آگے بڑھنے سے قبل واقعۂ معراج سے متعلق ایک ظاہری الجھن کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہ حقیقت ہے کہ جہاں تک نفسِ واقعہ کا تعلق ہے اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے. سب مانتے ہیں کہ سیرت میں ایسا کوئی واقعہ ہوا تو ضرور ہے. البتہ اس کی تفصیلات کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں‘ جن میں بظاہر بہت اختلاف ہے. یعنی مجرد واقعۂ معراج تو متفق علیہ ہے‘ لیکن اس خاکے میں جو رنگ ہیں‘ وہ مختلف روایات میں جدا جدا ہیں. ان میں بھی ایک تو اس نوعیت کی چیزیں ہیں جن میں ہم آہنگی کی جاسکتی ہے اور وہ باہم منطبق ہوجاتی ہیں. اس بات کو اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک واقعہ آپ نے دیکھا اور وہی واقعہ کسی اور نے بھی دیکھا تو آپ اس کو جس انداز میں بیان کریں گے ہوسکتا ہے کہ دوسرا اس کو اس انداز سے نہیں بلکہ کسی اور انداز سے بیان کرے. یعنی آپ اس واقعہ کی ایک کڑی کو زیادہ تفصیل سے بیان کریں اور شاید دوسرے صاحب اس کو اجمالی طور پر بیان کریں اور کسی دوسری کڑی کو زیادہ تفصیل سے بیان کریں. ہر شخص کا ایک اپنا ذوق اور اپنا مزاج ہوتا ہے اور اسی کے اعتبار سے واقعات کا بیان بھی ہوتا ہے. ہوسکتا ہے کہ آپ کے ذوق کے اعتبار سے کوئی بات آپ کے نزدیک کم اہمیت رکھتی ہے تو اگرچہ آپ اسے سنیں گے یا دیکھیں گے بھی‘ لیکن وہ آپ کے حافظے میں محفوظ نہیں رہے گی‘جبکہ ایک دوسری چیز کی طرف آپ کو زیادہ میلان ہے‘ اس کو آپ پوری طرح گرفت میں لائیں گے‘ اسے catch کریں گے اور محفوظ کرلیں گے. تو ایک ہی واقعہ بیان کیا جارہا ہے‘ اسے دو نے سنا‘ پانچ نے سنا‘ تو جب یہ حضرات اس کو بیان کریں گے تو تھوڑا تھوڑا فرق ہو جائے گا ‘لیکن آپ اس فرق کو جوڑ کر ایک وحدت بنا سکتے ہیں. لہذا روایات میں ایک اختلاف تو اس نوعیت کا ہے جس میں کسی تاویل کی کوئی ضرورت نہیں ہے. کہیں یہ ہوگا کہ اس واقعہ کا کوئی درمیانی یا بعد کا حصہ کوئی شخص پہلے بیان کردے گا اور اسے جب یاد آجائے گا تو وہ پہلا حصہ بعد میں بیان کردے گا. یہ تقدیم و تاخیر والی باتیں بھی بالکل سمجھ میں آنے والی ہیں. عقلِ انسانی ان کو ہم آہنگ (reconcile) کرسکتی ہے.
البتہ بعض باتیں ایسی ہیں جو ناقابلِ تطبیق (irreconcilable) ہیں‘ وہ بالکل متضاد نوعیت کی ہیں. مثلاً کہیں تو یہ بیان کیا گیا کہ سفرِ معراج مقامِ حطیم سے شروع ہوا. کسی دوسری روایت میں بیان ہورہا ہے کہ اس کا آغاز کسی گھر سے ہوا‘ حضورﷺ کے اپنے گھر سے یا حضرت اُمِّ ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر سے‘ جو آنحضرتﷺ کی چچا زاد بہن ہیں. کسی روایت کے آخر میں الفاظ ایسے آگئے ہیں :ثُمَّ اسْتَیْقَظْتُ ’’پھر میں جاگ گیا.‘‘ جس سے خیال ہوتا ہے کہ یہ سارا واقعہ عالم خواب اور نیند میں ہوا. اس لیے کہ ’’اِسْتَیقَظْتُ‘‘ کے معنی کوئی اور نہیں ہوسکتے‘ لہذا تاویل ممکن نہیں. یہ جو اس نوعیت کی تضاد کی حامل روایات ہیں‘ جن کو ایک دوسرے کے ساتھ باہم جوڑنا ممکن نہیں ہے‘ ایسی روایات کی ایک نہایت عمدہ تاویل بہت سے محققین ِاُمت کی جانب سے یہ کی گئی ہے کہ واقعۂ معراج بھی ایک بار نہیں ہوا‘ کئی بار ہوا ہے. اس طرح کوئی روایت بھی رد نہیں ہوتی. بعض محققین اس تاویل کو تسلیم نہیں کرتے کہ واقعہ ٔمعراج بار بار ہوا ہے ‘بلکہ وہ اپنی تحقیق کی بنیاد اس روایت کو بناتے ہیں جسے وہ زیادہ معتبر سمجھتے ہیں اور صرف اسی کو قبول کرتے ہیں‘ چنانچہ اسی کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور بقیہ روایات کو وہ رد کردیتے ہیں. سلف سے یہ اختلاف چلا آرہا ہے اور یہ آئندہ بھی رہے گا. اپنے ذاتی مطالعہ اور غوروفکر سے جس نتیجے پر میں پہنچا ہوں‘ وہ میں آپ کے سامنے بیان کردیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جناب محمد ٌرسول اللہ ﷺ کو معراج کی سعادت کم از کم دو مرتبہ حاصل ہوئی ہے.
ایک مرتبہ یہ واقعہ نبوت کے ابتدائی دور میں پیش آیا. یوں سمجھئے کہ یہ معراج نبوت کے سن دو یا تین میں ہوا ‘یعنی ۴۲ یا ۴۳ سنِ ولادت میں. اور یہ معراج ہوا ہے حالت ِ نوم میں. ایسی روایات اس معراج کے ساتھ جڑیں گی جن کے آخر میں مذکور ہے ’’ثُمَّ اسْتَیْقَظْتُ‘‘ یعنی ’’پھر میں جاگ گیا‘‘. یہ جو تجربہ ہے اس کو نیند میں ایک روحانی تجربے‘ ایک مکاشفے یا خواب سے تعبیر کیا جائے گا. اور جو دوسرا واقعہ ہے‘ جو انتہائی مشہور و معروف ہے او رجس کو ہم ’’معراج‘‘ کے نام سے جانتے ہیں‘ یہ نبوت کے سن گیارہ کے اواخر یا سن بارہ کے اوائل میں ہوا ہے. گویا یہ آں حضورﷺ کی عمر شریف کا ۵۲واں سال ہے‘ یعنی ہجرت سے لگ بھگ دو سال قبل. یہ واقعہ درحقیقت ان تجربات کی‘ جو آنحضورﷺ کو اُس وقت تک ہوئے تھے‘ تکمیل ہے او ریہ تجربہ ان تمام تجربات کا نقطۂ عروج ہے. اور یہ سفر ہرگز نیند میں نہیں ہوا. یہ صرف روحانی تجربہ نہیں ہے‘ یہ کوئی رؤیا یا خواب نہیں ہے‘ بلکہ یہ سفر ہے بِجَسَدِہٖ. نبی اکرم ﷺ کے پورے جسدِ مبارک کے ساتھ معراج کا یہ پورے کا پورا سفر پیش آیا.