اس تمہید کے بعد پہلے میں یہ عرض کروں گا کہ اس واقعہ کی نوعیت کیا ہے…! آیا یہ کوئی منفرد واقعہ ہے جو نبی اکرم ﷺ کو پیش آیا ہے یا یہ نبوت و رسالت کے مستقل معاملات میں سے ایک معاملہ ہے اور مختلف انبیاء و رُسل کے ساتھ بھی یہ معاملہ پیش آیا ہے! اگر پیش آیا ہے تو اس میں جو فرق و تفاوت ہے وہ آیا نوعیت کا ہے یا کیفیت کا…؟ یہ بات جان لیجئے کہ مکاشفات اور مشاہدات تو نبوت کا جزوِ لاینفک ہیں. اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیاء و رُسل اِس منصب اور خدمت پر مامور ہوتے ہیں کہ ان امورِ غیبی کی اطلاع دیں جن پر ایمان لانا لوگوں کے لیے ضروری ہے. جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذاتِ والا صفات ہے‘ جو ذات و صفات کے اعتبارات سے اَحد ہے. پھر ملائکہ ہیں. اسی طرح جو آئندہ پیش آنے والے واقعات ہیں‘ جب تک وہ پیش نہ آجائیں وہ پردۂ غیب میں ہیں. یوم الآخرۃ‘ قیامت کا دن‘ ایک امرِ غیبی ہے. بعث بعد الموت‘ حشر و نشر‘ وزنِ اعمال‘ جزا و سزا‘ یہ سب امورِ غیبی ہیں. پھر سب سے بڑھ کر خود ذاتِ باری تعالیٰ ہے‘ جس کے متعلق یا یوں کہہ لیں کہ وہ (اللہ تعالیٰ) غیب میں ہے… یا یوں کہہ لیں کہ اُس ذاتِ عزوجل اور ہمارے مابین غیب کا پردہ حائل ہے. یہ وہ چیزیں اور وہ امور ہیں جن پر ایمان لانا از بس ضروری ہے.
ہدایت کا نقطۂ آغاز ہی یہ ہے کہ ان باتوں کو مانا جائے. یہی وجہ ہے کہ سورۃ البقرۃ میں ہدایت کے لیے جو شرطِ اول بیان کی گئی ہے وہ یہی ایمان بالغیب ہے : الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ… یہ شرطِ اوّل ہے. اب جو بلند مرتبت ہستیاں اس خدمت پر مامور ہوئی ہوں کہ وہ ان امورِ غیبی پر ایمان کی دعوت دیں‘ ظاہر ہے کہ انہیں تو ان امور پر بدرجہ کمال و تمام ایمان و یقین ہونا چاہیے. جب تک وہ ایمان و یقین ان کے اندر اپنے درجۂ کمال کو پہنچا ہوا نہیں ہوگا‘ وہ دوسروں تک اس ایمان بالغیب کو کیسے منتقل کریں گے!
اب یہ بھی جان لیجیے کہ ایمان و یقین کے مختلف مراتب ہیں. ایک یقین وہ ہے جو فکر و نظر اور تعقّل وتفکّرکے نتیجے میں پیدا ہوجاتا ہے. ایک یقین وہ ہے جو خود ذاتی مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے. اس سے بھی بلند تر ایک درجہ وہ ہے جو انسان کے ذاتی تجربے اور احساس پر مبنی ہوتا ہے. قرآن مجید میں ان مدارج کے لیے تین اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں: علم الیقین‘ عین الیقین اور حق الیقین علم الیقین یہ ہے کہ آپ نے اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے استنباط کیا‘ استدلال کیا اور اس طرح کسی چیز کا علم آپ کو حاصل ہوا اور آپ کو یقین آگیا. عین الیقین یہ ہے کہ آپ نے کسی چیز کو دیکھا اور آپ نے اپنی حس بصارت پر اعتماد کرتے ہوئے اس پر یقین کرلیا اور حق الیقین کا درجہ ان دونوں سے بلند ہوگا. یہ یقین وہ ہوگا جو انسان کے اپنے ذاتی تجربے کا ایک جزو بن جائے.
میں اسے ایک سادہ سی مثال سے واضح کروں گا. اگر آپ دیکھیں کہ کہیں دھواں ہے تو آپ اپنی عقل کے بل پر یہ استدلال کرتے ہیں اور اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہاں آگ ہے. اس لیے کہ آپ کو یہ کلیہ معلوم ہے کہ دھواں اور آگ لازم و ملزوم ہیں. آگ اگرچہ آپ نے نہیں دیکھی‘ آپ نے دھواں ہی دیکھا ہے‘ لیکن اس کو دیکھ کر آپ کو اپنے استنباط اور استدلال سے آگ کے وجود پر یقین آگیا. یہ علم الیقین ہے. اب آپ نے قدم بڑھایا. بھاگے دوڑے اور آپ وہاں پہنچے جہاں سے دھواں اُٹھ رہا تھا اور آپ نے اپنے سر کی آنکھوں سے آگ کا مشاہدہ کرلیا تو اب علم الیقین سے بلند تر درجہ آپ کو حاصل ہوگیا. یہی عین الیقین ہے. عربی کا مقولہ ہے کہ ’’لَیْسَ الخَبر کَالمُعَایَنۃ‘‘ یعنی ’’کسی کے بتانے سے جو یقین پیدا ہوتا ہے وہ اس درجے کا نہیں ہوسکتا جو دیکھنے سے پیدا ہوتا ہے‘‘.فارسی میں اسی حقیقت کا اظہار اس مقولے کے ذریعے کیا جاتا ہے کہ ’’شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ‘‘ لیکن ابھی یقین و معرفت کا ایک درجہ باقی ہے اور وہ درحقیقت آگ کی اصل حقیقت کا ادراک ہے. آپ نے آگ آنکھ سے دیکھ لی‘ لیکن اس وسوسے کا امکان ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ آگ کی سی صورت ہو‘ حقیقی آگ نہ ہو. سورۃ النجم میں فرمایا گیا: مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴿۱۱﴾ ’’نظر نے جو دیکھا دل نے اس کو جھٹلایا نہیں‘‘. اس میں اسی وسوسے کی طرف اشارہ ہے کہ کسی وقت انسان کسی شے کو دیکھ رہا ہوتا ہے ‘لیکن یقین نہیں آتا کہ میں ٹھیک دیکھ رہا ہوں ‘اور کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ انسان پکار اُٹھتا ہے کہ ’’آنچہ می بینم بہ بیداریست یا رب یا بخواب!‘‘ اس وسوسے کا کلیۃً ازالہ اُس وقت ہو جائے گا جب وہ آگ آپ کو چھو جائے یا آپ اس آگ کو خود چھو لیں. اب یقین ہو جائے گا کہ یہ واقعتا آگ ہے‘ محض صورتِ آگ نہیں ہے بلکہ حقیقت ِ آگ ہے. اس تجربے ہی سے آپ کو صحیح اندازہ ہوگا کہ آگ کہتے کسے ہیں! اگر کبھی انگارے نے آپ کے جسم کے کسی حصے کو چھوا نہ ہو اور آپ نے ساری عمر آگ صرف دیکھی ہو تو اس کی اصل حقیقت کا علم اور ادراک آپ کو حاصل ہو ہی نہیں سکتا. یہ ہے وہ ذاتی تجربہ جس کی رسائی جب انسان کے اپنے احساس تک ہو جاتی ہے تو اس کو ’’حق الیقین‘‘ کہا جاتا ہے.
اب ظاہر بات ہے کہ انبیاء و رُسل کو جو یقین دوسروں تک منتقل کرنا ہے اس کے پیش نظر ان کا اپنا یقین و ایمان اگر حق الیقین کے درجے تک نہ پہنچا ہو اور ان کے اپنے تجربے اور احساس کا جزو نہ بن چکا ہو تو مطلوب حاصل نہیں ہوسکتا. پھر یقین کی وہ کیفیت پیدا نہیں ہوسکتی کہ وہ مجسم ّایمان و یقین بن جائیں کہ ان کی شخصیتوں سے یقین متعدی ہورہا ہو‘ پھیل رہا ہو. اس کے لیے ان کا تجربہ‘ ان کا معائنہ اور ان کا مشاہدہ اگر نہ ہو تو یقین کا وہ درجہ کبھی پیدا نہیں ہوسکتا کہ ان کی شخصیتوں سے یقین متعدی ہوجائے‘ لوگوں تک پہنچے. جیسے اگر آگ کی بھٹی ہو تو اس سے حرارت خود بخود نکلتی ہے اور دوسروں تک پہنچ جاتی ہے. یہ ہے اصل میں وہ سبب جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ عالمِ ملکوت کے مشاہدات انبیاء و رسل کو کراتا ہے. یہ مکاشفات کی شکل میں بھی ہوئے ہیں‘ یہ رؤیا کی شکل میں بھی ہوئے ہیں. یہ حالت ِ نوم میں بھی ہوئے ہیں‘ حالت ِ بیداری میں بھی ہوئے ہیں اور ان دونوں یعنی خواب و بیداری کی درمیانی کیفیت میں (بَینَ النَّوم وَالیَقظۃ) بھی ہوئے ہیں. اس میں کچھ چیزوں کو ممثّل کرکے بھی دکھایا گیا ہے. بعض حقائق کا براہِ راست مشاہدہ کرایا گیا ہے. جیسے جیسے مراتب ہیں ویسے ویسے ہی ان تجربات و مشاہدات کا معاملہ ہے. سورۃ الانعام کی آیت ۷۵ میں فرمایا گیا:
وَ کَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ ﴿۷۵﴾
’’اور اسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے رہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا نظام تاکہ وہ پوری طرح یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے.‘‘
’’ملَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ‘‘ یعنی اس کائنات کی خفیہ حکومت کا جو انتظام و انصرام ہے‘ اس کے جو کارندے ہیں‘ اس کی جو سول سروس ہے ‘یعنی ملائکہ‘ جو لوگوں کی نگاہوں سے مخفی ہیں. ملائکہ تو ہر جگہ موجود ہیں‘ ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ ہیں‘ کرامًا کاتبین موجود ہیں لیکن وہ مخفی ہیں. وہ غیب میں ہیں یا ہم ان سے غیب میں ہیں. اس عالم کا ابراہیم علیہ السلام کو مشاہدہ کرایا جاتا رہا ہے. آسمانوں اور زمین کی اس خفیہ حکومت‘ اس غیبی حکومت کے رموز و اسرار اور معاملات دکھائے جاتے رہے ہیں اس آیت کا آخری ٹکڑا میری اس گفتگو کے اعتبار سے بہت اہم ہے: وَ لِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ ﴿۷۵﴾ ’’تاکہ وہ (یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام ) اصحابِ یقین میں سے بن جائے‘‘. ایمان تو محض خبر کی بنیاد پر بھی ہے‘ لیکن میں نے یقین کا جو بلند ترین درجہ عرض کیا ہے وہ مشاہدے اور ذاتی تجربے کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے. اس بلند ترین درجے کا یقین انبیاء و رسل کو دینا مقصود ہوتا ہے ‘لہذا انہیں یہ مشاہدات و تجربات کرائے جاتے ہیں.
البتہ جیسے نبوت و رسالت کے سلسلے کی تکمیل نبی اکرمﷺ کی ذاتِ گرامی پر ہوئی ہے‘ اسی طرح ان مشاہدات کے بارے میں بھی چوٹی کا مشاہدہ اور ذاتی تجربات کے ضمن میں بھی بلند ترین تجربہ وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کو ہوا‘ جسے ہم معراج کے نام سے جانتے ہیں. لیکن نبی اکرمﷺ کے بارے میں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ واحد تجربہ نہیں ہے‘ آپؐ کو بے شمار تجربات ہوئے ہیں. آپؐ صلوٰۃِ استسقاء پڑھا رہے ہیں اور جنت آپؐ کے سامنے لے آئی گئی اور بے اختیار آپؐ کا ہاتھ اُٹھا اور آگے بڑھا تاکہ آپ جنت کے کسی درخت کا پھل یا میوہ توڑ لیں. یہ ہاتھ کا اُٹھنا اور بڑھنا ایک غیراختیاری عمل تھا. اس نوع کے عمل میں کسی ارادے کو دخل نہیں ہوتا. پھر جہنم سامنے لے آئی گئی اور آپؐ بے اختیار اس کی حرارت‘ اس کی گرمی‘ اس کی دہشت سے اچانک پیچھے ہٹے. یہ تمام تجربہ نماز میں ہورہا ہے‘ عالم بیداری میں ہورہا ہے. حضورﷺ خلوت میں نہیں ہیں‘ مجمع میں ہیں‘ وہاں ہورہا ہے. مختصراً یہ کہ ہم ان مشاہدات کا احاطہ کر ہی نہیں سکتے جو جناب محمد ٌرسول اللہ ﷺ کو ہوئے.