دورِ حاضر میں انقلابِ اسلامی کا طریق کار

اسلامی انقلاب کے منہج کے یہ چھ مراحل ہیں جنہیں میں نے یہاں نہایت مختصر انداز میں بیان کیا ہے. اس انقلابی عمل (Revolutionary Process) کو میں نے حضور  کی سیرتِ مبارکہ سے سمجھا ہے اور اس معاملے میں میرا ماخذ صرف اور صرف سیرتِ محمدیؐ ہے. اب ایک اہم بات کی طرف اور اشارہ کروں گا اور وہ یہ کہ اس انقلابی عمل کے ابتدائی چار مراحل ہر دور میں بعینہٖ اسی طرح رہیں گے جیسے ہمیں سیرتِ مطہرہ میں نظر آتے ہیں. یعنی اسلامی انقلابی جدوجہد کا پہلا مرحلہ دعوت و تبلیغ کا ہو گا. اس میں قرآن کو مرکز و محور کی حیثیت حاصل ہو گی اور انقلابی نظریہ توحید ہی کا ہو گا. بقول اقبال ؎

زندہ قوت تھی زمانے میں یہ توحید کبھی
اور اب کیا ہے؟ فقط اِک مسئلہ علمِ کلام

آج کے دور میں توحید بریلویوں اور اہل حدیثوں کے درمیان بحث و نزاع کا ایک مسئلہ بن کر رہ گئی ہے‘ اس پر کھینچ تان ہو رہی ہے ‘ورنہ حقیقت میں توحید تو پورے ایک نظام تمدن‘ ایک نظامِ اجتماعی‘ ایک نظامِ عدل و قسط کی بنیاد ہے. دوسرا مرحلہ ہے تنظیم . یہاں بھی ہمیں سیرت مطہرہ سے حاصل ہونے والے اُسوہ کو جوں کا توں اختیار کرنا ہوگا. اس تنظیم کے معاملے میں میرے نزدیک حضور  نے جو رہنمائی اُمت کو دی ہے وہ ہے نظامِ بیعت. اجتماعیت کے لئے بنیاد بیعت ہو گی. میری اس رائے سے کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے. لیکن میری دیانت دارانہ رائے یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کے لئے ایک جماعت اور ایک تنظیم کی تاسیس کے لئے سیرت مطہرہ میں بیعت کی سنّت کے علاوہ کوئی دوسری صورت موجود نہیں ہے. صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث ملتی ہے. جس کی صحت پر اُمت کے دو جلیل القدر محدثین امام بخاری اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہما متفق ہیں. سند کے اعتبار سے متفق علیہ سے زیادہ کسی روایت کا مقام نہیں ہوتا. اس حدیث کے الفاظ اس قدر جامع ہیں کہ میرا گہرا تاثر یہ ہے کہ اس حدیث میں ایک صحیح اسلامی انقلابی تنظیم یا جماعت کا پورا دستور موجود ہے. میں آپ حضرات سے درخواست کروں گا کہ اس حدیث اور اس کے ترجمہ اور تشریح کو پوری توجہ اور غور کے ساتھ سماعت فرمائیے. حدیث ہے:

عَنْ عَبَادَۃَ بَنِ الصَّامِتِ قَالَ بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ وَعَلٰی اَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَعَلٰی اَنْ لَّا نُنَازِعَ الْاَمْرَاَہْلَہٗ وَعَلٰی اَنْ نَّقُوْلَ بِالْحَقِّ اَیْنَمَا کُنَّا لَا نَخَافُ فِی اللّٰہِ لَوْمَۃَ لَائِمٍ 
’’حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے ‘ انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ  سے بیعت کی کہ جو حکم آپ ہمیں دیں گے ہم سنیں گے اور مانیں گے‘ چاہے آسانی ہو چاہے تنگی ہو‘ چاہے وہ ہمارے نفس کو اچھا لگے چاہے اس کے لئے ہمیں اپنے نفس کو مجبور کرنا پڑے اور چاہے آپؐ ہم پر دوسروں کو ترجیح دیں ‘اور جس کو بھی آپؐ امیر مقرر فرما دیں گے ہم اس کا حکم مانیں گے اور اس سے جھگڑیں گے نہیں. ہاں یہ ضرور ہے کہ جو ہماری رائے ہو گی اور جس بات کو ہم حق سمجھیں گے اس کو بیان ضرور کریں گے ہم جہاں کہیں بھی ہوں. اور اللہ کے معاملہ میں حق بات کہنے سے ہم کسی ملامت گر کی ملامت سے ہر گز نہیں ڈریں گے.‘‘

یہ ہے میرے نزدیک تنظیم کے مرحلے کے لئے نبی اکرم  کی سنّت. اس میں صرف یہ فرق ملحوظ رکھنا ہو گا کہ حضور کی اطاعت مطلق تھی‘ اس لئے کہ حضور کا ہر فرمان معروف کے حکم میں تھا‘ لیکن آپؐ کے بعد اب کسی بھی امیر کی اطاعت آزاد نہیں ہو گی بلکہ معروف کے دائرے کے اندر اندر ہو گی. تربیت کے مرحلے میں بھی ہمیں پورے طور پر نبوی طریق کی پیروی کرنا ہو گی. اس میں اہم ترین چیز ہے عباداتِ مفروضہ کا اہتمام اور ان کی پابندی‘ مزید برآں تلاوتِ قرآن اور حتی الامکان قیام الیل کا اہتمام. اسی طرح صبرِ محض کے مرحلے کو بھی ہمیں بعینہٖ اسی طرح اختیار کرنا ہو گا جس طرح ہمیں سیرت میں مَکّی دور میں نظر آتا ہے. یعنی دعوت و تبلیغ کے اس کام میں اور اقامت ِ دین کی اس جدوجہد میں جو مصائب اور شدائد آئیں ان پر صبر کرنا ثابت قدم رہنا ‘اور اپنا ہاتھ روک کر رکھنا .یہ وہ چار ابتدائی مراحل ہیں جن میں ہمیں طریق نبویؐ کو جوں کا تُوں اختیار کرنا ہے.

البتہ اسلامی انقلابی جدوجہد کے پانچویں اور چھٹے مرحلے یعنی اقدام اور مسلح اقدام کے معاملے میں ہمیں احوال و ظروف کی مناسبت سے کچھ ترمیم کرنی ہو گی اور اجتہاد سے کام لینا ہو گا. اس کی وجہ سمجھ لیجئے. پہلی بات یہ کہ نبی اکرم  کا جس معاشرے سے معاملہ تھا‘ وہ تمام اعتبارات سے خالص کافرانہ معاشرہ تھا. آج کسی بھی مسلمانوں کے ملک میں یہ جدوجہد ہو گی تو سابقہ مسلمانوں سے پیش آئے گا چاہے اس ملک میں حکمران اور عامۃ المسلمین کی اکثریت فاسق و فاجر افراد پر مشتمل ہو. وہ سیکولر 
(Secular) ذہن رکھتے ہوں‘ لیکن کلمہ گو تو ہیں‘ سمار تو ان کا مسلمان ہی میں ہوتا ہے. ایک معاملہ تو یہ ہے جس کی وجہ سے صورتِ حال میں فرق واقع ہو گیا ہے. دوسری بات یہ کہ اس زمانہ میں طاقت کا زیادہ فرق نہیں تھا‘ جو تلواریں اُدھر مشرکین و کفار کے پاس تھیں وہی مسلمانوں کے پاس تھیں. مقدار اور تعداد (Quantity) کا فرق ضرور تھا لیکن نوعیت (Quality) کا فرق نہیں تھا. وہی نیزہ‘ تلوار‘ تیر کمان اُن کے پاس ہے وہی اِن کے پاس ہے. وہی گھوڑے اور اونٹ اِدھر ہیں‘ وہی اُدھر ہیں. لیکن آج کل جو استحصالی نظام بھی قائم ہے ‘ خواہ وہ سرمایہ دارانہ ہو یا جاگیردارانہ‘ اس کو تحفط دینے والی حکومت ہوتی ہے جو انہی طبقات کے افراد پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے مفادات رائج الوقت نظام سے بڑی مضبوطی سے وابستہ ہوتے ہیں. لہذا مقابلہ میں حکومت آتی ہے. اس کے پاس بے پناہ قو ّت و طاقت ہے. چنانچہ مسلح تصادم والی بات موجودہ دور میں بڑی مشکل ہے. اس کا کوئی بدل تلاش کرنا پڑے گا. وہ متبادل طریقے تمدن کے ارتقاء نے فراہم کئے ہیں. پُرامن مظاہرے‘ پکٹنگ کرنا‘ گھیراؤ کرنا‘ چیلنج کرنا کہ فلاں فلاں کام جو اسلام کی رو سے منکر ہیں ہم یہاں نہیں ہونے دیں گے. یہ کام اگر ہو گا تو ہماری لاشوں پر ہو گا. یہ وہ راستے ہیں جو تمدن کے ارتقاء کی بدولت ہمارے لئے کھلے ہیں. جب تک یہ مرحلہ نہیں آتا صرف زبان و قلم سے اس کا اظہار کیا جائے گا کہ یہ کام اسلام کے خلاف ہیں‘ منکر ہیں‘ حرام ہیں. ان کو چھوڑ دو‘ ان سے باز آجاؤ‘ ان کی جگہ معروفات کو رائج کرو. لیکن جب وہ وقت آجائے کہ اسلامی انقلابی جماعت یہ سمجھے کہ ہمارے پاس اتنی طاقت ہے کہ ہم مظاہروں کے ذریعے سے حکومت کو مجبور کر سکتے ہیں تو پھر چیلنج کیا جائے گا کہ اب یہ کام ہم نہیں ہونے دیں گے‘ سڑکوں پر نکل آئیں گے‘ پُرامن مظاہرے کریں گے‘ دھرنا مار کر بیٹھیں گے‘ پکٹنگ کریں گے. اس کے نتیجہ میں کیا ہو گا! لاٹھی چارج ہو گا‘ گرفتاریاں ہوں گے. جیلوں میں بھرے جائیں گے. حکومت اور آگے بڑھے گی تو فائرنگ ہو گی شیلنگ ہو گی. تو جب اس جماعت کے وابستگان نے پہلے ہی جان ہتھیلی پر رکھی ہوئی ہے‘ وہ سر پر کفن باندھ کر نکلے ہیں کہ ؏ ’’ شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن‘‘ تو پیٹھ دکھانے کا کیا سوال! اب یا تو حکومت گھٹنے ٹیک دے گی‘ اس لئے کہ آخر فوج بھی اسی ملک کی ہے اور عوام بھی اسی ملک کے ہیں. اپنوں کے خون سے ہاتھ کب تک رنگ سکیں گے. یا پھر نذرانہ جان اپنے ربّ کے حضور پیش کر کے اس تنظیم کے ارکان سرخرو ہو جائیں گے.

اس کی ایک مثال اس دَور میں ایرانیوں نے پیش کر کے دکھا دی ہے. اگرچہ ایران میں انقلاب کے پہلے چار مراحل پر مطلوبہ درجہ میں کام نہیں ہوا تھا‘ اس میں بہت سی خامیاں رہ گئی تھیں . اس کے بارے میں اس وقت میں گفتگو نہیں کرنا چاہتا . لیکن ایک چیز انہوں نے کر کے دکھا دی. انہوں نے شاہ کے خلاف مسلح بغاوت نہیں کی تھی‘ انہوں نے ہتھیار ہاتھ میں نہیں لئے‘خود جانیں دینے کے لئے سڑکوں پر آ گئے. ہزاروں مارے گئے‘ کوئی پرواہ نہیں. لیکن ان قربانیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پولیس عاجز آگئی اور فوج نے مظاہرین پر گولیاں چلانے سے انکار کر دیا اور آخرکار شہنشاہ کو بھاگتے بنی اور اس کا انجام یہ ہوا کہ ؏ ’’ دو گز زمین بھی مل نہ سکی کوئے یار میں‘‘ .وہ شہنشاہ جو اس علاقہ میں امریکہ کا سب سے بڑا پولیس مین تھا‘ اسے امریکہ بہادر نے بھی اپنے یہاں پناہ دینے سے انکار کر دیا. وہ کون سی طاقت تھی جس نے شہنشاہِ ایران کو حکومت چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا! وہ عوام کا جذبہ اورجان قربان کرنے پر آمادگی کی طاقت تھی. اس کے بغیر نظام نہیں بدلتا . تو اس معاملے میں اجتہاد سے کام لیتے ہوئے ہمیں موجودہ حالات کے پیشِ نظر صبرِ محض ہی کی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے اقدام کرنا ہو گا‘ مسلح تصادم کی نوبت نہیں آئے گی.

البتہ جہاں حالات سازگار ہوں‘ جہاں مسلح تصادم ہو سکتا ہو وہاں ہو گا . جیسے اب افغانستان میں ہو رہا ہے. وہاں اس لئے ہو رہا ہے کہ ایک تو وہ قوم عرصہ سے آزاد قوم کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود رہی ہے ‘اس پر مغربی استعمار کا براہ راست غلبہ نہیں ہوا‘ وہ برصغیر پاک و ہند کی طرح دو سو برس تک غلام نہیں رہے. دوسرے یہ کہ وہاں ہتھیار عام ہیں. کوئی گھر شاید ہی ایسا ہو جس میں ہتھیار نہ ہوں. ان کے بچے تو بچپن ہی سے بندوق اور رائفل سے کھیلتے چلے آ رہے ہیں. پھر وہ علاقہ ایسا ہے کہ وہاں گوریلا جنگ ممکن ہے .ہمارا علاقہ ایسا ہے کہ اس میں گوریلا وار ہو ہی نہیں سکتی. لیکن اگر کہیں مسلح تصادم کے لئے حالات سازگار ہوں تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ ہے کہ وہاں نہی عن المنکر کے لئے طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے‘ تلوار اٹھائی جا سکتی ہے. ایسی بات نہیں 
ہے کہ کسی مسلمان فاسق و فاجر حکمران کے خلاف مسلح بغاوت کا راستہ بالکل بند کر دیا گیا ہو. بغاوت ہو سکتی ہے. البتہ فقہاء کرام نے اس کے لئے شرط یہ عائد کی ہے کہ طاقت اتنی ہو جائے کہ اپنے اندازے اور جائزے کی حد تک کامیابی کا واضح امکان نظر آتا ہو. باقی عملاً کیا ہو گا‘ تو بہت سے ان دیکھے عوامل ایسے پیدا ہو سکتے ہیں کہ آپ یقین سے نتیجہ کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے. بہرحال یہ معاملہ اگرچہ مشروط ہے لیکن اتنی بات تو ثابت ہے کہ مسلح بغاوت حرام مطلق نہیں ہے.

لیکن ہمارے ملک کے حالات میں عملاً مسلح بغاوت ممکن نہیں ہے. اس کا بدل ہے پُرامن اور منظم مظاہرے اور وہ تمام اقدامات جن کا میں ذکر کر چکا ہوں. اس طرح ہم اللہ کی راہ میں جان تو دے سکتے ہیں . ہمارے پاس دینے کی چیز جان ہی ہے جو ہم دے سکتے ہیں. اس کے لئے آمادگی ضرور رہنی چاہئے. اس معاملے میں حضور  کی دو حدیثیں سنا دوں. یہ حبّ ِرسول‘ یا محبت رسولؐ یا اتباعِ رسول ہی کا تقاضا ہو گا کہ ہماری قلبی کیفیات حدیث رسول کے مطابق بن جائیں. حضور  نے فرمایا: 
وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّد بِیَدِہٖ لَوَدِدْتُ اَنْ اَغْزُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَاُقْتَلَ ثُمَّ اُحْیٰی ثُمَّ اَغْزُوَ فَاُقْتُلَ ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے !میں یہ چاہتا ہوں ‘ میری یہ آرزو ہے کہ میں اللہ کی راہ میں نکلوں اور قتل کر دیا جاؤں ‘پھر مجھے زندہ کیا جائے اور پھر میں اللہ کی راہ میں جہاد کروں اور قتل کر دیا جاؤں‘‘ .اس آرزو کا ہر مسلمان کے دل میں ہونا ایمان کی علامت ہے اور حضور کے اتباع کا لازمی تقاضا ہے. اسی طریقے سے حضور  نے ارشاد فرمایا کہ ’’ جس کسی مسلمان نے اللہ کی راہ میں نہ کبھی جنگ کی اور نہ اس کے دل میں اس کی آرزو تھی تو اگر اس حال میں اس کو موت آئی تو اس کی موت ایک نوع کے نفاق پر ہو گی‘‘. گویا یہ ایمان کی شرطِ لازم ہے کہ یہ آرزو دل میں موجود ہو کہ اے اللہ! تیرے دین کی سربلندی کے لئے یہ جان کام آئے‘ گردن کٹے‘ اس جسم کے ٹکڑے ہوجائیں. اس خواہش کا ہونا ضروری ہے خواہ اس کا مرحلہ نہ آئے‘ صحابہ کرامؓ میں بھی بہت سے ایسے ہیں کہ جن کا انتقال جنگ کا سلسلہ شروع ہونے سے پہلے ہو گیا. ہو سکتا ہے مَکّی دَور میں کسی صحابی کی طبعی موت واقع ہو گئی ہو. ان کے لئے میدانِ جنگ میں گردن کٹانے کی نوبت آئی نہیں .اسی طرح عین ممکن ہے کہ ہماری زندگیوں میں اللہ کی راہ میں جانی قربانی دینے کا مرحلہ نہ آئے‘ لیکن دل میں نیت ہو‘ آرزو ہو‘ تمنا ہو‘ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے واثق امید ہے کہ و ہ اس پر بھی اجر و ثواب عطا فرمائے گا.

میری اس وقت کی گفتگو کا خلاصہ ذہن نشین کر کے اٹھئے. حبِّ رسول کا بنیادی تقاضا ہے اتباعِ رسولؐ . یہ اتباع زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی مطلوب اور مبارک ہے‘ لیکن اس کا اصل تقاضا یہ ہے کہ ہماری زندگی کا پورا رخ وہی ہو جائے جو نبی اکرم  کی زندگی کا تھا. اوروہ رخ تھا غلبہ دین کی جدوجہد کا رخ‘ نظامِ عدل و قسط کا عملاً قیام و نفاذ! اسی مشن کے لئے حضور نے تئیس (۲۳) سال تک جاں گسل محنت و مشقت کی‘ اسی کے لئے صحابہ کرام نے زندگیاں کھپا دیں. مصائب جھیلے‘ مظالم برداشت کئے. جانوں کے نذرانے پیش کئے . حضور اور صحابہ کرام کے نقشِ قدم پر ہماری زندگی کا رخ معین ہو جائے‘ ہماری دلچسپیاں اور ہمارے ذوق و شوق سیرتِ رسولؐ اور سیرتِ صحابہؓ کے سانچے میں ڈھل جائیں .یہی حبِّ رسول کا اصل تقاضا ہے ؎ 

میری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی!