے. دلوں میں اترنے والی چیز یہ قرآن ہے‘ جذبات کو جلا بخشنے والی چیز یہ قرآن ہے. 

علامہ اقبال مرحوم نے اپنے اشعار میں بہت سے قرآنی حقائق کی نہایت عمدہ اور اعلیٰ و ارفع ترجمانی اور وضاحت کی ہے چنانچہ روایتی واعظوں کے متعلق وہ کہتے ہیں ؏ ’’ معنی ٔاو پست و حرف ِاو بلند ‘‘ یعنی الفاظ بڑے بھاری بھرکم اور معنی تلاش کرو تو ہیں ہی نہیں دھواں دھار بات ہے لیکن معنی سے بالکل خالی علامہ مزید کہتے ہیں ؎

از خطیب و دیلمی گفتارِ او
با ضعیف و شاذ و مرسل کارِ او

یعنی اپنے وعظوں کے لئے حدیث لائیں گے تو کوئی بہت ہی ضعیف یا شاذ حدیث لائیں گے. واعظوں کی یہ بڑی کمزوری شمار کی گئی ہے کہ ان کے وعظ میں اکثر و بیشتر کمزور و ضعیف حدیثیں ہوتی ہیں. امام غزالی ؒ اس سے نہ بچ سکے. ’’احیاء العلوم‘‘ جیسی کتاب بھی اس سے مبرا نہیں. وہ کسی موضوع پر سات آٹھ صحیح حدیثیں درج کرنے کے بعد دو تین ضعیف حدیثیں بھی شامل کر دیتے ہیں. پتہ نہیں ایسا کیوں ہوا! شاید ان کا جی بھرتا نہیں تھا اور وہ چاہتے تھے کہ دو تین دلیلیں اور دے دی جائیں.حالانکہ ایک بات صحیح حدیث سے ثابت ہو جاتی ہو توپھر اس کے لئے ضعیف احادیث سے استدلال کی کیا ضرورت ہے!ہمارے ہاں جو عام واعظین ہیں ان کا حال یہ ہے کہ ساری گفتگو اور وعظ کا مرکز و محور صرف ضعیف احادیث ہوں گی الا ماشاء اللہ. مطلب یہ ہے کہ اگر کسی چیز سے ہمارے واعظین کو اعتناء نہیں ہے تو وہ یہ قرآن ہے.
مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے اپنے والد مرحوم کے یہ حد درجہ سادہ مگر پرتاثیر اشعار حواشی ٔ ترجمہ قرآن میں درج کئے ہیں ؎

سنتے سنتے نغمہ ہائے محفلِ بدعات کو
کان بہرے ہو گئے دل بے مزہ ہونے کو ہے 
آؤ سنوائیں تمہیں وہ نغمۂ مشروع بھی
پارہ جس کے لحن سے طورِ ہدیٰ ہونے کو ہے
حیف گر تاثیر اُس کی تیرے دل پر کچھ نہ ہو
کوہ جس سے خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا ہونے کو ہے!

میں کہا کرتا ہوں کہ ایک محفل سماع جناب محمد رسول اللہ کی بھی ہوتی تھی‘ لیکن اس میں کیا سنا جاتا تھا؟ قرآن وَ اِذَا قُرِیَٔ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ وَ اَنۡصِتُوۡا (الاعراف:۲۰۴’’اور جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو.‘‘ بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم نے ان سے فرمائش کر کے قرآن کریم سننا چاہا . انہوں نے عرض کیا کہ حضورؐ آپ کو سناؤں! آپؐ پر تو قرآن نازل ہوا ہے. آنجناب  نے فرمایا کہ ہاں سناؤ مجھے دوسروں سے سن کر حظ اور لطف حاصل ہوتا ہے. چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سورۃ النساء پڑھنی شروع کی اور جب اکتالیسویں آیت پر آئے تو حضور نے فرمایا: حَسْبُکَ حَسْبُکَ ’’بس کرو‘ بس کرو!‘‘ حضور  کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے جب حضرت عبداللہؓ نے یہ آیت پڑھی: فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿﴾ ’’پس سوچو کہ اُس وقت کیا ہو گا جب ہم ہر اُمت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر (اے محمدؐ ) آپ کو گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے.‘‘ یہ ہے سماع جناب محمد رسول اللہ  کا!

وعظ کا مقصد کیا ہے؟ جذبات کے اندر ایک حرارت پیدا کرنا کیا یہ حرارت قرآن سے پیدا نہیں ہوتی؟ گویا تزکیہ نفس کے لئے تو غالباً یہ دنیا کی ناکام ترین کتاب سمجھی گئی ہے. نعوذ باللّٰہ من ذٰلک. نہایت افسوس کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ قرآن حکیم کی سب سے زیادہ ناقدری اس کوچے میں آ کر ہوئی ہے. اس کا مرثیہ بھی اقبال نے کہا ہے ؎

صوفی ٔ پشمینہ پوشِ حال مست
از شرابِ نغمۂ قوال مست!
آتش از شعرِ عراقی در دلش
در نمی سازد بقر آں محفلش!

عراقی ‘جامی یا رُومی کا شعر سنیں گے تو وجد میں آ جائیں گے‘ لیکن قرآن سنیں گے تو کوئی اثر ہی نہیں ہو گا‘ بلکہ قرآن ان کی محفلوں میں جگہ ہی نہیں پاتا. حالانکہ اگر جذبات کی جلا‘ ان میں حرارت اور سوز و گداز اور کیف و سرور کی کیفیات مطلوب ہوں تو اس مقصد کے لئے بھی یہ قرآن ہے جو جناب محمدرسول اللہ  پر اُترا. ان کے لئے بھی سب سے بڑا منبع و سرچشمہ قرآن مجید ہی ہے.

اسوۂ حسنہ کے ضمن میں اب تک قدرے تفصیل کے ساتھ میں نے جو اُسوے گنوائے ہیں‘ انہیں پھر ذہن میں تازہ کر لیجئے. پہلا اسوہ ہے دعوت و تبلیغ ‘ انذار و تبشیراور موعظہ و تذکیر‘ ان سب کو جمع کر لیجئے ‘ان سب کا مرکز و محوراور مبنٰی و مدار ہے قرآن.دوسرا اُسوہ ہے تزکیہ و تربیت‘ اس کی اساس‘ جڑ اور بنیاد بھی قرآن ہی ہے. ذکر قرآن سے محفل سماع قرآن سے وعظ قرآن سے تطہیر فکر قرآن سے ہو گی ‘اور فکر کی تطہیر ہو گی تو اعمال خودبخود درست ہوں گے. ظاہر ہے کہ انسانی شخصیت فکر و عمل کا مجموعہ ہے اور یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں ‘بایں معنی کہ ’’گندم از گندم بروید‘ جوز جو‘‘ کے مصداق غلط فکر‘ غلط عمل ہی کو جنم دے سکتا ہے اور صحیح عمل کے لئے صحیح فکر ناگزیر ہے. گویا اگر کسی انسان کی فکر کی تطہیر ہو جائے اور غلط افکار و نظریات اور فاسد خیالات اس کے قلب و ذہن سے پت جھڑ کے پتوں کی طرح جھڑتے چلے جائیں تو اعمال صالحہ اور اخلاقِ حسنہ کے برگ و بار بلاتکلف ازخود نمایاں ہو جائیں گے.

اسی عمل (Phenomenon) کو قرآن حکیم ’’یُکَفِّرْ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ‘‘ بھی قرار دیتا ہے اور یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنَات بھی او ریہی ربط و تعلق ہے اس میں کہ تلاوتِ آیات کے متصلاً بعد تزکیہ کا ذکر قرآن میں آیا ہے: یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ واللہ اعلم!