اب ہم دنیا کے چند مشہور انقلابات کا جائزہ لیتے ہیں. ان میں ’’انقلابِ فرانس‘‘ بہت مشہور ہے اور اس میں شک نہیں کہ یہ واقعی انقلاب تھا. لیکن اس سے صرف سیاسی نظام میں تبدیلی آئی تھی. مذہب پہلے بھی عیسائیت تھا‘ بعد میں بھی وہی رہا. سماجی ڈھانچے (Social Structure) میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی.تو انقلابِ فرانس میں صرف سیاسی نظام تبدیل ہوا. دوسرا بہت مشہور انقلاب روس کا بالشویک انقلاب ہے جو ۱۹۱۷ء میں آیا. اس سے صرف معاشی نظام تبدیل ہوا. تمام ذرائع پیداوار قومیالیے گئے اور انفرادی ملکیت کا خاتمہ کر دیا گیا. نوٹ کیجئے کہ یہ دونوں انقلابات ہیں جبکہ رومن امپائر کا بیک وقت کرسچین ہو جانا انقلاب نہیں ہے.

اب ذرامحمد رسول اللہ کے برپاکردہ انقلاب کا جائزہ لیجئے. سب سے پہلے تو یہ دیکھئے کہ کیا واقعی حضور نے انقلاب برپا کیا یا ہم صرف جوشِ عقیدت میں یہ دعویٰ کر بیٹھتے ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ نے تاریخِ انسانی کا عظیم ترین انقلاب برپا کیا. یہ بات میں جذباتی انداز سے نہیں بلکہ ٹھنڈے تجزیئے 
(Cold Analysis) سے ثابت کرنا چاہتا ہوں. سب سے پہلے تومیں اس پر اغیار کی گواہیاں پیش کروں گا‘اس لیے کہ ’’اَلْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ‘‘ (اصل فضیلت وہ ہوتی ہے جس کا دشمن بھی اقرار کریں). دوست اور اعتقاد رکھنے والے تو ہر چیز کی تعریف ہی کریں گے‘ اصل تعریف وہ ہے جو دشمن کی زبان سے ہو.اگر شیردل کنگ رچرڈ نے صلاح الدین ایوبی کی تعریف کی تو معلوم ہوا کہ واقعتا صلاح الدین ایوبی بڑی عظیم شخصیت تھی.

ایم این رائے ایک بنگالی ہندو تھا اور وہ انٹرنیشنل کمیونسٹ آرگنائزیشن کا رکن تھا. اس نے ۱۹۲۰ء میں بریڈلا ہال لاہور میں ’’اسلام کا تاریخی کردار‘‘ 
(The Historical Role of Islam) کے عنوان سے لیکچر دیا اور کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب محمد ( ) نے برپا کیا. واضح رہے کہ وہ عقیدت مند نہیں ہے ‘ ایک بنگالی ہندو ہے اور ٹاپ کا کمیونسٹ ہے‘ لیکن وہ یہ بات تسلیم کررہا ہے. یہ تو ۱۹۲۰ء کی بات ہے‘ یعنی صدی کے آغاز سے ۲۰ برس بعد اب ۱۹۸۰ء پر آ جایئے‘ صدی کے اختتام سے ۲۰ برس قبل امریکہ میں ڈاکٹر مائیکل ہارٹ نے کتاب ’’ The 100‘‘ لکھی. اس کتاب میں اُس نے پانچ ہزار سالہ معلوم انسانی تاریخ میں سے ایسے ایک سو انسانوں کا انتخاب (selection) کر کے ان کی درجہ بندی (gradation) کی‘ جنہوں نے انسانی تمدن کے دھارے کے رخ کو موڑنے میں مؤثر کردار ادا کیا. اور اس درجہ بندی میں وہ نمبر ایک پر لایا محمد رسول اللہ کو.ڈاکٹر مائیکل ہارٹ مذہب کے اعتبار سے عیسائی ہے اور میری اطلاع کی حد تک ابھی زندہ ہے‘ اور مین ہٹن میں رہائش پذیر ہے. اس کی یہ کتاب دنیا میں بہت عام ہوئی ہے‘ لیکن اشاعت کے بعد وہ بہت جلد نایاب ہو گئی تھی اور عام خیال یہ تھا کہ شاید کسی سازش کے تحت اسے غائب کیا گیا ہے. اس لیے کہ اس نے اس کتاب میں (عیسائیوں کے نزدیک خدا کے اکلوتے بیٹے) حضرت مسیح علیہ السلام کو نمبر تین پر رکھا اور حضور‘ کو نمبر ایک پر لایا ‘ اور یہ بات عیسائی دنیا کے لیے قابلِ قبول اور قابلِ برداشت نہیں تھی. اس نے لکھا ہے :

My choice of Muhammad to lead the list of the worlds most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels". ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کے نزدیک انسانی زندگی کے دو علیحدہ علیحدہ میدان ہیں. ایک ہے مذہب‘ اخلاق اور روحانیت کا میدان‘ جبکہ ایک ہے تمدن‘ تہذیب‘ سیاست اور معاشرت کا میدان‘ اور ان دونوں میدانوں میں انتہائی کامیاب (Supremely successful ) انسان تاریخ انسانی میں صرف اور صرف ایک ہی ہیں اور وہ ہیں حضرت محمد . جن لوگوں کو بالعموم بڑا سمجھا جاتا ہے ان کی عظمت کسی ایک پہلو سے نمایاں ہوتی ہے. عبادت گزاری اور نفس کشی میں گوتم بدھ بہت اونچا ہے. اخلاقی تعلیمات کے اعتبار سے حضرت مسیح ؑ بہت اونچے ہیں‘ لیکن ریاست‘ حکومت اور سیاست میں ان کا کوئی دخل نہیں. فتوحات اور ملک گیری کے حوالے سے سکندرِ اعظم بہت اونچا ہے‘ اٹیلا بہت اونچا ہے‘ چنگیز خان بہت اونچا ہے‘ اکبر اعظم بہت اونچا ہے. اور بھی بڑے بڑے حکمران ہو گزرے ہیں لیکن دین‘ اخلاق اور روحانیت میں ان کا کوئی مقام تھا؟ یہاں زیرو سے بھی کام نہیں چلے گا ‘ minus لانا پڑے گا. تاریخِ انسانی میں صرف اور صرف ایک ہی انسان ہے جو ہر دو اعتبار سے بلند ترین اور کامیاب ترین قرار پاتا ہے اور وہ ہیں محمد رسول اللہ .

اغیار کی گواہیوں میں سے تیسری گواہی میں ایچ جی ویلز کی دیا کرتا ہوں‘ لیکن اس کی جس عبارت کا میں حوالہ دیتا ہوں‘ اس کی کتاب 
’’A Concise History of the World‘‘ کے نئے ایڈیشن سے اس عبارت کو نکال دیا گیا ہے.واقعتاکسی دشمن کی زبان سے اس سے بڑا خراجِ تحسین ممکن نہیں. اس لیے کہ ایچ جی ویلز بدترین دشمن ہے. اس نے حضور کی سیرتِ طیبہ پر سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین (دو بدبخت جومسلمانوں میں پیدا ہوئے) ان سے کہیں زیادہ زہریلے اور ان سے کہیں زیادہ کمینگی والے جملے کہے ہیں. لیکن جب اُس نے آنحضور کے خطبہ حجۃ الوداع کے مندرجہ ذیل الفاظ کا حوالہ دیا ہے تو وہ گھٹنے ٹیک کر خراجِ تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو گیا ہے.خطبہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ نے فرمایا تھا:

یَا اَیُّھَا النَّاسُ! اَ لَا اِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَاِنَّ اَ بَاکُمْ وَاحِدٌ ‘ اَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی اَعْجَمِیِّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا اَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی (مسند احمد‘ ح ۲۲۹۷۸)
’’لوگو! آگاہ ہو جاؤ‘ یقینا تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے. خبردار! نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر. اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر. فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے.‘‘

ایچ جی ویلز اگرچہ عیسائی ہے‘ لیکن خطبہ حجۃ الوداع کا حوالہ دینے کے بعد وہ یہ اعتراف کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے:
’’اگرچہ انسانی اخوت ‘ مساوات اور حریت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کہے گئے تھے اور ایسے وعظ ہمیں مسیح ناصری کے ہاں بھی بہت ملتے ہیں‘ لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محمد ( ) ہی تھے جنہوں نے تاریخِ انسانی میں پہلی بار ان اصولوں پر ایک معاشرہ قائم کیا.‘‘

چنانچہ دشمنوں کی گواہی سے بھی یہ بات ثابت ہو گئی کہ یہ تاریخِ انسانی کا عظیم ترین انقلاب تھا جو محمد رسول اللہ نے برپا فرمایا. انقلابِ محمدی (علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام) کا انقلابِ فرانس اور انقلابِ روس سے تقابل کریں تو نظر آتا ہے کہ انقلابِ فرانس میں صرف سیاسی نظام بدلا اور انقلابِ روس میں صرف معاشی نظام تبدیل ہوا لیکن انقلابِ محمدیؐ میں ہر چیز بدل گئی. مذہب بھی بدل گیا‘عقائد بھی بدل گئے‘ رسومات بھی بدل گئیں‘ سیاسی نظام بھی بدل گیا‘ معاشی نظام بھی بدل گیا‘ معاشرت بھی بدل گئی. کوئی بھی شے اپنی سابقہ حالت پر قائم نہیں رہی.ڈھونڈ کر بتایئے کہ فلاں چیز جوں کی توں رہ گئی. جہاں پڑھے لکھے لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے‘ اس قوم کو آپ نے علم کے میدان میں دنیا کا امام بنا دیا. انہوں نے نئے نئے علوم ایجاد کیے‘ پوری دنیا کا علم سمیٹ کر‘ ہندوستان اور یونان تک سے علم لے کر‘ اور اسے مزید develope کر کے دنیا کے سامنے رکھا. تو پہلی بات یہ ثابت ہوئی کہ دنیا کا جامع ترین‘ گھمبیر ترین اور most profound انقلاب محمد عربی کا انقلاب تھا‘ کوئی دوسرا انقلاب اس کے مقابلے میں نہیں آ سکتا. باقی سب جزوی (partial) انقلابات تھے. باقی تمام انقلابات میں آپ دیکھیں گے کہ فکر اور دعوت دینے والے کچھ اور لوگ تھے جبکہ انقلاب برپا کرنے والے کچھ اور.

مارکس اور اینجلز نے کتاب Das Capital جرمنی یا انگلستان میں بیٹہ کر لکھی‘ لیکن جرمنی اور انگلستان کے کسی ایک گائوں میں بھی مارکسسٹ انقلاب نہیں آیا‘ بلکہ تیسرے تیواڑے کہاں جا کر روس میں بالشویک اور مانشویک کے ہاتھوں انقلاب آیا‘ اور عین وقت پر فرنٹ پر لینن آ گیا. اس انقلاب کے برپا کرنے میں نہ مارکس کا کوئی حصہ ہے نہ اینجلز کا. تو فکر دینے والے اور تھے‘ اور انقلاب برپا کرنے والے اور. اسی طرح والٹیئر اور روسو جیسے بے شمار اصحابِ قلم تھے جنہوں نے حریت‘ آزادی اور جمہوریت کا ایک فکر دیا تھا‘ لیکن وہ محض ڈیسک ورکر تھے‘ کتابیں لکھ سکتے تھے‘ میدان میں آ کر قیادت نہیں کر سکتے تھے. لہٰذا فرانس میں انقلاب برپا کیا اوباش اور بدمعاش لوگوں نے . یہی وجہ ہے کہ انقلابِ فرانس انتہائی خونیں انقلاب تھا. اسے کنٹرول کرنے والا کوئی تھا ہی نہیں اور ہجوم (mob) جو چاہے کر گزرے .اب ذرا contrast دیکھئے کہ محمد رسول اللہ کا انقلاب دنیا کا واحد انقلاب ہے کہ ابتدا سے انتہا تک اس کی قیادت ایک ہی ہستی کر رہی ہے.ایک وقت میں وہی ہیں جو مکے میں street preaching کر رہے ہیں‘ گلی گلی گھوم کر دعوت دے رہے ہیں ‘ تبلیغ کر رہے ہیں. کوئی پاگل کہتا ہے‘ کوئی مجنون کہتا ہے‘ کوئی کہتا ہے شاعر ہیں. 

آپ سب برداشت کر رہے ہیں.آپؐ نے کبھی پلٹ کر نہیں کہا پاگل تم ہو. لیکن وہی شخص ہے جو میدانِ بدر میں فوج کی کمان کررہا ہے. کوئی ہے تاریخ میں اس کی مثال؟ میں پھر ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کے وہی الفاظ دہراؤں گا کہ He is the only, the only, the only person کہاں گلی گلی دعوت دینے والا ایک شخص ‘کہاں ایک فوج کی کمان کرنے والا قائد کوئی ہے مناسبت؟

اس حوالے سے ایک بڑی اہم بات نوٹ کیجئے کہ ٹائن بی پچھلی صدی کا ایک بہت بڑا فلاسفر آف ہسٹری گزرا ہے. اس نے حضور کے بارے میں ایک بڑا زہر میں بجھا ہوا جملہ کہا ہے :

"Muhammad failed as a prophet, but succeeded as a statesman."
یعنی ’’محمد( ) ایک نبی کی حیثیت سے تو ناکام ہو گئے(نقل کفر‘ کفر نباشد) البتہ ایک سیاست دان کی حیثیت سے کامیاب ہو گئے‘‘.

ٹائن بی کے اس ایک جملے کی شرح میں انگلینڈ کے پروفیسر ڈاکٹر منٹگمری واٹ نے دو کتابیں لکھ دیں : 
Muhammad at Mecca اور Muhammad at Madina ’’ محمد ایٹ مدینہ‘‘ میں اس نے بظاہر حضور کے لیے تعریف کے جو الفاظ ممکن تھے superlative ڈگری میں استعمال کیے‘ لیکن بباطن اس نے ایک تضاد (contrast) ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ مکے والا محمدؐ تو کچھ اور تھا اور یہ مدینہ والا محمدؐ ‘ کچھ اور ہے. ان تعریفی الفاظ سے دھوکہ کھا کر ضیاء الحق مرحوم نے اس منٹگمری واٹ کو مرکزی سیرت کانفرنس کے اجلاس میں چیف سپیکر کی حیثیت سے بلا لیا تھا. انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس نے کس عیاری سے سیرت ِ طیبہ میں یہ تضاد دکھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ دو محمد ( ) علیحدہ علیحدہ ہیں‘ ان کی تصویریں مختلف ہیں.

دراصل جب یہ لوگ حضور کی مکے کی زندگی دیکھتے ہیں تو اگرچہ وہ آپ کو نبی یا رسول نہیں مانتے لیکن وہ یہ ضرور مانتے ہیں کہ آپؐ ‘کی زندگی نبیوں سے کچھ مشابہ ہے. جیسے حضرت عیسیٰ ۟علیہ السلام گھوم پھر کر تبلیغ کرتے تھے‘ ایسے ہی حضرت محمد دکھائی دے رہے ہیں.جیسے حضرت عیسٰی ؑ کو جو کچھ کہا گیاانہوں نے برداشت کیا ‘کوئی جواب نہیں دیا‘ اسی طرح کا طرزِ عمل حضرت محمد نے بھی اختیار کیا. چنانچہ ان کے نزدیک یہ تو کچھ نبیوں والا نقشہ ہے‘ جس میں آپؐ (معاذ اللہ) فیل ہو گئے. یہاں سے تو ‘ بقول ان کے‘ جان بچا کر بھاگنا پڑا. وہ ہجرت کو 
flight (فرار) کا نام دیتے ہیں‘ حالانکہ flight تو کسی خوف کی بنیاد پر ہوتی ہے‘ جبکہ ہجرت خوف کی وجہ سے نہیں تھی‘ بلکہ یہ ایک حکمت عملی (strategy) تھی اور اس کا مقصد اپنے لیے متبادل Base تلاش کرنا تھا.بہرحال ان مستشرقین کو مدینے میں فروکش ایک بالکل نئے محمد( ) نظر آ رہے ہیں جو بڑے مدبر سیاستدان ہیں‘ جو ایک ریاست کے حکمران ہیں‘ جو فوج کے کمانڈر ہیں. یہاں آ کر آپؐ یہودیوں سے معاہدے کر رہے ہیں. یہاں پر ان کے تدبر ‘ statesmanship اور موقع شناسی کا کمال ظاہر ہو رہا ہے. ان کے نزدیک یہ آنحضور کی حیاتِ طیبہ کا تضاد ہے.
ا س کا حوالہ صرف اس لیے دے رہا ہوں کہ حضور کی زندگی اس اعتبار سے واقعتا 
contrast کی حامل ہے کہ ایک انقلابی دعوت کا آغاز بھی آپؐ نے کیا اور اسے کامیابی کی آخری منزل تک بھی خود پہنچایا. دنیا کے انقلابات میں سے کوئی بھی دوسرا انقلاب ایک حیاتِ انسانی کے عرصے (span) میں پورا نہیں ہوا‘ بلکہ فکر دینے والے مر کھپ گئے‘ بعد میں کہیں وہ فکر پروان چڑھا اور اس کی بنیاد پر کہیں انقلاب آ گیا. جبکہ محمد رسول اللہ کا انقلاب اس اعتبار سے منفرد اور لاثانی ہے کہ ایک انسانی زندگی کے اندر‘ کل ۲۳ سال کے عرصے میں ‘الف سے ی تک انقلاب کے تمام مراحل طے ہو گئے.

اس سے میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ آج عہدِ حاضر میں اجتماعیات‘ سوشیالوجی یا پولیٹکل سائنس کا کوئی طالب علم پوری دیانت داری سے انقلاب کا صحیح طریقِ کار اخذ کرنا چاہے تو اسے صرف محمد رسول اللہ کی سیرتِ طیبہ سے مکمل راہنمائی مل سکتی ہے. مارکس‘ اینجلز‘ لینن یا والٹیئر کی زندگیوں سے اس ضمن میں قطعاً کوئی راہنمائی حاصل نہیں ہو سکتی. گویا طریقِ انقلاب کے لیے اب دنیا کے سامنے صرف ایک ہی منبع و سرچشمہ (source) ہے اور وہ رسول اللہ کی سیرتِ طیبہ ہے.چنانچہ میں انقلاب کے طریقِ کار پر جو کچھ عرض کررہا ہوں اس کے لیے میرا source صرف سیرتِ محمدیؐ ہے. میں اسلامی اصطلاحات دین‘ اسلام‘ ایمان‘ جہاد اور قتال استعمال کیے بغیر جدید اصطلاحات میں انقلاب کے مراحل آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دورِ زوال کے دوران ان اصطلاحات کا مفہوم محدود اور مسخ (limited and perverted) ہو گیا ہے اور ہم جب بھی کوئی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس کا وہی مسخ شدہ تصور ذہن میں آتا ہے.لہذا اگر ان اصطلاحات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جدید terminology میں بات کی جائے تو انقلاب کا خاکہ نسبتاً آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے. اس کے بعد مناسب ہو گا کہ اس خاکہ میں قرآن و حدیث کی اصطلاحات‘ سیرت النبی اور واقعات کا رنگ بھر دیاجائے.