اب آئیے دوسرے مرحلے کی طرف یعنی تنظیم و ہجرت__ تنظیم کے ضمن میں جناب محمدرسول اللہ کا کیا اسوہ رہا ہے! اب اس مسئلہ کو ہمیں سمجھنا ہے. اس میں تو کوئی شک نہیں کہ تنظیم کے بغیر کوئی بھی اجتماعی کام نہیں ہو سکتا. یہاں تک کہ آپ کو لوگوں کی جیبیں کاٹنی ہوں تو بھی ایک تنظیم قائم کرنی پڑتی ہے. گرہ کٹوں کے بھی گروہ (Gangs) ہوتے ہیں. ڈاکہ ڈالنا ہو تو گینگ بنانا ہو گا. سوشلزم لانا ہو تو آپ کو تنظیم بنانی ہو گی اور اگر اسلام کے لئے کوئی کام کرنا ہے تو بھی تنظیم سے مفر نہیں ہے.حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے : لَا اِسْلَامَ اِلاَّ بِجَمَاعَۃٍ. (۱یعنی جماعت کے بغیر کوئی اسلام نہیں. اور نبی اکرم کا تو حکم ہے کہ : 

اَنَا آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ : بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (۲) (۱) سنن الدارمی‘ المقدمۃ‘ باب فی ذھاب العلم.
(۲) سنن الترمذی‘ ابواب الامثال‘ باب ما جاء فی مثل الصلاۃ والصیام والصدقۃ ورواہ احمد فی المسند‘ ح:۱۶۵۴۲‘ واللفظ لہ. 
’’(مسلمانو!) میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دے رہا ہوں: (i) جماعت کا‘ (ii)سننے کا‘ (iii)اطاعت کرنے کا‘ (iv)ہجرت کا‘ اور (v)اللہ کے راستے میں جہاد کا.‘‘

ہمارا آج کا مزاج اس سے کافی دور چلا گیا ہے. بڑے بڑے اہل دانش و بینش اور صاحب علم و فضل کہتے ہیں ’’اجی جماعت کی کیا ضرورت ہے ؟کام تو ہم بھی کر ہی رہے ہیں‘ نماز روزہ تو ہو ہی رہا ہے‘ کسی کی کوئی خدمت بھی کر دی جاتی ہے.‘‘اگر واقعی کوئی کام کرنا ہے‘ اگر اسوۂ محمدیؐ پیش نظر ہے اور انقلابِ محمدیؐ کو دنیا میں دوبارہ لانے کی سعی و جہد کرنی ہے تب تنظیم سے رستگاری نہیں ہو سکتی‘ تنظیم کے بغیر کچھ نہیں ہو سکے گا. آج کے دور کا سب سے کٹھن کام یہی ہے دیکھئے قرآن مجید (سورۂ مریم) میں عرب کے لوگوں کو قَوْمًا لُّدًّا کہا گیا ہے کہ یہ بڑی جھگڑالو قوم ہے. ہر ایک اپنی جگہ پر فرعونِ بے ساماں ہے‘ کون کسی کی سنے گا! کون کسی کے سامنے سر جھکائے گا! آج کا دور بھی ایسا ہی دور ہے کہ سب سقراط و بقراط ہیں‘ کون کسی کی سنے گا! لوگوں کے اپنے اپنے نظریات اور خیالات ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں. چنانچہ اس دور میں کسی نظم کا پابند ہونا سب سے کٹھن کام ہے. کسی کی بات مانی جائے‘ کسی کا حکم مانا جائے‘ خود کو کسی ڈسپلن میں دے دیا جائے‘ سمع و طاعت کا نظم قبول کیا جائے‘ یہ بڑا مشکل اور کٹھن کام ہے.

میرے نزدیک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قربانیوں میں سب سے بڑا ایثار یہی تھا کہ انہوں نے اپنی شخصیت کی کامل نفی کر کے اس کو نبی اکرم کی ذاتِ اقدس میں گم کر دیا تھا حالانکہ بہت سے دنیوی اعتبارات سے آپؓ نبی اکرم سے آگے تھے. حضور کے پاس اپناذاتی سرمایہ کوئی نہیں تھا.ازروئے الفاظ قرآنی : وَوَجَدَکَ عَائِلاً فَاَغْنٰی ’’اور تمہیں نادار پایا اور پھر مالدار کر دیا‘‘. اللہ تعالیٰ نے آپؐ :کو جب غنی کیا ہے تو سرمایہ اہلیہ محترمہ کا تھا.نقل کفر کفر نہ باشد‘طائف والوں نے یہی طعنے تو دیئے تھے کہ اللہ کو ایک مفلس و قلاش کے سوا اپنا نبی بنانے کے لئے کوئی اور نہیں ملا تھا؟ مکہ والے بھی کہا کرتے تھے کہ اللہ کو نبی بنانا تھا تو دو عظیم شہروں (مکہ اور طائف) میں سے کسی صاحب ثروت سردار کو بناتا.حضور کے پاس قریش کے اس قبائلی نظام کا کوئی منصب نہیں تھا‘ جبکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس سب سے زیادہ نازک اور حساس ذمہ داری تھی یعنی دیت کا فیصلہ کرنا .آپؓ کے اختیار میں تھا کہ کسی مقتول کا کتنا خون بہا دیا جائے گا گویا اس معاشرے میں کسی کی معاشرتی حیثیت (Social Status) کے تعین کرنے کا کام آپ کے سپرد تھا. اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ اس معاشرے کے قبائلی نظام میں حضرت ابوبکرؓ کو کیا مقام حاصل تھا! لیکن انہوں نے اپنی شخصیت کی ایسی نفی کی ہے اور اپنے آپ کو محمد رسول اللہ  کی شخصیت میں اس طرح گم کیا ہے کہ ’’ابوبکر‘‘ تو نظر ہی نہیں آتے.نظر تو وہ آیا کرتا ہے جو اختلاف کرتا ہے. ایسے شخض کی شخصیت علیحدہ اور جدا نظر آئے گی جو کسی درجے میں اپنی بات کرتا ہو .لیکن جس کی اپنی کوئی بات ہی نہیں ہے ‘جو خود کوگم کر چکا ہو محمد رسول اللہ  کی شخصیت میں‘ وہ کہاں نظر آئے گا! یہ ہے حضرتِ ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سب سے بڑا ایثار اور سب سے بڑی قربانی.

آج جو سب سے بڑا خناس ہمارے دماغوں میں بیٹھا ہوا ہے وہ یہی انانیت ہے.کوئی نظم ہو گا اور کوئی تنظیم ہو گی تو بہرحال اس کے امیر اور اس کے نظام العمل کی پابندی بھی کرنی ہو گی لہذا اپنے آپ کو اس ’’کھکھیڑ‘‘ سے بچانے کے لئے یہ فلسفہ تراش لیا جاتا ہے کہ اجی کسی جماعت یا تنظیم کی ضرورت ہی کیا ہے؟ دین کا کام کسی نہ کسی درجے میں ہم بھی کر ہی رہے ہیں جماعتیں اور تنظیمیں تو عموماً فتنہ بن جایا کرتی ہیں اس لیے اس سے حذر ہی بہتر ہے. ان حیلوں سے دل کو مطمئن کر لیا جاتا ہے. لوگ سڑک پر چلتے ہوئے حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں‘لیکن اس کے باوجود باہر نکلنا ترک نہیں کر تے. دل میں اصل چور یہی ہے کہ میں کیوں کسی کی مانوں؟لیکن یہ جان لیجیے کہ تنظیم و جماعت کے بغیر دنیا میں کبھی کوئی کام نہیں ہو سکتا.