آیت زیر مطالعہ میں پہلی قابل توجہ بات لفظ ’’سبحان‘‘ ہے. یعنی جو ہستی اس فعل (اسراء) کی فاعل ِحقیقی ہے وہ ’’سُبُّوْح‘‘ ذات ہے. اگر یہ بات کسی انسان کی طرف منسوب ہوتی تو اوربات تھی. اگر یہ فعل حضور کی طرف منسوب ہو تا کہ حضوؐ رخود تشریف لے گئے تو اور بات تھی. لیکن وہاں تو صورت بالفعل یہ تھی : ع ’’کہ میں آیا نہیں‘ لایا گیا ہوں‘‘ حضور خود نہیں گئے‘ لے جائے گئے تھے. اور لے جانے والی ذات کون ہے؟ سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ … جو پاک ہے ہر عیب سے‘ ہر نقص سے‘ ہر ضعف سے‘ ہر کوتاہی سے‘ ہر درماندگی سے. اور وہ ذات سبوح ہے‘ ّمنزہ ہے‘ ارفع ہے‘ اعلیٰ ہے‘ بالاترین ہے.لہذا اس کی قدرت سے ہرگز بعید نہیں کہ وہ اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور پھر مسجد اقصیٰ سے سدرۃ المنتہیٰ تک لے جائے اور واپس لے آئے اور مسجد حرام میں پہنچادے. بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور کی مراجعت پر وضو کا پانی ابھی بہہ رہا تھا اور حضوؐ رکے مکان کے دروازے کی کنڈی ابھی ہل رہی تھی. معلوم ہوا کہ ابھی وقت نہیں گزرا (۱اور یہ چیز‘ جیسا کہ میں نے (۱) اس موقع پر اس عاجز کو مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’معراج‘‘ کے موضوع پر کی گئی ایک تقریر کا وہ حصہ اچانک یاد آگیا جو اسی مسئلہ سے متعلق تھا. یہ تقریر اس عاجز نے نوجوانی کے دور میں سنی تھی. ایک مسجد میں تقریر تھی. اس زمانے میں عموماً وقت بتانے والے وہ گھنٹے ہوا کرتے تھے جو چابی اور pendulum رحمہ اللہ علیہ (لنگر) سے چلتے تھے. مولانا مرحوم جب تقریر میں اس موضوع پر آئے تو انہوں نے ایک بڑی پیاری مثال سے اس مسئلہ کو سمجھایا. انہوں نے فرمایاکہ ’’آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ اس گھنٹہ میں چابی بھری ہوئی ہے لیکن یہ گھنٹہ پینڈولم کے رقص کی بدولت چل رہا ہے اور وقت بتا رہا ہے. اِس وقت اس میں گیارہ بج رہے ہیں. اب اگر میں اس کو روک دوں تو یہ گیارہ بجے کے وقت پر رک جائے گا. بعد ازاں ایک یا دو دن یا چند ہفتوں یا چند مہینوں کے بعد اس پینڈولم کو حرکت دی جائے تو یہ ٹھیک گیارہ بجے سے‘ جہاں اسے روکا گیا تھا‘ حرکت میں آجائے گا‘‘.

مولانا نے یہ مثال دے کر آگے فرمایا کہ ’’ہم جس اللہ کو مانتے ہیں وہ ’’علٰی کُلِّ شَیئٍ قَدیر‘‘ ہے اور اس کائنات کے رواں دواں رہنے میں ہر لحظہ اور ہر آن اسی کا حکم کارفرما ہے ’’لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ‘‘. اب جبکہ اس نے اپنے بندے محمد ٌرسول اللہ  کو معراج عطا فرمایا تو اُس نے کائنات کو (suspend) ہونے کا حکم دیا. چنانچہ ہر چیز کی حرکت اسی جگہ رک گئی. بعدہٗ اللہ تعالیٰ سبحانہ رسول اللہ  کو پہلے مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا‘ جہاں آپؐ کی امامت میں تمام انبیاء و رسل نے نماز پڑھی ‘جو گویا علامت تھی اس بات کی کہ آپؐ سید الانبیاء و الرسل ہیں. اس کے بعد آپؐ حضرت جبرائیل ؑ کی معیت میں یکے بعد دیگرے ساتوں آسمانوں پر اور پھر سدرۃ المنتہیٰ تک تشریف لے گئے. آپؐ کو جنت اور دوزخ کی سیر کرائی گئی. اس کے بعد حضور کو واپس اپنے مستقر پر بھیج دیا گیا اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے کائنات پھر رواں دواں ہوگئی. چنانچہ جو چیز جس مقام پر روک دی گئی تھی‘ اسی جگہ اس نے حرکت شروع کردی‘‘. مولانا نے فرمایا کہ ’’یہ ایک عقلی توجیہہ ہے اس بات کی کہ حضور کی واپسی پر کنڈی ہل رہی تھی‘ وضوکا پانی بہہ رہا تھا اور بستر میں حرارت موجود تھی.‘‘ (ج.ر) عرض کیا‘ آج کا جو ذہن ہے اس کی روسے ناقابل ِقیاس اور ناقابل ِیقین نہیں رہی. 

دوسری قابل توجہ بات ہے لفظ ِ ’’عبد‘‘ ایک اس پہلو سے کہ لفظ عبد کا اِطلاق صرف روح پر نہیں‘ بلکہ روح اور جسد دونوں پر ہوگا. ہم عبد ہیں‘ صرف ہماری روح کو عبد نہیں کہا جائے گا. ہم اپنی روح کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے تو روح ِ محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی حقیقت کو کیا سمجھ سکیں گے! بلکہ جان لیجئے کہ عبد کا اطلاق اکثر و بیشتر توجسد پر ہوگا. اس صراحت سے یہ اضافی بات معلوم ہوئی کہ صرف روحِ محمد نہیں لے جائی گئی بلکہ بنفسِ نفیس حضرت محمد ٌرسول اللہ لے جائے گئے. او ر’’محمد ‘‘ کا اطلاق روح ِ محمدیؐ اور آپؐ کے جسد شریف دونوں کے مجموعے پر ہوگا‘ صرف روح پر نہیں ہوگا.