تیسری بات جو بہت قابل ِلحاظ ہے وہ یہ ہے کہ یہ جو مقامِ عروج ہے‘ جس کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں ہو رہا ہے‘ اس میں حضور کی دو نسبتوں میں سے جس کا حوالہ دیا جارہا ہے‘ وہ نسبت ِ رسالت نہیں ہے‘ بلکہ نسبت ِ عبدیت ہے. ویسے بھی عام طور پر قرآن مجید میں جہاں اللہ تعالیٰ کی عنایت ِ خصوصی اور شفقت ِ خصوصی کا اظہار ہوتا ہے‘ وہاں آپ کی نسبت ِ عبدیت کا ذکر ملتا ہے‘ جیسے ہم نے یہاں دیکھا‘ یا جیسے اگلی سورۃ الکہف کے آغاز میں ہے: اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا ؕ﴿ٜ۱﴾ اور جیسے سورۃ الفرقان کے آغاز میں ہے:تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱﴾ اسی طریقے سے سورۃ النجم میں ارشاد ہوا: فَاَوۡحٰۤی اِلٰی عَبۡدِہٖ مَاۤ اَوۡحٰی ﴿ؕ۱۰﴾ اسی طرح یہاں ہے: سُبْحٰنَ امامت میں تمام انبیاء و رسل نے نماز پڑھی ‘جو گویا علامت تھی اس بات کی کہ آپؐ سید الانبیاء و الرسل ہیں. اس کے بعد آپؐ حضرت جبرائیل ؑ کی معیت میں یکے بعد دیگرے ساتوں آسمانوں پر اور پھر سدرۃ المنتہیٰ تک تشریف لے گئے. آپؐ کو جنت اور دوزخ کی سیر کرائی گئی. اس کے بعد حضور کو واپس اپنے مستقر پر بھیج دیا گیا اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے کائنات پھر رواں دواں ہوگئی. چنانچہ جو چیز جس مقام پر روک دی گئی تھی‘ اسی جگہ اس نے حرکت شروع کردی‘‘. مولانا نے فرمایا کہ ’’یہ ایک عقلی توجیہہ ہے اس بات کی کہ حضور کی واپسی پر کنڈی ہل رہی تھی‘ وضوکا پانی بہہ رہا تھا اور بستر میں حرارت موجود تھی.‘‘ (ج.ر) الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا…

یہاں یہ نکتہ جان لیجئے کہ نسبت ِ عبدیت بالاتر ہے نسبت ِرسالت سے اور اگر اسے صوفیاء کی اصطلاح سے سمجھیں تو وہ یہ ہے کہ نسبت ِ عبدیت ایک عروجی نسبت ہے‘ جبکہ نسبت ِرسالت ایک نزولی نسبت ہے. اگر آپ اس امر کو ذہن میں رکھیں گے تو بات آسانی سے سمجھ میں آجائے گی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب پہلی وحی ہوئی یا آپؑ اللہ تعالیٰ سے مخاطبہ یا مکالمہ سے جو مشرف ہوئے تو آپ کوہ طور پر تھے‘ بلند مقام پر تھے. اور اس سے اعلیٰ مقام کیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ سے بلاواسطہ گفتگو ہورہی ہے‘ درمیان میں کوئی واسطہ حائل نہیں ہے. قرآن حکیم کے الفاظ ہیں: وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوۡسٰی تَکۡلِیۡمًا ﴿۱۶۴﴾ۚ (النساء) ’’اور اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑسے کلام فرمایا جیسے کہ کلام کیا جاتا ہے‘‘.یہاں موسیٰؑ کیا ہیں؟ عبد ہیں! اور جب رسالت کا حکم ملا تو فرمایا گیا: اِذۡہَبۡ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿٪۲۴﴾ (طٰہٰ)’’جاؤ فرعون کی طرف‘ بے شک وہ بہت سرکش ہوگیا ہے‘‘. اب حضرت موسیٰ علیہ السلام پہاڑ سے اتریں گے تو فرعون کی طرف جائیں گے. کسی کے پاس سے کوئی جاتا ہے تو اُس کی طرف پیٹہ کرکے جاتا ہے‘ جبکہ اُس کے سامنے دست بستہ کھڑا ہوتا ہے تو اُس کے حضور میں ہے‘ مواجہہ کررہا ہے‘ face to face ہے. تو غور کیجئے کہ کون سی نسبت بالاتر ہوئی! ظاہر ہے کہ نسبت ِ عبدیت ‘ جس میں رخ اللہ کی طرف ہوتا ہے. جبکہ رسالت ایک فرضِ منصبی ہے کہ جاؤ ادا کرو. اس کا رخ مخلوق کی طرف ہوتا ہے. 

مولانا رومؒ نے اس کو ایک تمثیل کے پیرائے میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے. اصل میں ان حقائق کو جاننے والے یہ صوفیاء ہی ہیں‘ یہ نہ فقہاء کا دائرہ ہے نہ محدثین کی دلچسپی کا میدان. اس لیے کہ ہر ایک کے اپنے اپنے دائرے ہیں اور ان دائروں میں سب نے اپنے اپنے کام کیے ہیں. یہ تمام اصحاب ہمارے محسن ہیں‘ لیکن ہر طبقے کا اپنا اپنا ذوق اور اپنا اپنا میدان (field) ہے. چنانچہ عبدیت و رسالت میں فرق مراتب ہمارے صوفیاء نے قائم کیا ہے. مولانا رومؒ نے اس کے لیے بارش کی مثال دی ہے. ہماری دنیا میں بارش کا جو نظام چل رہا ہے وہ یہ ہے کہ سمندر سے بخارات اُٹھ رہے ہیں. یہ عروج ہے. بخارات نہایت لطیف حالت میں ہیں‘ نہایت پاک و صاف ہیں. اس عملِ تبخیر کے ذریعے تطہیر ہورہی ہے. پانی کو بھاپ بنایا جارہا ہے. اس میں ظاہر ہے کہ کثافت تو ساتھ نہیں جائے گی. پانی انتہائی لطیف اور پاک و صاف صورت میں اوپر جارہا ہے. اوپر جاکر ان بخارات نے بادلوں کی شکل اختیار کرلی. ہوائوں کے دوش پر یہ بادل فضا میں تیرتے ہیں. پھر بارش بن کر وہی پانی زمین پر نازل ہورہا ہے. اب اس نزولِ بارش سے کیا ہوگا! پہلے وہ پانی فضا کو دھوئے گا. اس عمل میں فضا کی کچھ نہ کچھ کثافت برستے پانی میں شامل ہوجائے گی. پھر وہ بارش زمین تک پہنچے گی اور زمین کو دھوئے گی. اس مرحلے پر کچھ مزید کثافتیں اس میں شامل ہو جائیں گی. یہ پانی ندیوں‘ نالوں اور دریاؤں سے ہوتا ہوا پھر سمندر میں پہنچے گا. اب وہ ساری کثافتیں سمندر میں رہ جائیں گی اور پھر وہی پانی لطیف اور پاک و صاف ہوکر بخارات کی صورت میں آسمان کی طرف اُٹھ جائے گا. یہ عروج ہے اور وہ نزول ہے. نزول سے فضا اور زمین کی صفائی ہورہی ہے جبکہ عروج میں پانی کی اپنی صفائی ہوتی ہے. 

عروج و نزول کا یہی سائیکل عبدیت و رسالت کے مابین چلتا ہے. رات کو اللہ کا بندہ اُس کے حضور میں کھڑا ہے. یہ کس کی صفائی ہے؟ اپنی! کس چیز سے صفائی یہ میں بعد میں عرض کروں گا. اس کو کہیں اپنی کثافتوں پر قیاس نہ کرلیجئے گا. وہ کثافتیں ان ہستیوں کے کہیں آس پاس بھی نہیں ہوتیں. ع ’’گر حفظ ِمراتب نہ کنی زندیقی‘‘ لیکن دن کے لیے کیا حکم ہے؟ اب نزول کا مرحلہ ہے. جائو لوگوں کی طرف‘ انہیں اللہ کا پیغام پہنچاؤ‘ ان کو اللہ کے راستے کی طرف پکارو. یہ کام منصب رسالت سے تعلق رکھتا ہے. مکہ کے مشرکانہ ماحول میں نبی اکرم  توحید کی دعوت پہنچا رہے ہیں. مجمعوں میں قرآن پیش فرمارہے ہیں‘ گھروں پر دستک دے رہے ہیں‘ دربدر تشریف لے جارہے ہیں. لیکن ہوکیا رہا ہے؟ یہی کہ کسی نے استہزا اور تمسخر کیا‘ کسی نے گالی دے دی‘ کسی نے شاعر کہا‘ کسی نے مجنون و دیوانہ کہا تو کسی نے ساحر اور جادوگر کہہ دیا‘ کسی نے کاہن کہہ دیا. ان باتوں سے قلب ِمحمد میں کچھ کدورت پیدا ہوتی ہوگی یا نہیں؟ آپؐ کی طبعِ مبارک کو رنج پہنچتا ہوگا یا نہیں؟ یہ اثرات بالکل مترتب نہ ہوں‘ یہ ناممکن ہے. اسی لیے تو قرآن مجید میں مختلف اسالیب سے حضور کو تسلی دی جاتی رہی ہے‘ جیسے فرمایا گیا: وَلَقَدْ نَعْلَمُ اِنَّہٗ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْْلُوْنَ (الانعام:۳۳’’ہمیں بخوبی علم ہے کہ آپؐ کی طبیعت پر ان کی باتوں سے تکدر پیدا ہوتا ہے‘ آپؐ ملول اور غمگین ہوتے ہیں‘‘.اور نٓ وَ الۡقَلَمِ وَ مَا یَسۡطُرُوۡنَ ۙ﴿۱﴾مَاۤ اَنۡتَ بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ بِمَجۡنُوۡنٍ ۚ﴿۲﴾ (القلم) ’’ن. قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں (یعنی قرآن). آپ (اے محمد ) اپنے رب کے فضل سے ہرگز مجنون نہیں ہیں‘‘. چنانچہ نبی اکرم کو ایک طرف تسلی دی جارہی ہے. اور دوسری طرف جو تکدر آپؐ کے دل پر آگیا ہے اسے دور کرنے کے لیے حکم ہورہا ہے کہ راتوں کو کھڑے رہا کیجئے:

یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا ﴿۵﴾ (المزمل)
’’اے لحاف اوڑھ کر لیٹنے والے! آپ رات کو (نماز میں) کھڑے رہا کریں مگر کم. آپ آدھی رات یا اس سے کچھ کم کرلیں‘ یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دیں‘ اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر (حالت ِ قیام میں) پڑھا کریں. ہم آپ پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں.‘‘

اب یہ عروجی کیفیت ہے‘ یہ نسبت ِ عبدیت ہے کہ ’’عَبْدُہٗ‘‘ یعنی محمد ‘ اُس (اللہ تعالیٰ) کا بندۂ خاص‘ اُس کے حضور میں راتوں کو کھڑا ہے‘ اللہ تعالیٰ سے لو لگی ہوئی ہے اور اپنے رب‘ اپنے مولا‘ اور اپنے حامی و ناصر کے حضور میں مناجات ہورہی ہے. دن میں نزولی کیفیت ہے کہ لوگوں کے اَذہان و قلوب کو نورِ توحید سے منور کرنے کی سعی ہو رہی ہے‘ ماحول کو صاف کرنے کی ّجدوجہد ُہورہی ہے. اسی طرف اشارہ ہے سورۃ المزمل کی آیات ایک تا دس میں‘ جن میں سے پہلی پانچ آیات اور ان کا ترجمہ ابھی آپ نے ملاحظہ کیا. اب اگلی چند آیات اور ان کا ترجمہ بھی دیکھ لیجئے تاکہ بات مکمل ہوجائے. فرمایا:

اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیۡلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطۡاً وَّ اَقۡوَمُ قِیۡلًا ؕ﴿۶﴾اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبۡحًا طَوِیۡلًا ؕ﴿۷﴾وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡہِ تَبۡتِیۡلًا ؕ﴿۸﴾رَبُّ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ فَاتَّخِذۡہُ وَکِیۡلًا ﴿۹﴾وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا ﴿۱۰﴾ (المزمل)
’’(اے نبی !) درحقیقت رات کا اُٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے. بلاشبہ آپؐ کے لیے دن میں (تبلیغ کی) بڑی مصروفیات ہیں (بڑی محنت اور مشقت ہے‘ لیکن اس میں بھی) اپنے رب کے نام کا ذکر کیجئے اور سب سے کٹ کر اُسی کے ہورہیے. وہ (اللہ) مشرق و مغرب کا مالک ہے‘ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ لہٰذا اُسی کو اپنا پشت پناہ بنائیے (اسی پر بھروسا کیجیے) اور (اے نبیؐ آپ کی دعوت پر) لوگ جو باتیں بنا رہے ہیں ان پر صبر کیجئے اور ان سے خوش اسلوبی کے ساتھ کنارہ کش ہوجائیے.‘‘

طنز و استہزا اور طعن و تشنیع کے گھاؤ بڑے کاری ہوتے ہیں‘ ان کو جھیلنا آسان نہیں. اس سے طبیعت ِ مبارک پر جو تکدر آتا تھا اس کا ازالہ اُس وقت ہوتا تھا جب ’’عبدہٗ‘‘ نسبت ِ عبدیت کے اعتبار سے رات کی تنہائیوں میں اپنے رب کے حضور کھڑا ہوتا تھا اور حالت ِ عروجی کی کیفیات سے بہرہ مند ہوتا تھا. تو یہاں لفظ ’’عبد‘‘ کے حوالے سے ان حقائق کو ذہن نشین کرلیجئے.