میں چاہتا ہوں کہ حدیث کے بیان کی تکمیل سے قبل ہم اس واقعہ سے متعلق سورۃ النجم کی آیات کا مطالعہ بھی کرلیں. سورۃ النجم کی ابتدائی آیات مشکلات القرآن میں سے ہیں اور ان کی تفسیر و تشریح میں اختلاف سلف سے چلے آرہے ہیں. نبی اکرم کو جو مشاہدات کرائے گئے او رجن کا ذکر سورۃ النجم کی ابتدائی آیات میں ہوا ہے‘ اس وقت میں ان سب سے بحث نہیں کروں گا‘ البتہ جس مشاہدے کا ذکر آیات۱۱ تا ۱۸ میں آیا ہے‘ میں اس کا ذکر کروں گا‘ کیونکہ ان آیات کا تعلق تقریباً تمام مفسرین و علمائے امت کے نزدیک واقعہ معراج سے ہے. فرمایا مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴿۱۱’’جو کچھ انہوں ( ) نے اپنی نگاہوں سے دیکھا اس کو ان کے دل نے جھٹلایانہیں‘‘. اس کی طرف میں قبل ازیں اشارہ کرچکا ہوں کہ ایک ہمارا مشاہدہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ وسوسے بھی ہوتے ہیں کہ یہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں کیا یہ واقعتا ایسا ہی ہے؟ جو آگ سامنے نظر آرہی ہے وہ درحقیقت آگ ہے یا آگ کی سی صورت ہے؟ آج کل تو اس طرح کے لیمپ اور ہیٹر بنے ہوئے ہوتے ہیں کہ انسان کو ان کے اندر حقیقی انگارے دہکتے نظر آتے ہیں‘ ان سے انسان دھوکہ کھا سکتا ہے‘ حالانکہ انگاروں کا وجود ہی نہیں ہوتا. تو ہماری آنکھ دھوکہ کھاجاتی ہے‘ لیکن نبیؐ کا جو مشاہدہ ہوتا ہے وہ آنکھ اور دل‘ نظر و قلب‘ بصارت و بصیرت کی یکجائی کے ساتھ ہوتا ہے. اس میں فرق و تفاوت اور وسوسہ نہیں ہوتا. اسی حقیقت کے اظہار کے لیے نہایت فصاحت و بلاغت اور اعجاز و ایجاز کے ساتھ فرمایا: مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴿۱۱﴾ 

آگے فرمایا: 
اَفَتُمٰرُوۡنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی ﴿۱۲﴾ ’’لوگو! کیا تم ان چیزوں کے بارے میں ان سے جھگڑتے ہو جو وہ دیکھتے ہیں؟‘‘ ان چیزوں کے بارے میں تو جھگڑا ہو سکتا ہے جو کہیں سے سنی سنائی ہوں‘ لیکن تم محمد ( ) سے ان چیزوں کے بارے میں جھگڑ رہے ہو جو وہ دیکھتے ہیں چشم ِسر سے اور دل کی بصیرت سے؟ وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً 

اُخۡرٰی ﴿ۙ۱۳﴾ ’’اور وہ اسے ایک بار اور بھی دیکھ چکا ہے ‘‘. ہمارے رسول کا یہ مشاہدہ پہلی بار نہیں ہوا‘ ایک مرتبہ پہلے بھی ہوچکا ہے. موجودہ مشاہدہ ان کو کہاں ہوا؟ عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی ﴿۱۴﴾ ’’سدرۃ المنتہیٰ کے پاس‘‘. عِنۡدَہَا جَنَّۃُ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۱۵﴾ ’’اسی (سدرۃ المنتہیٰ) کے پاس جنت الماویٰ ہے‘‘. وہ جنت جس کا وعدہ کیا گیا ہے اور جو اللہ کے نیکوکار بندوں کا ٹھکانہ بنے گی‘ جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے. جس کے متعلق سورۃ الزمر میں فرمایا گیا: وَ قَالَ لَہُمۡ خَزَنَتُہَا سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ طِبۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡہَا خٰلِدِیۡنَ ﴿۷۳﴾ ’’اور جنت کے داروغہ ان (نیکوکاروں) سے کہیں گے کہ سلامتی ہو تم پر‘ تم بہت خوش بخت رہے‘ داخل ہو جاؤ اس (جنت) میں ہمیشہ ہمیش کے لیے‘‘. یہاں نوٹ کرلیجئے کہ احادیث میں معراج کے موقع پر جنت کے مشاہدات کے جو احوال آئے ہیں‘ وہ جنت وہیں تو ہے. ان آیات میں ان احوال کا ذکر نہیں ہے. 
’’سدرہ‘‘ عربی زبان میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں. لفظ ’’منتہیٰ‘‘ انتہا سے بنا ہے‘ جس کا مفہوم وہ جگہ اور مقام ہے جہاں جاکر کوئی چیز ختم ہوجائے. یہ ’’سدرۃ المنتہیٰ‘‘ کیا ہے! اس کا سمجھنا ہمارے لیے ممکن نہیں. اس کے متعلق میں آگے چل کر کچھ عرض کروں گا. قرآن مجید نے یہاں ایسا انداز اختیار کیا ہے کہ ہر شخص اس اسلوب سے یہ جان لے کہ یہ میرے فہم سے بالاتر ہے. یہ منتہیٰ کس اعتبار سے ہے‘ اب اس کو سمجھنا چاہیے. یہ اس اعتبار سے ’’منتہیٰ‘‘ ہے کہ یہاں سے آگے مخلوق کا گزر نہیں ہے. یہ انتہا ہے. یہاں سے آگے حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی نہیں جاسکتے. اور نوٹ کیجئے کہ اس سے آگے جانے کا کہیں ٌمحمدرسول اللہ کا بھی ذکر نہیں ہے. یہ صرف ہماری شاعری میں ہے کہ حضور اس سے بھی آگے گزر گئے. لیکن اس کا قرآن مجید اور احادیث ِ شریفہ میں کہیں ذکر نہیں ہے. نبی اکرم بھی یہیں تک گئے ہیں. یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ اس بارے میں بھی وضاحت آئی ہے کہ وحی الٰہی بھی یہاں نازل ہوتی ہے اور یہاں سے فرشتے لے لیتے ہیں. گویا جو چیز بھی عرشِ الٰہی سے اترتی ہے‘ وہ بلاواسطہ اوّلاً یہیں نازل ہوتی ہے. اس سے آگے وہ حریم کبریا ہے جس میں مخلوق کا داخلہ ممکن نہیں ہے. عالم ِ خلق کی کوئی شے جو کبھی اوپر آسکتی ہے‘ وہ زیادہ سے زیادہ یہیں تک آسکتی ہے‘ اس سے آگے نہیں جاسکتی. حضرت جبرائیل علیہ السلام کی رسائی بھی یہیں تک ہے. لہٰذا نوٹ کیجئے کہ قرآن مجید نے جو ذکر کیا وہ سدرۃ المنتہیٰ کے آگے یا پار کا نہیں کیا‘ بلکہ فرمایا: وَ لَقَدۡ رَاٰہُ نَزۡلَۃً اُخۡرٰی ﴿ۙ۱۳﴾عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی ﴿۱۴

آگے فرمایا: اِذۡ یَغۡشَی السِّدۡرَۃَ مَا یَغۡشٰی ﴿ۙ۱۶﴾ ’’جب کہ اس بیری کے درخت کو ڈھانپے ہوئے تھا جو ڈھانپے ہوئے تھا‘‘. یعنی نہ اس کو زبان ادا کرسکتی ہے‘ نہ انسانی زبان میں وہ حروف و الفاظ ہیں جو اس کیفیت کو بیان کرسکیں یا اس کی تعبیر کرسکیں‘ نہ اس کا کوئی تصور انسان کے لیے ممکن ہے. جنت کی نعمتوں کے بارے میں ایک حدیث میں آیا ہے: مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ (۱’’وہ نعمتیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں‘ نہ کسی کان نے سنیں‘ نہ کسی انسان کے دل پر کبھی ان کا خیال تک آیا‘‘. اب انہیں بیان کریں تو کن الفاظ میں کریں! ان کا ابلاغ و اعلان کیسے ہو! وہ communicate کیسے ہوں! ابلاغ اور اعلان تو کسی ایسی چیز کے حوالے سے ہوتا ہے جس کا آپ کو تجربہ ہو‘ وہ آپ کی دید یا شنید میں آئی ہو‘ آپ کے ذہن میں اس کا کوئی تصور ہو‘ تو اس کے حوالے سے بات ہوسکتی ہے. لہذا یہاں اسلوب اور انداز یہ اختیار کیا گیا : اِذۡ یَغۡشَی السِّدۡرَۃَ مَا یَغۡشٰی ﴿ۙ۱۶﴾ ’’جبکہ سدرہ کو ڈھانپے ہوئے تھا جو ڈھانپے ہوا تھا‘‘. تجلیاتِ ربانی کس نوعیت اور کس کیفیت کی حامل تھیں‘ اسے سمجھنا انسانی ذہن کے لیے ممکن نہیں‘ تجلیات کا جو براہِ راست نزول ہورہا تھا‘ اس مہبط ِ تجلیات اور ان کے نزول کا نبی اکرم نے مشاہدہ فرمایا.