انقلابِ اسلامی کے لئے حضورؐ کا طریقِ کار

اب دوسری بات کو لیجئے! اس منزل کے حصول اور اس منزل تک رسائی کا راستہ کون سا ہے! یہ ہم کہاں سے معلوم کریں گے! اس معاملے میں رہنمائی بھی ہمیں سیرتِ رسولؐ ہی سے ملے گی. یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ ہر کام ہر طریقے پر نہیں ہو سکتا. ہر کام کے لئے ایک طریقہ معین ہے. گندم کاشت کرنی ہے تو اس کا ایک خاص موسم ہے‘ اسی میں آپ کاشت کریں گے تو آپ کو فصل ملے گی. ورنہ بیج بھی ضائع ہو جائے گا خواہ خلوص و اخلاص کتنا ہی ہو. پھر یہ کہ اس کے لئے زمین کو تیار کرنا ہو گا . زمین تیار نہیں کی اور آپ گندم کے بیج بکھیر آئے تو کیا فصل مل جائے گی! معلوم ہوا کہ گندم کے حصول کا ایک نہج ہے‘ منہج ہے‘ طریقِ کار ہے. اگر اس کی پیروی نہیں کریں گے تو گندم نہیں اُگے گی. اسی طرح اس نظامِ عدل و قسط کو قائم کرنے کے لئے بھی‘ جو رسول اللہ نے قائم کیا‘ وہی طریق ِ کار اختیار کرنا ہو گا جو جناب محمد رسول اللہ  نے اختیار فرمایا. اگر ایک شخص غلط فہمی میں ایک طریقِ کار پر عمل کر رہا ہے‘ وہ اپنی جگہ مخلص ہے ‘وہ سمجھتا ہے کہ اسی طریقے سے اسلامی انقلاب آجائے گا‘ اسلامی نظامِ عدل و قسط قائم ہو جائے گا تو خلوص کی بناء پر اللہ تعالیٰ کے یہاں اجر مل جائے گا لیکن دنیا میں اس کی محنت کامیاب نہیں ہو گی. لہذا ہمارا دوسرا شعوری فیصلہ یہ ہونا چاہئے کہ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ حضور  نے کس طریقے سے انقلاب برپا فرمایا! کس نہج سے نظامِ عدل و قسط قائم فرمایا ! کس طریقے سے ظالمانہ‘ استبدادی اور استحصالی نظام کو ختم کر کے ’’ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ‘‘ کی منزل تک رسائی فرمائی. جب ہمارا یہ شعوری فیصلہ ہو جائے گا تو اب ضرورت ہو گی کہ ہم سیرتِ طیبہ کا گہرا مطالعہ کریں اور یہ معلوم کریں کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے حضور  نے کیا طریق کار (method) اختیار فرمایا تھا.

اس لئے کہ کسی معاشرے میں انقلاب لانے کے لئے ہر طریقہ کارگر اور مفید نہیں ہوتا ‘بلکہ جس قسم کی تبدیلی لانی ہو یا جس نوعیت کا انقلاب برپا کرنا مقصود ہو ‘ اسی کی مناسبت سے طریقِ کار وضع کیا جاتا ہے. میں ایک مثال عرض کر دوں . اشتراکی انقلاب کا اپنا ایک طریقہ ہے. جب تک اس نظریئے کے شیدائی اور کامریڈز کسی معاشرے میں طبقاتی شعور (Class Consciousness) پیدا نہیں کرتے کہ یہ اہلِ ثروت (haves) ہیں اور وہ محرومین (have nots) ‘یہ مراعات یافتہ اور استحصالی طبقات ہیں اور وہ دبے ہوئے اور پسے ہوئے طبقات ہیں. جب تک اس شعور کو مظلوم طبقات کے ذہنوں میں راسخ نہیں کر دیا جائے گا‘ اس وقت تک اشتراکی انقلاب کی راہ میں پہلا قدم بھی نہیں اٹھ سکے گا. پہلے یہ طبقاتی شعور(Class consciousness) پیدا کرنا ہو گا.

دوسرا مرحلہ ہو گا طبقاتی کشاکش اور تصادم 
(Class Struggle) کا. اب طبقات کو طبقات سے ٹکرایا جائے. اس کے بغیر اشتراکی انقلاب کے لئے دوسرا قدم نہیں اٹھ سکے گا. ان کے علاوہ اشتراکیوں کے دوسرے مختلف ہتھکنڈے ہیں‘ افراتفری پیدا کرنا‘ بدنظمی پیدا کرنا‘ اسی طرح علاقائی اور لسانی عصبیتوں کا پیدا کرنا کہ ہم سندھی ہیں‘ ہم بلوچی ہیں‘ ہم پختون ہیں‘ ہم پنجابی ہیں ‘ ہم مہاجر ہیں. ہماری تہذیب علیحدہ ہے‘ ہماری ثقافت علیحدہ ہے‘ ہماری زبان علیحدہ ہے. اس طریقے پر ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں اور عصبیتوں کو ابھار کر باہم ایک دوسرے سے ٹکرا دینا‘ یہ کمیونسٹوں کی جدید تکنیک ہے. اس میں بموں کے دھماکوں اور دوسری تخریب کاریوں کے ذریعے سے چاہے بوڑھوں‘ بچوں‘ عورتوں اور متعدد بے گناہ لوگوں کی جانوں کو نشانہ بنانا پڑے‘ چاہے ان کو قربانی کا بکرا بنانا پڑے ‘لیکن یہ چیزیں اشتراکی انقلاب لانے کی کوششوں کے لوازم میں شامل ہیں. اب فرض کیجئے کہ کوئی شخص شریف النفس ہے‘ وہ مغالطوں کا شکار ہو کر اشتراکی نظریہ کا معتقد تو ہو گیا‘ مارکسٹ تو بن گیا ‘لیکن ان تخریبی کاموں میں حصّہ لینے کے لئے تیار نہیں تو وہ حقیقی کمیونسٹ نہیں ہے. اس کے لئے ان کاموں میں حصّہ لئے بغیر اشتراکی انقلاب نہیں آ سکتا‘ اس کا ایک طریق کار ہے اس کا ایک Set Pattern بن چکا ہے. اسی طریق سے سمجھ لیجئے کہ اسلامی انقلاب کے لئے بھی صرف وہی طریقہ مفید اور مؤثر ہو گا جس طریقے سے حضور  نے انقلاب برپا فرمایا تھا. چنانچہ اب ہماری علمی کاوش اور جستجو یہ ہو گی کہ ہم سیرتِ مطہرہ کا معروضی (Objectively) مطالعہ کریں اور حضور اکرم  کے طریق انقلاب کو جاننے کی کوشش کریں.