اب میں سورۃ النجم کی آیت ۱۷ کے متعلق کچھ عرض کروں گا جس کی تشریح و توضیح مؤخر کی گئی تھی‘ یعنی : مَا زاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغٰی ﴿۱۷﴾ اس مقام پر بڑی عجیب کیفیت بیان کی گئی ہے اور اس آیت کو سمجھنا آسان نہیں ہے جب تک آپ چند کیفیات کو اچھی طرح جان نہ لیں. ہمارے اپنے مشاہدے کے بارے میں ایک کیفیت یہ ہوتی ہے کہ مشاہدے کا شوق ہے اور وہ شوق اتنا ہے کہ حد ِ ادب سے بھی تجاوز کرنا چاہتا ہے لیکن ظرف اتنا نہیں ہے کہ دیکھ سکے. حسرت موہانی کا ایک شعر ہے ؎
غمِ آرزو کا حسرت سبب اور کیا بتائیں
مرے شوق کی بلندی‘ مری ہمتوں کی پستی!
شوق بہت بلند ہے‘ دیکھنا بہت کچھ چاہتے ہیں‘ لیکن آنکھیں چکا چوند ہو جاتی ہیں‘ دیکھ ہی نہیں سکتے. میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت ِقرآنیہ: مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغٰی ﴿۱۷﴾ ان دو متضاد کیفیات کو نہایت بلیغ اسلوب سے بیان کررہی ہے. جیسے عربی کا مقولہ ہے کہ ’’تُعْرَفُ الْاَشْیَاءُ بِاَضْدَادِھَا‘‘ یعنی کسی شے کی حقیقت کو اس کی ضد (antonym) کے حوالے سے بخوبی پہچانا جاسکتا ہے. جیسے رات کی حقیقت دن کے تقابل سے سمجھ میں آتی ہے اور دن کی حقیقت رات کے تقابل سے سمجھی جاسکتی ہے. اب علامہ اقبال کا وہ شعر ملاحظہ ہو جو ان کی نظم ’’ذوق و شوق‘‘ میں ہے. علامہ کی یہ نظم میرے نزدیک ان کے اردو کلام کی معراج (climax) ہے. اس نظم کے آخری حصے کا ایک شعر ہے ؎
عین وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا
گرچہ بہانہ ُجو رہی میری نگاہِ بے ادب!
دونوں اعتبارات سے جو ضد ہے اسے اقبال اس شعر میں لائے ہیں. یعنی ایک طرف میری نگاہ میں بے ادبی تھی‘ اور وہ چوری چوری بھی کچھ دیکھ لینا چاہتی تھی جس کا دیکھنا ادب کے خلاف ہے. لیکن دوسری طرف حوصلۂ نظر نہیں تھا‘ لہذا دیکھ نہیں سکی. اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب اس مشاہدے کی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کریں جو مشاہدہ ٌ محمدرسول اللہﷺ کررہے ہیں. میں عرض کرچکا ہوں کہ وہ مشاہدہ اللہ کا نہیں‘ بلکہ ’’اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی‘‘ کا مشاہدہ ہے. لیکن اس مشاہدے کی شان یہ ہے کہ نگاہ جمی رہی. یہ ظرف ہے محمد ِعربیﷺ کا‘ کہ نگاہیں چکا چوند نہیں ہوئیں. جہاں تیز روشنی ہو نگاہیں اس کا تحمل نہیں کرسکتیں اور دیکھنے والا نگاہ ہٹانے پر مجبور ہو جاتا ہے. لیکن وہاں حال یہ ہے کہ ’’مَا زَاغَ الْبَصَرُ‘‘ نگاہ کج نہیں ہوئی‘ ٹیڑھی نہیں ہوئی. جو کچھ دیکھا ہے نگاہ کو جماکر دیکھا ہے‘ جو مشاہدہ کیا ہے‘ بھرپور کیا ہے‘ پورے ظرفِ کامل کے ساتھ کیا ہے‘ پورے تحمل کے ساتھ کیا ہے‘ لیکن : ’’وَمَا طَغٰی‘‘ حد سے تجاوز نہیں کیا‘ بے ادبی کا کوئی امکان نہیں ہے. ’’طَغٰی‘‘ ہی سے طغیانی بنا ہے‘ یعنی حد سے نکل جانا ؎
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
’طَغٰی‘ حد سے تجاوز کو کہتے ہیں. وہ چونکہ مقامِ ادب بھی ہے‘لہذا وہاں حد سے تجاوز نہیں ہوا. العبدُ عبدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی‘ وَالرَّبُّ ربٌّ وَاِن تَنَزَّل ’’بندہ بندہ ہی رہے گا خواہ کتنے بلند مقام تک پہنچ جائے اور رب رب ہی رہے گا خواہ کتنا ہی نزولِ اجلال فرمالے‘‘. سدرۃالمنتہیٰ تک پہنچ کر بھی محمدﷺ مقامِ بندگی سے تجاوز نہیں کررہے ہیں. وہاں بھی حال یہ ہے کہ : فَاَوۡحٰۤی اِلٰی عَبۡدِہٖ مَاۤ اَوۡحٰی ﴿ؕ۱۰﴾’’پس (وہاں بھی) وحی پہنچائی اپنے بندے کو جو وحی پہنچانی تھی‘‘.لیکن عَبدہٗ وَرَسولُہ کے مشاہدے کی کیفیت یہ ہے کہ مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغٰی ﴿۱۷﴾ ’’نگاہ نہ کج ہوئی اور نہ ہی اس نے حد سے تجاوز کیا‘‘. لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی ﴿۱۸﴾ ’’بالتحقیق انہوں نے اپنے رب کی عظیم ترین آیات کا مشاہدہ کیا‘‘. اب ظاہر بات ہے کہ یہ آیاتِ کبریٰ ہمارے تخیل و تصور سے بالاتر ہیں او رانسانی زبان کے الفاظ ان کے بیان کا تحمل بھی نہیں کرسکتے. یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں بھی ان کا ذکر مجمل طور پر ہی کیا گیا ہے.