سورۃ الاحزاب میں زیر درس آیت لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْــوَۃٌ حَسَنَۃٌ کے بعد کی دو آیات یہ ہیں:

وَ لَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۫ وَ مَا زَادَہُمۡ اِلَّاۤ اِیۡمَانًا وَّ تَسۡلِیۡمًا ﴿ؕ۲۲﴾مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا ﴿ۙ۲۳﴾ (آیات ۲۲۲۳)

’’اور سچے مومنوں کا حال یہ تھا کہ جب انہوں نے (غزوۂ احزاب کے موقع پر) حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اُٹھے کہ یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم سے وعدہ کیا تھا (۱اوراللہ اور اس کے رسولؐ کی بات سچی تھی. اس واقعہ نے ان کے ایمان اور سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا. ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے وعدے کو سچ کر دکھایا ہے (یعنی وہ صبر و ثبات سے ڈٹے بھی رہے) اور ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا (یعنی اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر چکا) اور کوئی اپنی باری آنے کا منتظر ہے.اورانہوں نے اپنے رویئے میں کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘ .

اس آیت میں ’’وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ‘‘ خاص طور پر قابل توجہ ہے. ایک مؤمن کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ بڑے ذوق و شوق اور اشتیاق کے ساتھ اس بات کا منتظر رہے کہ کب وہ وقت آئے کہ وہ اللہ کی راہ میں گردن کٹا کر سرخرو ہو.اس لئے کہ سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر ۱۱۱ کی رو سے اہل ایمان اللہ سے سودا کر چکے ہیں اور جنت کے عوض اپنا مال اور اپنی جان اس کے ہاتھ بیچ چکے ہیں:

اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ ۟ وَعۡدًا عَلَیۡہِ حَقًّا فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ وَ الۡقُرۡاٰنِ ؕ وَ مَنۡ اَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسۡتَبۡشِرُوۡا بِبَیۡعِکُمُ الَّذِیۡ بَایَعۡتُمۡ بِہٖ ؕ وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۱۱۱﴾ (التوبۃ:۱۱۱)
’’یقینا اللہ نے مؤمنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے عوض خرید لئے ہیں. وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں‘ پھر قتل کرتے ہیں اور قتل ہوتے ہیں. اللہ کی طرف سے ان کے اس طرزعمل پر پختہ وعدہ ہے تورات میں بھی‘ (۱) اشارہ ہے سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۵۵ کی طرف انجیل میں بھی اور قرآن میں بھی. اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہو! پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے اللہ کے ساتھ چکا لیا ہے. یہی سب سے بڑی کامیابی ہے.‘‘

آپ نے ملاحظہ کیا کہ اس آیت شریفہ میں لفظ ’’بیع‘‘ جس سے ’’بیعت‘‘ بنا ہے پوری جامعیت کے ساتھ قول و قرار اور عہد و پیمان کے لئے استعمال ہوا ہے.اس آیت کی رو سے مؤمنین تو اپنے مال اور اپنی جان اللہ کے ہاتھ بیچ چکے. اب جب بھی یہ مرحلہ آئے تو وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اللہ کی یہ امانت اسے لوٹانے کے لئے میدانِ کارزار میں نکلیں گے. لیکن اس کے متعلق کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ مرحلہ کب آئے گا. آگے کے مراحل کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا. کچھ پتہ نہیں کہ کب کیا مرحلہ آ جائے اور کیا صورت حال پیدا ہو جائے! یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص دعوت دیتا رہے اور اسی میں اس کی زندگی تمام ہو جائے اور اس کو ایک ساتھی بھی نہ ملے. نبیوں کے باب میں بھی ایسا ہوا ہے. یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی جگہ تمکن عطا فرما دے. اس کا دارومدار ہماری سوچ پر نہیں ہے. جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ نبی اکرم  تو مکہ سے مایوس ہو کر طائف تشریف لے گئے تھے.

مدینہ کی کھڑکی تو اللہ نے خود کھولی. مکہ میں اہل یثرب کے چھ اشخاص ایمان لے آئے. اگلے سال بارہ آدمی آ گئے اور اس سے اگلے سال پچھتر آ گئے اور بیعت عقبہ ثانیہ منعقد ہوئی. پھر نبی اکرم کے قدم مبارک ابھی وہاں پہنچے بھی نہیں تھے کہ مدینہ کو دار الہجرت بننے کی سعادت حاصل ہو گئی اور وہاں حضور کی تشریف آوری کا بڑے اشتیاق کے ساتھ انتظار ہونے لگا اور استقبال کی تیاریاں ہونے لگیں.جبکہ مکہ جہاں حضور بہ نفس نفیس تیرہ برس سے دعوت دے رہے ہیں‘ وہ خون کا پیاسا بنا ہوا ہے. کون سے حساب کتاب میں یہ چیز آتی ہے؟یہ مشیت الٰہی ہے. آگے کے مراحل کے بارے میں کوئی لال بجھکڑ بن کر کہے کہ یوں ہو گا تو اس کی بات درخورِ اعتناء نہیں ہو گی. ہم اُسوۂ رسول کے راستے پر چلنے کی کوشش کریں گے. اگر اخلاص ہمارے شامل حال رہا تو اس راہ میں پوری زندگی کھپا کر یا سر کٹا کر دُنیوی اعتبار سے ناکام ہو جانا بھی ہمارے لئے کامیابی ہے ‘اور کامیاب ہو گئے تو پھر تو کامیاب ہیں ہی. اسی کو قرآن ’’اِحْدَی الْحُسْنَـیَـیْنِ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے. اس راہ میں آخرت کے اعتبار سے ناکامی کا کوئی سوال ہی نہیں.بالاکوٹ کے میدان میں راہ حق میں سر کٹانے والے کیا ناکام ہوئے؟ہرگز نہیں!. ان کی کامیابی پر تو فرشتے رشک کرتے ہوں گے. وہ تو شہادت کے مرتبے پر فائز ہیں‘ جو انبیاء اور صدیقین کے بعد آخرت میں سب سے اعلیٰ مقام ہے.

ہم نے اسوۂ رسول کی روشنی میں ’’تنظیم اسلامی‘‘ سمع و طاعت کی بیعت کی بنیاد پر بنائی ہے. اگرچہ ہم بہت کچے ہیں‘ تعداد کے لحاظ سے بھی قافلہ بہت ہی چھوٹا ہے اور اب تک جو ساتھی ملے ہیں وہ معیارِ مطلوب سے بہت نیچے ہیں. لیکن میں اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں. اس معاشرے میں سے مجھے جو ساتھی ملے ہیں وہ بھی غنیمت ہیں.میں اللہ کے ہاں اپنا جواب تیار کر رہا ہوں کہ اے میرے رب! میں نے کچھ اور نہیں کیا. مجھے تو نے جو صلاحیت‘ طاقت‘ توانائی اور استعداد عطا فرمائی تھی میں نے اسے تیری کتاب مبین کے پیغام اور اسوۂ رسول کی طرف دعوت دینے میں لگایا اور کھپایا ہے. میں نے مداہنت نہیں کی ؏ میں زہرہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند!. میں نے کبھی اس کی پرواہ نہیں کی کہ یہ کہوں گا تو اہل حدیث ناراض ہو جائیں گے اور وہ کہوں گا تو احناف مجھ سے خفا ہو جائیں گے یا لوگ میرے دروس و خطابات میں آنا چھوڑ دیں گے. میں نے جس بات کو قرآن و سنت کے مطابق حق سمجھا ہے اسے ڈنکے کی چوٹ کہا ہے‘ برملا کہا ہے ‘بغیر خوف لَوْمَۃَ لَائِم ِکہا ہے‘ صرف اللہ کے خوف اور اس بات کو پیش نظر رکھنے کی شعوری کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ: مَایَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ (ق:۱۸’’کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لئے ایک حاضر باش نگران نہ ہو‘‘.اور آج میں نے اسوۂ رسولؐ کے حوالے سے اپنی استعداد کی حد تک ساری بات آپ کے سامنے رکھ دی ہے. اب آپ سوچئے کہ آپ کس مقام پر کھڑے ہیں؟ فیصلہ آپ کا ہے. ذمہ داری آپ کی ہے. جواب دہی آپ کو کرنی ہے. بات پوری سامنے آ چکی ہے. لیکن اگر کوئی تنظیم اسلامی کی دعوت کو مزید سمجھنا چاہتا ہو تو میں اس کو دعوت دوں گا کہ وہ تنظیم کے کتابچوں کا مطالعہ کر لے‘پھر فیصلہ کرے. میں آپ کو یہ حدیث نبویؐ سنا چکا ہوں کہ : اَنَا آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ : بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ’’میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں: جماعت کا اور سمع و طاعت کا اور اللہ کی راہ میں ہجرت اور جہاد کا ‘‘چنا نچہ جماعت کے بغیر زندگی بسر کرنا خلافِ سنت زندگی ہے. کوئی اپنی جگہ بڑے سے بڑا سنت کا پرچارک بنا ہوا ہو اور خود کو متبع سنت سمجھتا ہو‘ اگر وہ نظم جماعت کے بغیر زندگی بسر کر رہا ہے تو اس کی پوری زندگی خلافِ سنت ہے.اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ لَا اِسْلَامَ اِلاَّ بِجَمَاعَۃِ. رضائے الٰہی اور اسوۂ رسول کی پیروی کے لئے جب تک اپنے آپ کو ایسی جماعت کے حوالے نہ کر دیا جائے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے قائم ہو‘ زندگی بحیثیت مجموعی سنت کے مطابق نہیں ہو گی اور بات وہی ہو گی جو حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمائی تھی کہ مچھر چھانے جائیں گے اور سموچے اونٹ نگلے جائیں گے.

اسوۂ رسول سے میں نے دین کے انقلابی پیغام کے لئے دعوت و تربیت‘ تنظیم و ہجرت اورجہاد وقتال کے مراحل اور اس کام کے لئے ایک ’’تنظیم‘‘ کی ضرورت کے دلائل آپ کے سامنے رکھ دیئے ہیں.یہ بات قرآن حکیم سے سمجھنا چاہیں تو تھوڑے سے غور و تدبر کے بعد ان شاء اللہ سُورۂ آل عمران کی یہ آیت مبارکہ تنظیم کی دعوت کو سمجھنے کے لئے کفایت کرے گی:

وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾ (آیت ۱۰۴)
’’تم میں سے ایک جماعت تو ایسی ضرور ہونی چاہئے جو نیکی کی طرف بلائے‘ بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکتی رہے. یہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے.‘‘

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ