اب رسول اللہ کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں مجھے تنظیم و ہجرت کے بارے میں خوش دلی سے قبول نہ کرنے پر بھی ایمان کی نفی کی جا رہی ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ذات کی قسم کھا کر نفی فرما رہے ہیں پھر دیکھئے سورۃ الحجرات میں فرمایا: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۲﴾ (آیت ۲)

’’اے اہل ایمان! مت بلند کرو اپنی آوازوں کو نبیؐ کی آواز پر اور نہ ہی ان سے اونچی آواز میں بات کرو جس طرح تم باہم ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے بلند آوازی اختیار کرتے ہو‘ مبادا تمہارے سارے اعمال برباد ہو جائیں (تمہاری ساری نیکیاں اکارت جائیں‘ تمہارے اب تک کئے کرائے پر پانی پھر جائے )اور تمہیں شعور و احساس تک نہ ہو‘‘.
شعور و احساس تو تب ہوتا ہے جب انسان یہ سمجھے کہ وہ نبی اکرم کی کسی نافرمانی کا ارتکاب کر رہا ہے غور کیجئے کہ یہاں نافرمانی‘ حکم عدولی اور معصیتِ رسولؐ کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوا‘ بلکہ مجرد سوئے ادب کی وجہ سے سارے اعمال کے حبط ہونے کی وعید سنائی جا رہی ہے.

آگے چلئے اور دیکھئے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اطاعتِ رسول کے لئے کتنا محکم اور غیرمبہم ضابطہ و قانون بیان فرما دیا ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (النساء:۸۰’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی پس اس نے اللہ کی اطاعت کی.‘‘ اسی ضمن میں خود نبی اکرم کا قول بھی سن لیجئے : لَا یُؤْمِنْ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبِعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ (۱’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک اُس کی خواہش نفس اس ہدایت کے تابع نہ ہو جائے جو میں لے کر آیا ہوں‘‘. قرآن و حدیث کی یہ تعلیمات و ہدایات پیش نظر رکھئے اور غور کیجئے کہ اس سے زیادہ مضبوط کسی اور تنظیم کا آپ تصور کر سکتے ہیں؟