میں نے عرض کیا تھا کہ صبر محض (Passive Resistance) کی ابتدا داعی کی کردار کشی سے ہوتی ہے کہ اس کی قوتِ ارادی کو ختم کر دیا جائے .تین سال تک تنہا حضورﷺ اس ایذا رسانی کا ہدف بنے رہے ہیں. اور یہ زبانی ہوتی رہی کہ پاگل ہو گئے ہیں‘ مجنون ہو گئے ہیں. ہم انہیں کہتے تھے مت جایا کرو غارِحرا میں اور وہاں کئی کئی دن نہ رہا کرو‘ وہاں پر کوئی نہ کوئی آسیب سوار ہو گیا ہے‘ ان پر کوئی جن آ گیا ہے. کبھی کہا جاتا کہ انہوں نے شاعری شروع کر دی ہے‘ یا یہ کہ یہ ساحر بن گئے ہیں یا مسحور ہو گئے ہیں. یہ تمام تر آنحضورﷺ کی کردار کشی (Character Assassination) اور آپؐ ‘ کی قوتِ ارادی کو مجروح کرنے کی کوششیں تھیں اور یہ مت سمجھئے کہ اس سے حضورﷺ کو رنج نہیں ہوتا تھا. قرآن کی گواہی ہے : وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّکَ یَضِیۡقُ صَدۡرُکَ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۹۷﴾ (الحجر:۹٧ )’’اے نبیؐ ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ کہہ رہے ہیں ان سے آپ کا سینہ بھنچتا ہے‘‘. ان سے آپؐ ‘ کو صدمہ ہوتا ہے‘ آپ ؐ ‘کو اپنے سینے میں گھٹن محسوس ہوتی ہے کہ یہی ہیں جو مجھے الصادق اور الامین کہا کرتے تھے‘ آج یہ مجھے ساحر اور کذاب کہہ رہے ہیں. مجھ پر جھوٹ کاالزام لگا رہے ہیں. مجھ پر دھوکے کا الزام لگا رہے ہیں کہ کسی سے ڈکٹیشن لے کر ہم پر دھونس جماتا ہے کہ یہ مجھ پر اللہ کی وحی آ گئی ہے.لیکن اس کیفیت میں آپﷺ کے لیے حکم یہ تھا کہ وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا ﴿۱۰﴾ (المزمل) ’’جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کیجئے اور بھلے طریقے سے ان کوچھوڑ دیجئے‘‘.خوبصورتی کے ساتھ اپنا رخ موڑ لیجئے اور ان کو چھوڑیئے ‘کسی اور سے بات کیجئے. لیکن علیحدگی لٹھ مار کر نہ ہو. ہو سکتا ہے جو شخص آج بات نہیں سن رہا ‘کل سننے پر آمادہ ہو جائے.
تین سال کے بعد مشرکین کو محسوس ہوا کہ یہ تو چٹان کی طرح کھڑے ہیں اور دو باتیں بہت خطرناک ہو گئی ہیں .ایک تو ہماری نوجوان نسل ان کے گرد جمع ہو گئی ہے. یہ بنو امیہ کا چشم و چراغ عثمان ان کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو گیا ہے. یہ مصعبؓ بن عمیر اور سعدؓ بن ابی وقاص جیسے نوجوان ان کے گرد جمع ہو گئے ہیں‘ اور اس سے بھی بڑھ کر خطرناک معاملہ یہ کہ ہمارے غلام ان پر ایمان لے آئے ہیں. یہ تو ایسا معاملہ ہے جیسے کہیں پر بارود کا سٹور ہو اور وہاں پر چنگاری اڑ کرجارہی ہو. ہمارے غلام اگر کہیں ہمارے خلاف کھڑے ہو گئے اور انہوں نے ہم سے ہمارے مظالم کے بدلے چکانے شروع کیے تو کس بھاؤ بکے گی؟لہٰذا اب جسمانی تشدد و تعذیب (Physical Persecution) کا آغاز ہو گیا کہ انہیں مارو‘ انہیں بدترین جسمانی سزائیں دو‘ ان کو گھروں میں بند کر دو اور زنجیروں میں جکڑ کر رکھو. کھانے کو کچھ مت دو‘ بھوکا رکھو. غلام ہے تو بری طرح مارو‘ پیٹو‘ گلیوں میں گھسیٹو. حضرت سمیہ اور حضرت یاسر(رضی اللہ عنہما) کو ابوجہل نے بدترین اور شرمناک ترین تشد د کر کے شہید کیا. جوان بیٹے‘ عماربن یاسرؓ کو ستون سے باندھا اور ان کے سامنے حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا. مار مار کر تھک گیا تو کہا ایک دفعہ کہہ دو کہ ’’تمہارا معبودبھی سچا ہے‘‘ میں تمہیں چھوڑ دو ں گا. انہوں نے اس کے منہ پر تھوک دیا. پھر اس نے شرمگاہ کے اندر برچھا مارا جو جسم کے آر پار ہو گیا. حضرت یاسر ؓ کے جسم کو چار وحشی اونٹوں کے ساتھ باندھ کر ان کو چار مخالف سمتوں میں دوڑایا گیا تو ان کے جسم کے پرخچے اڑ گئے.
اس صورتِ حال میں رسول اللہﷺ کا حکم یہی تھا کہ کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ ابھی اپنے ہاتھ بندھے رکھو!اس کا فلسفہ میں بیان کر چکا ہو ں کہ مسلمان اُس وقت تعداد میں بہت قلیل تھے. اگر اس وقت وہ کوئی جوابی کارروائی کرتے تو انہیں کچل کر رکھ دیا جاتا. جبکہ انہیں ایک قوت بننے کے لیے مہلتِ عمل درکار تھی. دوسرے یہ کہ تشدد کا یکطرفہ نشانہ بننے سے انہیں عوام کی ہمدردیاں حاصل ہو رہی تھیں.حضرت بلال ؓ کی گردن میں رسی ڈال کر ان کا آقا چھوکروں کے ہاتھ میں تھما دیتا کہ اسے کھینچو. جیسے ان دنوں عراق کی ابوغریب جیل میں قیدیوں پر تشدد کی تصویریں شائع ہوئی ہیں کہ قیدیوں کو برہنہ کر کے گلے میں رسی ڈال کر انہیں زمین پر گھسیٹا جا رہا ہے‘ حضرت بلالؓ کے ساتھ یہ معاملہ مکہ کی گلیوں کے اندر ہوا. انہیں نوکیلے پتھروں والی زمین پر اس طرح گھسیٹا جاتا جیسے مردہ جانور کی لاش گھسیٹی جاتی ہے. لوگ اس منظر کو دیکھتے اور سوچتے کہ بلال کے ساتھ یہ سلوک کیوں ہو رہا ہے؟ کیا اس نے چوری کی ہے یا آقا کی بیٹی کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے؟ وہ جانتے تھے کہ ایسی کوئی بات نہیں. بلالؓ کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ )اللہ کے رسول ہیں.اس کا نتیجہ یہ تھا کہ عوام کی ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ بڑھ رہی تھیں.
ایک بات نوٹ کر لیجئے کہ دس نبوی تک حضورﷺ پر کسی نے دست درازی نہیں کی. اس کی وجہ یہ تھی کہ حضورﷺ کو اپنے خاندان بنوہاشم کی پشت پناہی حاصل تھی. اگرچہ بنوہاشم سب ایمان نہیں لائے تھے‘ بلکہ ان میں ابولہب جیسے بدترین دشمن بھی تھے‘ لیکن بنوہاشم کے سردار ابوطالب تھے اور وہ حضورﷺ کو تحفظ فراہم کر رہے تھے. قبائلی نظام میں قبیلے کا سردار جس کسی کو تحفظ دے دیتا ‘پورا قبیلہ اس کے پیچھے ہوتا.لہذا اگر شعب بنی ہاشم میں تین سال کی نظربندی ہوئی ہے تو پورا خاندانِ بنی ہاشم اس میں شریک تھا‘ صرف مسلمان محصور نہیں تھے. ابوطالب سے کفارِ مکہ کا مطالبہ تھا کہ وہ محمد (ﷺ ) کی پشت پناہی چھوڑ دیں تاکہ ہم ان سے نمٹ سکیں‘ لیکن انہوں نے اس سے انکار کر دیا . سن ۱۰ نبوی میں ابوطالب کا انتقال ہو گیا‘اسی سال حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا بھی انتقال ہو گیا. حضورﷺ جب باہر سے تھکے ہوئے گھر آتے‘ طبیعت میں انقباض ہوتا کہ آج فلاں شخص نے پاگل کہہ دیا‘ فلاں نے ساحر کہہ دیا‘ تو گھر میں ایک دلجوئی کرنے والی وفاشعار شریکۂ حیات تو موجود تھی‘ وہ بھی اللہ نے اٹھا لی. ابوطالب خاندانی طور پر ساتھ دے رہے تھے‘ ان کا سایہ بھی اٹھ گیا. اس سال کو آپﷺ نے ’’عام الحزن‘‘ کا نام دیا کہ یہ ہمارے لیے غم کا سال ہے. ابوطالب کے انتقال سے آپﷺ کو جو خاندانی تحفظ حاصل تھا وہ ختم ہو گیا. لہذا اب دارالندوہ میں فیصلہ ہوگیا کہ محمد (ﷺ ) کو قتل کر دیا جائے. مشورہ یہ ہوا کہ کوئی ایک آدمی قتل نہ کرے‘ ورنہ اس کے خلاف پورا خاندانِ بنوہاشم کھڑا ہو جائے گا ‘ بلکہ اس مقصد کے لیے تمام قبیلوں سے نوجوانوں کو چنا جائے جو بیک وقت جا کر حملہ کریں تاکہ یہ معلوم کرنا مشکل ہو جائے کہ کس نے قتل کیا ہے. مکہ کی سرزمین تنگ ہوتی نظر آئی تو آپﷺ نے طائف کا سفر اختیار کیا کہ شاید وہاں کوئی امیر یا کوئی سردار ایمان لے آئے تو میں اپنا مرکز وہاں شفٹ کر دوں . وہاں حضورﷺ کے ساتھ تین دنوں میں جو کچھ بیتی ‘وہ مکہ میں دس سال میں نہیں بیتی تھی. آپﷺ پر پتھراؤ ہوا‘ شدید ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور جسمِ اطہر خون سے لہولہان ہوا. اس موقع پر آپؐ ‘ کے قلب کی گہرائیوں سے جو فریاد نکلی ہے اسے نقل کرتے ہوئے بھی کلیجہ شق ہوتا ہے:
اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ
’’اے اللہ! کہاں جاؤں‘ کہاں فریاد کروں‘ تیری ہی جناب میں فریاد لے کر آیا ہوں‘ اپنی قوت کی کمی اور اپنے وسائل و ذرائع کی کمی کی اور لوگوں میں جو رسوائی ہو رہی ہے‘ اس کی.‘‘
اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ؟ اِلٰی بَعِیْدٍ یَجْھَمُنِیْ اَوْ اِلٰی عَدُوٍّ مَلَّکْتَ اَمْرِیْ؟
’’اے اللہ! تو مجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کیا تو نے میرا معاملہ دشمنوں کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ جو چاہیں میرے ساتھ کر گزریں؟‘‘
اِنْ لَمْ یَکُنْ عَلَیَّ غَضَبُکَ فَلَا اُبَالِیْ!
’’پروردگار! اگر تیری رضا یہی ہے اور اگر تو ناراض نہیں ہے تو پھر میں بھی راضی ہوں‘ مجھے اس تشدد کی کوئی پروا نہیں ہے.‘‘
اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمٰتُ
’’اے ربّ! میں تیرے روئے انور کی ضیاء کی پناہ میں آتا ہوں جس سے ظلمات منور ہو جاتے ہیں.‘‘ اس سے گہری کوئی فریاد ہو سکتی ہے؟ لیکن دیکھئے‘ حضورﷺ کی دو نسبتیں ہیں‘ مقامِ عبدیت اور مقامِ رسالت. (وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُـــہٗ) یہاں وہ نسبتِ عبدیت غالب آ رہی ہے: اِنْ لَمْ یَکُنْ عَلَیَّ غَضَبُکَ فَلَا اُبَالِیْ ’’پروردگار اگر تو ناراض نہیں ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں !‘‘ سرِتسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے!!