واقعہ ٔ معراج سے متعلق چند احادیث ِ نبویؐ اور آثارِ صحابہؓ 


ذیل میں چند ایسی احادیث پیش کی جارہی ہیں جن کا براہِ راست یا بالواسطہ حوالہ اس کتابچے میں آیا ہے. 

رؤیت باری تعالیٰ کے متعلق احادیث

(۱) عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  : اِنَّـکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّـکُمْ عِیَانًا وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَالَ: کُنَّا جُلُوْسًا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ  ‘ فَنَظَرَ اِلَی الْـقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِِ فَقَالَ: اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّـکُمْ کَمَا تَرَوْنَ ھٰذَا الْقَمَرَ‘لَا تُضَامُّوْنَ فِیْ رُؤْیَتِہٖ‘ فَاِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ لاَ تُغْلَبُوا عَلٰی صَلَاۃٍ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا فَافْعَلُوْا ثُمَّ قَرَأَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا 
(صحیح البخاری‘ کتاب التوحید‘ باب قول اللّٰہ تعالٰی وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ‘ وکتاب مواقیت الصلاۃ‘ باب فضل صلاۃ الفجر وباب فضل صلاۃ العصر. ومتعدد دیگر مقامات. وصحیح مسلم‘ کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ‘ باب فضل صلاتی الصبح والعصر والمحافظۃ علیھما. وسنن الترمذی‘ ابواب صفۃ الجنۃ. وسنن ابی داوٗد‘ کتاب السنۃ‘ باب فی الرؤیۃ. وسنن ابن ماجہ‘ المقدمۃ‘ باب فیما انکرت الجھمیۃ)

حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے فرمایا: ’’تم اپنے پروردگار کو عیاں دیکھو گے‘‘. ایک روایت میں ہے: ہم رسول اللہ  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے‘ آپؐ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’تم اپنے رب کی طرف دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو اوراس کے دیکھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے. اگر تم اس بات کی طاقت رکھو کہ تم سورج نکلنے اور غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھنے سے مغلوب نہ کردیے جاؤ تو ایسا ضرور کرو.‘‘ پھر یہ آیت پڑھی: ’’اور تسبیح بیان کرو اپنے پروردگار کی سورج نکلنے اور غروب ہونے سے پہلے.‘‘ 

(۲) عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ الْغِفَارِی رضی اللہ عنہ قَالَ: سَاَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ  : ھَلْ رَأَیْتَ رَبَّکَ؟ قَالَ: نُوْرٌ اَنّٰی اَرَاہُ؟ 
(صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب فی قولہ نور انی اراہ وفی قولہ رأیت نورا )

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  سے دریافت کیا: ’’کیا آپؐ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟‘‘ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’وہ تو نور ہے‘میں اسے کیونکر دیکھتا؟‘‘

(۳) عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ: کُنْتُ مُتَّـکِئًا عِنْدَ عَائِشَۃَ ( رضی اللہ عنہا) فَقَالَتْ: یَا اَبَا عَائِشَۃَ‘ ثَلَاثٌ مَنْ تَکَلَّمَ بِوَاحِدَۃٍ مِنْھُنَّ فَقَدْ اَعْظَمَ عَلَی اللّٰہِ الْفِرْیَۃَ‘ قُلْتُ: مَاھُنَّ؟ قَالَتْ: مَنْ زَعَمَ اَنَّ مُحَمَّدًا  رَآی رَبَّہٗ فَقَدْ اَعْظَمَ عَلَی اللّٰہِ الْفِرْیَۃَ‘ قَالَ: وَکُنْتُ مُتَّـکِئًا فَجَلَسْتُ فَقُلْتُ: یَا اُمَّ الْمُؤْمِنِیْنَ‘ اَنْظِرِیْنِیْ وَلَا تَعْجَلِیْنِیْ‘ اَلَمْ یَقُلِ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ وَلَقَدْ رَآہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی؟ فَقَالَتْ: اَنَا اَوَّلُ ھٰذہِ الْاُمَّۃِ سَأَلَ عَنْ ذٰلِکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ: اِنّمَا ھُوَ جِبْرِیْلُ‘ لَمْ اَرَہُ عَلٰی صُوْرَتِہِ الَّتِیْ خُلِقَ عَلَیْھَا غَیْرَ ھَاتَیْنِ الْمَرَّتَیْنِ‘ رَأَیْتُہٗ مُنْھَبِطًا مِنَ السَّمَائِ‘سَادًّا عِظَمُ خَلْقِہٖ مَا بَیْنَ السَّمَائِ اِلَی الْاَرْضِ فَقَالَتْ: اَوَلَمْ تَسْمَعْ اَنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ: لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَھُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ؟ اَوَلَمْ تَسْمَعْ اَنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ: وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَن یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَائُ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ؟ قَالَتْ: وَمَنْ زَعَمَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ کَتَمَ شَیْئًا مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ فَقَدْ اَعْظَمَ عَلَی اللّٰہِ الْفِرْیَۃَ‘وَاللّٰہُ یَقُوْلُ: یٰٓــاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ قَالَتْ: وَمَنْ زَعَمَ اَنَّہٗ یُخْبِرُ بِمَا یَکُوْنُ فِیْ غَدٍ فَقَدْ اَعْظَمَ عَلَی اللّٰہِ الْفِرْیَۃَ‘وَاللّٰہُ یَـقُوْلُ: قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَلْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ (صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب معنی قول اللّٰہ عزوجل ولقد راٰہ نزلۃ اخری… وسنن الترمذی‘ ابواب تفسیر القرآن‘ باب ومن سورۃ الانعام)

جناب مسروقؒ بیان کرتے ہیں : میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تکیہ لگائے بیٹھا تھا کہ انہوں نے فرمایا: ’’اے ابوعائشہ (مسروقؒ کی کنیت) تین باتیں ایسی ہیں کہ جو کوئی ان میں سے کوئی ایک بات بھی کہے تو اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا‘‘. میں نے کہا: وہ کیا 
ہیں؟ (حضرت عائشہؓ نے) فرمایا: ’’جس کسی کا یہ خیال ہو کہ حضرت محمد نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا‘‘. مسروقؒ کہتے ہیں: میں تکیہ لگائے ہوئے تھا‘(یہ سن کر) میں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور کہا: اُمّ المؤمنین! ٹھہرئیے‘ذرا میری بات تو سنئے اور جلدی نہ کیجئے‘کیا اللہ عزوجل نے یہ نہیں فرمایا: (ترجمہ) ’’اور اُس نے اُس کو روشن افق پر دیکھا ہے‘‘. ’’اور ایک مرتبہ پھر اس نے (سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ) اس کو اترتے دیکھا‘‘. اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ’’اس امت میں سب سے پہلے میں نے ہی رسول اللہ سے اس بارے میں دریافت کیا تھا تو آپؐ نے فرمایا تھا: ’’یہ تو جبریل علیہ السلام (کاذکر) ہے. میں نے ان کو ان کی اصل صورت میں جس پر انہیں پیدا کیا گیا ہے‘ان دو مواقع کے سوا کبھی نہیں دیکھا. (ان دو مواقع پر) میں نے انہیں آسمان سے نیچے اترتے دیکھا‘اور ان کی عظیم ہستی زمین و آسمان کے درمیان ساری فضا پر چھائی ہوئی تھی‘‘. پھر (حضرت عائشہؓ نے) فرمایا: ’’کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا؟ (ترجمہ) ’’نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں اور وہ نگاہوں کو پالیتا ہے. وہ بڑا باریک بیں اور باخبر ہے‘‘. اور کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی نہیں سنا؟ ’’اور کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یا تو وحی کے طور پر‘یا پردے کے پیچھے سے‘یا یہ کہ ایک فرشتہ بھیجے اور وہ اس پر اللہ کے اِذن سے وحی کرے جو کچھ اللہ چاہے‘یقینا وہ بلند مرتبت اور صاحب ِ حکمت ہے.‘‘

(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مزید) فرمایا: ’’اور جس کسی کا یہ خیال ہو کہ رسول اللہ نے کتاب اللہ میں سے کوئی بات چھپائی ہے تو اس نے بھی اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ گھڑا‘کیونکہ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے: (ترجمہ) ’’اے رسولؐ ‘جو کچھ آپ کی طرف آپ کے پروردگار کی جانب سے نازل ہوا ہے‘وہ لوگوں تک پہنچادیجئے‘اور اگر (بالفرض) آپؐ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا‘‘. پھر فرمایا: ’’اور جو کوئی یہ گمان رکھتا ہو کہ وہ آنے والے کل کے حالات بتا سکتا ہے اس نے بھی اللہ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا‘کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (ترجمہ) ’’کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا.‘‘ 

(۴) عَنِ ابْنِ عَوْنٍ اَنْبَـأَنَا الْقَاسِمُ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : مَنْ زَعَمَ اَنَّ مُحَمَّدًا  رَآی رَبَّہٗ فَقَدْ اَعْظَمَ وَلٰـکِنْ قَدْ رَآی جِبْرِیْلَ فِیْ صُوْرَتِہٖ وَخَلْقُہٗ سَادٌّ مَا بَیْنَ الْاُفُقِ
(صحیح البخاری‘ کتاب بدء الخلق‘ باب ذکر الملائکۃ) 

جناب عونؒ بیان کرتے ہیں کہ ہم سے حضرت قاسمؒ (بن محمدبن ابی بکرؓ ) نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا: ’’جس کسی کا یہ خیال ہو کہ حضرت محمد نے اپنے ربّ کو دیکھا ہے تو اُ س نے بہت بڑا جھوٹ بولا. بلکہ آپ نے حضرت جبریل ؑ کو ان کی اصل صورت میں دیکھا تھا کہ ان کی ہستی پورے افق کے مابین چھائی ہوئی تھی.‘‘

(۵ ) حَدَّثْنَا الشَّیْبَانِی قَالَ: سَأَلْتُ زِرَّ بْنَ حُبَیْشٍ عَنْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَـکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی قَالَ: اَخْبَرَنِی ابْنُ مَسْعُوْدٍ اَنَّ النَّبِیَّ  رَآی جِبْرِیْلَ لہٗ سِتُّ مِائَۃِ جَنَـاحٍ (صحیح البخاری‘ کتاب بدء الخلق‘ باب ذکر الملائکۃ. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب فی ذکر سدرۃ المنتہٰی)
ہمیں شیبانی ؒ نے بتایا کہ میں نے زِر بن حبیش ؒ سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں دریافت کیا کہ (ترجمہ) ’’یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا‘‘. تو انہوں نے کہا: ’’مجھے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی اکرم نے جبریل علیہ السلام کو اس صورت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے.‘‘ 

معراج میں نماز کی فرضیت سے متعلق ایک روایت سے اقتباس

عَنْ اَنَسِ ابْنِ مَالِکٍ قَالَ : کَانَ اَبُوْذَرٍّ یُُحَدِّثُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ  قَالَ : فُرِجَ سَقْفُ بَیْتِیْ وَاَنَا بِمَکَّۃَ فَنَزَلَ جِبْرِیْلُ… قَالَ: (صلی اللہ علیہ وسلم): فَرَجَعْتُ اِلٰی مُوْسٰیں فَاَخْبَرْتُہٗ‘ قَالَ: رَاجِعْ رَبَّکَ‘ فَاِنَّ اُمَّتَکَ لَا تُطِیْقُ ذٰلِکَ‘ قَالَ: فَرَاجَعْتُ رَبِّیْ‘ فَقَالَ: ھِیَ خَمْسٌ‘ وَھِیَ خَمْسُوْنَ‘ لَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ‘ قَالَ: فَرَجَعْتُ اِلٰی مُوْسٰی‘ فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّکَ‘ فَقُلْتُ: قَدِ اسْتَحْیَیْتُ مِنْ رَبِّیْ … (صحیح البخاری‘ کتاب الصلاۃ‘ باب کیف فرضت الصلاۃ فی الاسراء وکتاب احادیث الانبیاء وکتاب التوحید. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب الاسراء برسول اللّٰہ  الی السماوات وفرض الصلوات)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’میں مکہ میں تھا کہ میرے گھر کی چھت میں شگاف ہوا اور حضرت جبریلؑ نازل ہوئے … رسول اللہ  نے فرمایا: ’’میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور انہیں اس کے بارے میں بتایا‘‘. انہوں نے کہا: ’’اپنے رب کے پاس واپس جائیے‘کیونکہ آپؐ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی‘‘. آپؐ نے فرمایا: ’’میں پھر اپنے رب کے پاس واپس پلٹا‘تو رب تعالیٰ نے (نمازوں کی تعداد پانچ معین کرتے ہوئے) فرمایا: ’’یہ (اگرچہ) پانچ ہیں‘مگر (ثواب کے لحاظ سے) پچاس ہی ہیں‘میرے ہاں قول تبدیل نہیں ہوا کرتا‘‘. میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے پھر مجھے اپنے رب کے پاس واپس جانے کو کہا. مگر میں نے کہا کہ اب مجھے اپنے رب سے حیا آتی ہے…‘‘