جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا‘ یہ سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت ہے. نوٹ فرما لیں کہ اس سورۂ مبارکہ کا دوسرا نام سورۃ الاسراء بھی ہے‘ بلکہ عرب ممالک میں جو قرآن مجید طبع ہوتے ہیں ان میں اسے ’’سورۃ الاسراء‘‘ کے نام سے ہی موسوم کیا جاتا ہے.
اس سفر مبارک کا جو آسمانی حصہ ہے‘ اس کا ذکر سورۃ النجم میں ہے. تو جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ اس واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کی اطلاع خود قرآن سے ملتی ہے جو ہمارے لیے مرجع اوّل ہے‘ اس حوالے سے یہ بات جان لیجئے کہ چونکہ اس واقعہ کی بنیاد صرف احادیث ہی پر مبنی نہیں ہے بلکہ قرآن مجید میں بھی بصراحت اس کا ذکر ہے‘ لہذا اس کا انکار کفر ہوگا‘ اگرچہ توجیہہ اور تاویل کے اعتبارات سے الفاظِ قرآنی میں جس حد تک گنجائش ہو اس حد تک اگر کوئی اختلاف ہو تو اسے کفر نہیں سمجھا جائے گا.
اس واقعہ کے ضمن میں ہمارے لیے مرجع ِ ثانی احادیث ِنبویہؐ ہیں. ہمارے دین کے یہ دو بنیادی ماخذ ہیں‘ قرآن و حدیث. انہی کو اصطلاحاً کتاب و سنت بھی کہا جاتا ہے. یہ معروف بات ہے کہ احادیث میں درجہ بندی ہے. سند کے اعتبار سے قوی ترین احادیث وہ ہیں جو صحیحین یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہیں. ان میں سے بھی وہ احادیث جو ان دونوں میں موجود ہوں ‘یعنی جن کی صحت پر یہ دونوں امام متفق ہوگئے ہوں‘ وہ اپنی سند کے اعتبار سے قرآن مجید کے آس پاس پہنچ جاتی ہیں.
اس وضاحت کے بعد یہ بات جان لیجئے کہ اگرچہ ایسی احادیث کی تعداد کثیر ہے جن میں مختلف تفاصیل مذکور ہیں‘ تاہم نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ کم از کم اٹھائیس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے یہ واقعہ مروی ہے. چونکہ ایک ہی روایت کئی کئی صحابہؓ سے مروی ہے اس اعتبار سے روایات کی تعداد تو اٹھائیس سے بھی بڑھ جائے گی ‘لیکن ان صحابہ کی تعداد اٹھائیس ہے جن سے واقعۂ معراج کا ذکر تفصیلاً یا اجمالاً مروی ہے. پھر ان میں ایک بڑی مفصل ّروایت وہ بھی ہے جو متفق علیہ ہے. یعنی احادیث کے اس طبقے سے تعلق رکھتی ہے کہ جن کے بارے میں شک و شبہ کی گنجائش بہت ہی کم رہ جاتی ہے‘ بلکہ صحیح تر بات یہ ہوگی کہ معدوم کے درجے میں آجاتی ہے. اس متفق علیہ حدیث میں جو تفاصیل آئی ہیں‘ انہیں ہمیں مِن وعن ماننا ہوگا.